ہمارے ہاں لین دین کی ایک قسم رائج ہے جس میں ایک شخص دوسرے شخص سے گندم کچھ ماہ کے لیے گندم ہی کے بدلے میں ادھار لیتا ہے۔ ہمارا تعلق دیہی سماج سے ہے، جس میں ہم اپنی ضرورت کے مطابق سال بھر کی گندم جمع کر کے رکھتے ہیں جو اندازے کے مطابق ہوتی ہے، کبھی کچھ مقدار کم پڑ جاتی ہے کبھی زیادہ ہو جاتی ہے، مثلاً میرے ایک عزیز ہمارے گھر آئے فروری کے مہینے میں اور کہا کہ مجھے ایک بوری (سو کلوگرام) گندم ادھار دے دیں، فصل اترنے پر میں آپ کو اتنی ہی مقدار گندم واپس کر دوں گا (گندم کی فصل اپریل میں اترتی ہے) جب کہ میرے پاس گندم ضرورت سے اتنی زیادہ ہے کہ اگر اسے گندم دے دوں تو اس سے میری ضرورت پر کو ئی اثر نہیں پڑتا، اس طرح گندم ادھار دینا جس میں واپس گندم کی اتنی ہی مقدار لی جائے جتنی دی تھی اور دورانیہ اس طرح متعین نہ ہو دو ماہ سےکچھ دن کم یا زیادہ ہو سکتا ہے، اس طرح کے لین دین کا ہمارے ہاں رواج بھی ہے، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے لین دین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
گندم کے بدلے گندم ادھار لینا جائز ہے بشرطیکہ ادھار لی گئی گندم کی مقدار معلوم و متعین ہو اور اتنی ہی گندم واپس کی جائے،اندازے سے گندم کی ادھار کا لین دین جائز نہیں ہے۔ مذکورہ صورت میں گندم کی مقدار سو کلو کی بوری کی صورت میں متعین ہے، لہٰذا یہ معاملہ جائز ہے۔
حاشية رد المختار على الدر المختار - (5 / 167):
" (قوله :استقراض العجين وزناً يجوز ) هو المختار، مختار الفتاوى. واحترز بالوزن عن المجازفة فلايجوز". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200410
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن