Channel timez mein investment halal Hai ya haram چینل ٹائمز کے بارے میں پوچھے جانے والے بنیادی سوالات اور ان کے جوابات درج ذیل ہیں، ان کی روشنی میں شرعی حکم واضح فرمائیں:
س1: چینل ٹائمز کیا ہے؟
ج1: چینل ٹائمز اٹلی کی کمپنی ہے جو کہ اشتہارات کی اشاعت میں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے. اس کمپنی کا بنیادی کام چینلز سے ٹائم خریدنا اور اشتہارات کی خواہش مند کمپنیز کو بیچنا ہے۔ جس کے لیے ایک بہت بڑی رقم درکار ہوتی ہے۔ یہ رقم یوزرز( یعنی کہ انویسٹر) سے لی جاتی ہے۔ جس کے بدلے میں کمپنی اپنے پرافٹ کا 70فیصد یوزرز کے ساتھ بانٹتی ہے۔
س2: ہم اس میں کیسے انویسمنٹ کرسکتے ہیں؟
ج2: اس میں انویسٹمنٹ کرنے کا طریقہ نہایت آسان ہے۔ کمپنی آپ کو سیکنڈز بیچتی ہے۔ جو آپ خرید سکتے ہیں۔
س3: کیا ہم کمپنی میں براہِ راست انویسٹمنٹ کرسکتے ہیں؟
ج3: نہیں آپ کمپنی میں براہِ راست انویسمنٹ نہیں کرسکتے۔ آپ کو انویسٹمنٹ کے لیے کسی کے ریفرنس کا سہارا لینا پڑے گا۔
س4: کم سے کم کتنی انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں؟
ج4: کم سے کم آپ ایک سیکنڈ خرید سکتے ہیں جس کی قیمت 150$ ہے۔
س5: 150$ کی انویسٹمنٹ پر کتنا منافع ملتا ہے؟
ج5: 150$ کی انویسٹمنٹ پر 30$ ماہانہ ملتے ہیں۔ آپ کو روزانہ 1$ ملتا ہے جو کہ مہینے کے آخر تک 30$ ہو جاتے ہیں۔
س6: یہ پیسے کیسے نکلواسکتے ہیں؟
ج6: انویسٹمنٹ کرتے وقت آپ کا پرفیکٹ منی اکاؤنٹ بنایا جاتا ہے جس کے ذریعے آپ کمپنی کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع بھی کروا سکتے ہیں اور پیسے نکلوا بھی سکتے ہیں۔ آپ اپنی رقم 1-ایزی پیسہ اکاؤنٹ 2- اومنی اکاؤنٹ 3- جیز کیش یا پھر اپنے بینک اکاؤنٹ سے حاصل کر سکتے ہیں.
س7- کیا رقم ٹرانسفر کرتے وقت کوئی ٹیکس لگتا ہے؟
ج7- فنڈ ٹرانسفر کرنے پر ہر دفعہ 8 فیصد ٹیکس کٹوتی ہوگی۔
س8: کیا یہ رقم سود سے پاک ہے؟
ج8: جی ہاں یہ رقم سود سے پاک ہے؛ کیوں کہ سود ہوتا ہے جس میں ہم اپنی اصل رقم پر بغیر کسی محنت کے اضافی منافع کماتے ہیں اور ہماری اصل رقم برقرار رہتی ہے اور ہمیں کوئی نقصان کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن چینل ٹائمز آپ کو اپنا پارٹنر بناتی ہے اور اپنا منافع آپ سے بانٹتی ہے۔ گویا کہ آپ کی اصل رقم برقرار نہیں رہتی۔
س9: رقم نہ ڈوبنے کی کیا ضمانت ہے؟
ج9: دنیا کا کوئی بھی کاروبار ایسا نہیں کہ جس میں رقم کے ڈوب جانے کا خدشہ نہ ہو تا ہو۔ اسی طرح اسلامی ضابطہ کاروبار میں بھی وہ ہی بزنس حلال ہے جس میں نفع اور نقصان دونوں ہوں۔ لہٰذا اگر کمپنی نقصان میں چلی جاتی ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کے آپ کی رقم بھی ڈوب سکتی ہے۔ لیکن کمپنی کی موجودہ مالی حالت بہت مضبوط ہے۔ اور دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے۔
س10- کیا ہم اپنی انکم کو 30$ سے بڑھا سکتے ہیں؟
ج10: جی ہاں- کمپنی آپ کو بنیادی تیس ڈالر کے ساتھ ساتھ تین قسم کے بونس آفر کرتی ہے۔ لیکن اس کے لیے آپ کو مزید افراد کو اپنے under اس کاروبار میں شامل کرنا پڑتا ہے۔ جس کی تفصیلات ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
چینل ٹائمز کمپنی کی ویب سائٹ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ :
مذکورہ کمپنی کے اس معاملے میں دو عقد انجام پارہے ہیں:
ایک عقد چینل والوں اور اس ادارے چینل ٹائمز کے درمیان ہے، یہ عقدِ اجارہ ہے جس میں یہ ادارہ ان چینل والوں سے اشتہار کے چلانے کے لیے ان کے چینل کو کرایہ پر لیتا ہے۔
دوسرا عقد اس میں سائل اور اس ادارے کے درمیان ہے کہ جس میں سائل اپنی رقم اس ادارے والوں کو چینل کا وقت خریدنے کے لیے مہیا کرتا ہے۔اور اس میں جتنا اس کا سرمایہ ہوگا اس کے حساب سے ایک متعین نفع اس کو ملتا ہے، جیسے 150 ڈالر پر ایک ڈالریومیہ۔ مزید یہ کہ نئے لوگوں کو اس میں شامل کرانے پر ہر ایک کے ممبر کے بدلہ کچھ کمیشن بھی دیا جاتا ہے ۔
اس عقد میں درج ذیل مفاسد ہیں جس کی وجہ سے یہ عقد ناجائز ہے:
لہذا مذکورہ ادارے سے اس نوعیت کا معاہدہ کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر کسی نے یہ عقد کرلیا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس عقد کو ختم کردے اور اپنی اصل رقم واپس لےلے۔
"عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنه قال: سمعت النبي صلی اﷲ علیه وسلم یقول: إن أشد الناس عذاباً یوم القیامة المصورون".
(صحيح البخاري، باب عذاب المصورین یوم القیامة، النسخة الهندیة۲/ ۸۸۰، رقم:۵۷۱۷، ف:۵۹۵۰)
حاشية ابن عابدين (6/ 91):
"( للمستأجر أن يؤجر المؤجر الخ ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل، إلا في مسألتين كما مر أول باب ما يجوز من الإجارة".
صحيح مسلم ، باب لعن أکل أمر باوموکله، النسخة الهندیة۲۷/۲۷، بیت الأفکار، رقم:۱۵۹۸:
"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، آکل الربوا، ومؤکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".
سنن النسائي، البحث علی ترک الشبهات، النسخة الهندیة۲/۲۸۵:
"عن أبي الحوراء السعدي، قال: قلت للحسن بن علي: ما حفظت من رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم؟ قال: حفظت منه: «دع ما یریبک إلی مالا یریبک».
الفتاوى الهندية،كتاب الشركة،،قديمي ج٢،ص٣٠٢:
"وأن يكون الربح معلوم القدر فإن كان مجهولاً تفسد الشركة، وأن يكون الربح جزأً شائعاً في الجملة لا معيناً، فإن عين عشرةً أو مأةً أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً".
الدر مع الرد، كتاب المضاربة، ص٦٤٨،ج٥ كراچي:
"وكون الربح بينهما شائعاً، فلو عين قدراً فسدت، وكون نصيب كل منهما معلوماً عند العقد".
ردالمحتار، كتاب الشركة،مطلب في شركة العنان:
"إن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، والوضيعة بينهما علي قدر رأس مالهما أبداً".
ردالمحتار ص٤٤ ج:
"قال في التتارخانیة: وفي الدلال والسمسار یجب أجرالمثل، وما تواضعوا علیه إن في کل عشرة دنانیر کذا فذلک حرام علیهم. وفي الحا وي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا باس به، وإن کان في الأصل فاسداً؛ لکثرة التعامل".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200365
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن