بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے موقوفہ زمین کو فروخت کرنا


سوال

ہمارے گاؤں کی مسجد کے لیے ایک شخص نے ایک مکان اور کچھ زمین وقف کی تھی جس کو ہمارے ہاں”ملکانہ کی زمین“ کہا جاتا ہے۔ تاکہ جو بھی امام صاحب اس مسجد میں امامت کرے گا وہ اس مکان میں رہائش اختیار کرے اور اس زمین کی کاشت کرکے اس کے غلے سے اپنی ضروریات پوری کیا کرے۔ پھر جو بھی امام صاحب اس مسجد میں امامت کرتے تھے وہ اس مکان اور زمین کو استعمال کرتے تھے۔ لیکن ایک امام صاحب آئے ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے امام بنے۔ اب وہ بھی انتقال کرگئے ہیں، لیکن ان کے ورثاءمیں کوئی امامت کے لائق نہیں ہے۔ لیکن ان کے ورثاءنے وہ مکان اور زمین سرکاری کاغذات میں اپنے نام انتقال کروایا ہوا ہے اور اس میں سے بعض زمین کو بیچا بھی ہے۔ اب امامت گاؤں کے دوسرے قاری صاحب کر وا رہے ہیں۔ وہ مکان ہمارے پڑوس میں ہے، یعنی درمیان میں ایک دیوار ہے اور وہ لوگ اس مکان کو بیچ رہے تھے، لیکن اس مکان کو ایسے لوگ خرید رہے تھے جو ہمارے مزاج کے موافق نہیں تھے اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ لوگ ہمارے پڑوس میں آجائیں۔ اس لیے وہ مکان ہم نے خرید لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مکان کا خریدنا ہمارے لیے شرعاًً  کیسا ہے؟

جواب

مذکورہ زمین جو کہ مالک نے مسجد کے لیے وقف کردی تھی، اور اس بات کی صراحت کی تھی کہ جو بھی امام مسجد میں خدمات سرانجام دے گا یہ زمین اس کی رہائش اور غلہ کے لیے وقف ہے ،تو شرعاً یہ وقف مکمل ہوچکاہے، وقف کی زمین کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھنا یااپنے نام پر مالکانہ حقوق کے ساتھ منتقل کروانا ناجائزہے۔وقف شدہ زمین کو اس کے مقاصد کے لیے برقرار رکھاجائے گا۔

شرعی طورپروقف کی جائے داد  کو نہ توکوئی شخص  فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہی وقف کی زمین کو خریداجاسکتاہے، لہذا مذکورہ امام کے ورثاء میں سے جنہوں نے اس زمین کو اپنے نام منتقل کرکے فروخت کیاہے یہ عمل ناجائز ہے، وقف کا جوحصہ بیچ دیا گیا ہے اُس کی بیع فسخ کرکے  وقف  کو واپس کرنا ضروری ہے۔

"فإذا تم ولزم لایملک ولا یملَّک ولایعار ولایرهن". (الدر المختار)

"قوله: لایملک أي لایکون مملوکًا لصاحبه، ولایملَّک: أي لایقبل التملیک لغیره بالبیع ونحوه، لاستحالة تملیک الخارج عن ملکه، ولایعار ولایرهن لاقتضائهما الملک".  (الدر المختار مع الشامي، کتاب الوقف 4؍352 کراچی)

ہدایہ میں ہے :

"إذا صح الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه، أما امتناع التملیک؛ فلما بینا من قوله علیه السلام: تصدق بأصلها، لایباع ولایورث ولایوهب". (الهدایة، کتاب الوقف، 3/14 بیروت)فقط واللہ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 143907200041

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں