بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سانپ کو پالنے کا حکم


سوال

 سانپ کو پالنا جائز ہے یا نہیں اور جائز یا نا جائز ہونے کی وجہ کیا ہے؟

جواب

سانپ  موذی، مضر اور مہلک جانوروں  میں سے ہے، اس کے موذی ہونے کی وجہ سے   نبی کریم ﷺ نےاس کے  قتل کا حکم دیا ہے، لہذا محض شوقیہ طور پر یا لہو لعب کے لیے  سانپ کو پالنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر سائنسی یا طبی  تجربہ کے لیے  یا دوا وغیرہ بنانے کے لیے کسی محفوظ جگہ پر اس کو بند کرکے رکھا جائے کہ وہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچاسکے تو اس کی گنجائش ہوگی۔

صحيح مسلم (2/ 856):
’’ عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "خمس فواسق، يقتلن في الحل والحرم: الحية، والغراب الأبقع، والفأرة، والكلب العقور، والحديا‘‘.

سنن أبي داود (1/ 242):
’’عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقتلوا الأسودين في الصلاة: الحية، والعقرب.‘‘
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 68):
’’(بخلاف غيرهما من الهوام) فلا يجوز اتفاقاً.

(قوله: من الهوام) جمع هامة مثل دابة ودواب: وهي ما له سم يقتل كالحية قاله الأزهري. وقد يطلق على ما يؤذي ولا يقتل كالحشرات، مصباح، والمراد هنا ما يشمل المؤذي وغيره مما لا ينتفع به بقرينة ما بعده (قوله: فلا يجوز) وبيعها باطل، ذكره قاضي خان ط (قوله: كحيات) في الحاوي الزاهدي: يجوز بيع الحيات إذا كان ينتفع بها للأدوية، وما جاز الانتفاع بجلده أو عظمه أي من حيوانات البحر أو غيرها‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200585

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں