ظہر ،عصر اور عشاء کی پہلی چار سنتوں کے بدلے میں قضا نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ مسیب کا معنی کیا ہے؟
1۔ اگر کسی شخص پر قضا نمازوں کی ادائیگی باقی ہو تو اسے جلد از جلد قضا نمازیں ادا کر لینا چاہیے، لیکن اس کی وجہ سے سنتِ مؤکدہ ترک نہ کی جائیں، ظہر سے پہلے کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں، ان سے پہلے قضا نماز پڑھ لیں، اس کے بعد سنتیں ادا کریں، البتہعصر اور عشاء سے پہلے چوں کہ سنتِ غیر مؤکدہ ہیں، اس لیے اگر اتنا وقت نہ ہو کہ سنتیں پڑھنے کے ساتھ قضا بھی ادا کرسکیں تو ان دو اوقات میں سنتِ غیر مؤکدہ کی بجائے قضا نماز پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں۔
2۔ مسیب" (میم پر پیش،سین پر زبر،یاء مشدد کے اوپر زبر) کے ساتھ اس کا معنی آزاد چھوڑا ہوا ہے، سعید بن مسیب مشہور تابعی ہیں، "مسیب" ان کے والد جلیل القدر صحابی ہیں، جو بیعتِ رضوان میں شریک تھے، لہٰذا صحابی کے نام کی نسبت سے مسیب نام بلاتردد رکھا جاسکتاہے۔
معجم الکبیر للطبرانی میں ہے:
"مسيب بن حزن بن أبي وهب بن عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم " وأمه أم الحارث بنت شعبة بن عبد الله بن أبي قيس بن عبد ود بن نصر بن مالك بن حسل ، وهو أبو سعيد بن المسيب وكان ممن بايع تحت الشجرة " ( 815 ) حدثنا علي بن عبد العزيز ، ثنا أبو حذيفة ، ثناسفيان ، عن طارق بن عبد الرحمن ، قال : قلت لسعيد بن المسيب : أين مسجد الشجرة؟ فضحك وقال: ما ندري ، ثم قال: أخبرني أبي أنه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم ذلك العام وأنهم أنسوها ". ( المعجم الكبير، باب الميم، من اسمه مسيب، مسيب بن حزن بن أبي وهب) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200477
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن