بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دینے کا شرعی طریقہ


سوال

میرے اور میری بیوی کے درمیان 13 سال سے نہیں بن پارہی، کئی بار وہ میکے جا چکی ہے۔ اب گزشتہ 2 ماہ سے بغیر بتائے گھر چھوڑ کر کراچی والدین کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اس کا تھوڑا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ اب اس سے میں رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتا ،میں نے 13 سال سے بہت کوشش کی کہ اس سے نباہ کروں ،مگر ناکامی ہوئی ۔ براہِ کرم شریعت  کے مطابق طلاق کیسے دوں؟

جواب

اولاً تو اب بھی نباہ کی ہی کوشش کی جائے، اگر کسی کی فہمائش یا کسی بھی طریقے سے بات بن سکتی ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے، لیکن اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہو اورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی،وہ کسی اورسے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا۔ اس کو شریعت میں" طلاق احسن" کہتے ہیں۔ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ایسی صورت میں آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

بیک وقت تین طلاقیں دینا شرعاً ناپسندیدہ ہے، اس لیے بیک وقت تین طلاقیں نہ دی جائیں۔ لیکن اگر تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی جائیں تو  بھی واقع ہوجاتی ہیں،اورتین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:''

" بلاوجہ شرعی طلاق دیناسخت گناہ ہے،اللہ تعالیٰ کوناراض کرنااور شیطان کوخوش کرناہے،البتہ اگروجہ سے شوہراور بیوی میں ایسی رنجش ہوگئی ہوکہ ایک دوسرے کے حقوق پامال ہورہے ہوں،اورطلاق کے بغیرچارہ ہی نہ ہوتوطلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہرایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو صرف ایک طلاق دے،غصہ اور جوش میں آکرتین طلاق دینے کاجورواج چل پڑاہے،بلکہ بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ تین طلاق کے بغیرطلاق ہی نہیں ہوتی یہ بالکل غلط ہے،ایک طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے،اورشوہرعدت میں رجوع نہ کرے تو عدت پوری ہونے کے بعد عورت بائنہ(یعنی نکاح سے جدا)ہوجاتی ہے،اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے،جوش اورغصہ میں آکرتین طلاق دے دیتے ہیں ،جب جوش اور غصہ ختم ہوتاہے توپچھتانے اور پریشانی وپشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگرایک طلاق دی ہوتی اور اس کے بعد شوہرکاارادہ بیوی کواپنے پاس رکھنے کاہوتوبہت آسان ہے، صرف قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے،عورت اس کے نکاح میں رہے گی،رجوع پرگواہ بنالینابہترہے،اوراگرعدت پوری ہوگئی اوراس کے بعد دونوں کاارادہ ساتھ رہنے کاہوجائے تودونوں کی رضامندی سے تجدیدنکاح (دوبارہ نکاح کرنا)کافی ہوگا،البتہ اس کے بعد شوہردوطلاق کامالک ہوگا"۔(فتاویٰ شامی،3/230،ط:ایچ ایم سعید-فتاویٰ رحیمیہ،جلدہشتم،ص:290،ط:دارالاشاعت کراچی)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143905200073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں