بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضائے عمری کا طریقہ


سوال

بلوغت کے بعد سے کچھ نمازیں قضا ہوئیں جن کی نا تو تعداد معلوم ہے اور نا ان کے نام، یعنی کون سی نمازیں قضا ہوئیں، اب اس صورت میں کس طریقے سے حساب لگایا جائے؟ اور دوبارہ صاحبِ ترتیبی کا شرف حاصل ہو؟

جواب

اگر کئی مہینوں یا سالوں کی نمازیں قضا ہوگئی ہیں تو ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے،  قضائے عمری کا سہل طریقہ یہ ہے کہ جتنے مہینوں یا سالوں کی نمازیں رہ گئی ہیں اس کا اندازا  کرلیا جائے اور اندازے  میں زیادہ کو اختیار کیا جائے، مثلاً اگر شبہ ہو کہ نوے دن کی نمازیں قضا ہیں یا اسی دن کی تو نوے دن کو مانا جائے اس کے بعد نمازوں کا اندازا  کرلیا جائے، مثلاً 90 نمازیں فجر کی، 90ظہر کی، 90عصرکی،  90 مغرب کی، 90 عشاء کی ، وتر کی 90، ان کو  اسی حساب سے کاغذ وغیرہ پر نوٹ کرلیا جائے اور ہروقت کے ساتھ اس وقت کی قضا نماز ایک، دو، پانچ جتنی پڑھنی ہوں پڑھ لی جائیں اور نماز ادا کرتے وقت یہ نیت کی جائے کہ ظہر یا فجر کی مثلاً پہلی یا آخری چھوٹی ہوئی نماز پڑھ رہا ہوں، اخیر میں جتنی نمازیں پڑھ  لی جائیں اپنے پاس موجود نوٹ کردہ تعداد پر نشان لگادیا جائے؛ تاکہ بقیہ نمازوں کے حساب میں مشکل نہ ہو۔ یا اگر  عام طور پر تو نماز کی عادت تھی، لیکن کبھی کبھار فجر یا کوئی اور نماز اکثر رہ جاتی تھی تو ان نمازوں کا ایک اندازا لگا کررکھ لیں پھر  ان کو ادا کرلیں ۔

جب یہ تمام نمازیں ادا ہو جائیں گی تو آئندہ کے لیے صاحبِ ترتیبی کا حکم ہوگا۔

"فالأصل فیه أن کل صلاة فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبها فیه فإنه یلزم قضاؤها، سواء ترکها عمداً أو سهواً أو بسبب نوم، وسواء کانت الفوائت قلیلةً أو کثیرةً".(البحرالرائق ج 2 ص 141)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 70):

"(ولايعود) لزوم الترتيب (بعد سقوطه بكثرتها) أي الفوائت (بعود الفوائت إلى القلة ب) سبب (القضاء) لبعضها على المعتمد؛ لأن الساقط لايعود.

(قوله: بسبب القضاء لبعضها) كما إذا ترك رجل صلاة شهر مثلاً ثم قضاها إلا صلاةً، ثم صلى الوقتية ذاكراً لها فإنها صحيحة اهـ بحر. وقيد بقضاء البعض؛ لأنه لو قضى الكل عاد الترتيب عند الكل، كما نقله القهستاني (قوله: على المعتمد) هو أصح الروايتين، وصححه أيضاً في الكافي والمحيط، وفي المعراج وغيره: وعليه الفتوى. وقيل: يعود الترتيب، واختاره في الهداية. ورده في الكافي والتبيين، وأطال فيه البحر. (قوله: لأن الساقط لايعود) وأما إذا قضى الكل فالظاهر أنه يلزمه ترتيب جديد، فلايقال: إنه عاد، تأمل". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں