بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفع کی مقدار


سوال

اس موجودہ مہنگائی کی صورتِ حال میں سو روپے پر کتنا پرافٹ لینا چاہیے؟

جواب

شریعت نے اشیاء کی خرید و فروخت میں نفع کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں کی، حالات اور مواقع اور تاجر کی محنت  کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے۔ 

"وعن أنس قال: غلا السعر على عهد النبي صلى الله عليه و سلم فقالوا : يا رسول الله! سعّر لنا! فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى ربي وليس أحد منكم يطلبني  بمظلة بدم ولا مال" . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي".

ترجمہ: اور حضرت انس کہتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اللہ کے زمانہ میں غلہ کا نرخ مہنگا ہو گیا تو صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے، یعنی تاجروں کو حکم دے دیجیے کہ وہ اس نرخ سے غلہ فروخت کیا کریں ۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا، اللہ ہی تنگی پیدا کرنے والا، اللہ ہی فراخی دینے والا اور اللہ ہی رزق دینے والا ہے ۔ میں اس بات کا امیدوار اور خواہش مند ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ  پر تم میں سے کسی کے خون اور مال کا کوئی مطالبہ نہ ہو۔

البتہ اتنی بات ضروری ہے کہ غذائی بحران کی صورتِ حال میں کھانے کی اشیاءِ ضرورت میں اس قدر نفع نہ رکھا جائے جس سے عام صارف پر ناقابل برداشت بوجھ پڑے۔اسی لیے حکومت کے لیے یہ بات جائز ہے کہ وہ  انسانی کی بنیادی ضرورت کی اشیاء کے بحران میں قیمتوں کے ریٹ طے کرے؛  تاکہ تاجر اس سے زیادہ نفع نہ اٹھاسکیں۔

تاہم جب بحرانی کیفیت نہ ہو، اور اَرزاں یا مناسب نرخ پر بیچنے والے افراد بازار میں موجود ہوں، یا غذا کے علاوہ دیگر اشیاء کی فروخت کا معاملہ ہو تو وہاں خریدار اور فروخت کنندہ کی باہمی رضامندی سے کوئی بھی قیمت طے کرکے سودا کرنا اور نفع کمانا جائز ہے۔ 

الموسوعة الفقهية الكويتية (11/ 304):
"تقدم أن الأصل منع التسعير، ومنع تدخل ولي الأمر في أسعار السلع، إلا أن هناك حالات يكون للحاكم بمقتضاها حق التدخل بالتسعير".

الموسوعة الفقهية الكويتية (11/ 304):
"قال الحنفية: لاينبغي للسلطان أن يسعر على الناس، إلا إذا تعلق به دفع ضرر العامة، كما اشترط المالكية وجود مصلحة فيه، ونسب إلى الشافعي مثل هذا المعنى. وكذا إذا احتاج الناس إلى سلاح للجهاد، فعلى أهل السلاح بيعه بعوض المثل".

الموسوعة الفقهية الكويتية (11/ 306):
إذا تواطأ التجار أو أرباب السلع على سعر يحقق لهم ربحا فاحشا، أو تواطأ مشترون على أن يشتركوا فيما يشتريه أحدهم حتى يهضموا سلع الناس يجب التسعير،

الموسوعة الفقهية الكويتية (11/ 306):
"ولهذا منع غير واحد من العلماء - كأبي حنيفة وأصحابه - القسام الذين يقسمون بالأجر أن يشتركوا، فإنهم إذا اشتركوا، والناس محتاجون إليهم أغلوا عليهم الأجر".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں