بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی مسجد زمین بوس ہونے پر نئی جگہ مسجد بنانا


سوال

 ہمارے گاؤں محمود آباد بالاکوٹ کی مسجد زلزلہ ۲۰۰۵ میں کافی متاثر ہو گئی تھی اگرچہ زمین بوس نہیں ہوئی تھی۔ بڑے زلزلے کے بعد چوں کہ مسلسل زلزلے آ رہے تھے، اس لیے آبادی نے اس مسجد کے بجائے دوسری جگہ عارضی مصلیٰ بنا کر نمازیں شروع کر دیں۔ جب زلزلے کم ہوئے اور یقین ہو گیا کہ اب مسجد زمین بوس نہیں ہو گی تو کچھ لوگوں نے مسجد ہی میں نمازیں پڑھنا شروع کر دیں۔ جس کے بعد یہ صورت بن گئی کہ کچھ لوگ اصل مسجد میں نماز پڑھتے تھے اور کچھ لوگ عارضی مصلیٰ میں۔ اب حال ہی میں چند ماہ پہلے مسجد کو زمین بوس کر دیا گیا ہے اور مسجد کے لیے جو جگہ وقف تھی وہ صاف کر دی گئی ہے۔ اور مصلیٰ کی جگہ کے مالک نے بھی جگہ وقف کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب ایک رائے یہ ہے کہ اصل مسجد کی جگہ پر ہی دوبارہ مسجد بنائی جائے؛ کیوں کہ گاؤں کی ابتدائی مسجد وہی ہے اور اگر مسجد دوسری جگہ بنائی گئی تو یہ جگہ بے مصرف رہ جائے گی اور اس کا تقدس بحال رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اور دوسری رائے یہ ہے کہ باہمی مشورہ سے دوسری جگہ کا انتخاب کر کے نئی مسجد بنا دی جائے اور اصل مسجد کی جگہ کو خاردار تاریں لگا کر محفوظ کر دیا جائے۔

براہِ مہربانی تفصیل سے وضاحت فرما دیں کہ درج بالا صورت میں:

۱۔ نئی جگہ مسجد بنانے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ یا اصل مسجد کو ہی دوبارہ بحال کیا جائے؟

۲۔ اگر نئی جگہ مسجد بنائی جائے تو سابقہ مسجد کی جگہ کا کیا حکم ہو گا اور اس کا کیا انتظام کیا جائے؟

۳۔ نیز درج بالا صورتِ حال میں اولیٰ اور غیر اولیٰ کی بھی وضاحت فرما دیں؟

جواب

مسجد  ہمیشہ کے لیے مسجد ہوتیہے ،مسجد کی عمارت کے زمین بوس ہو جانے کے بعد بھی وہ جگہ مسجد ہی رہتی ہے، لہذا مسئولہ صورت میں سابقہ مسجد کی جگہ نئی تعمیر کرنی چاہیے، نئی جگہ مسجد  تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں۔  نیز یہ مسئلہ اولی غیر اولی کا نہیں، بلکہ  ضروری ہے کہ نئی کے بجائے پرانی جگہ ہی کو تعمیر کیا جائے،  ورنہ پرانی مسجد کو ویران کرنا لازم آئے گا۔

تمام اجزاء کے جوابات گزشتہ بحث میں آگئے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 358):
’’(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجداً عند الإمام والثاني) أبداً إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسي.
لایجوز استبدال العامر إلا فی أربع: قال الشامي: والثالثة أن یجحده الغاصب ولا بینة أي و أراد دفع القیمة فللمتولي أخذها لیشتري بها بدلاً‘‘. (شامي، کتاب الوقف، مطلب لایستبدل العامر إلا في أربع)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں