بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی ادائیگی کے وکیل سے زکاۃ کا مال خلط ہوجانا


سوال

زکاۃ کی رقم کسی نے مجھے دی تھی اور زکاۃ ادا کرنے کا کہا تھا، دس ہزار میں سے 9700 میں نے ادا کر دیے ، باقی 300 میرے پیسوں میں خلط ہو گئے ہیں، اور دس ماہ گزر گئے ہیں، اب ان کی ادائیگی کی کیا صورت ہو گی؟ میرا ان کی طرف سے زکاۃ  کی نیت سے رقم ادا کرنا مجھے ذمہ سے بری کر دے گا؟

جواب

 آپ 9700 کی ذمہ داری تو ادا کرچکے ہیں ، 300 روپے کی زکاۃ  کی ذمہ داری آپ پر ہے، اگر آپ نے موکل کی طرف سے دیے ہوئے 300 روپے خرچ نہیں کیے بلکہ وہ آپ کے پاس پہلے سے موجود مال میں خلط ہوگئے تو اب آپ اپنے پیسوں میں سے 300 روپے ا ن کی جانب سے زکاۃ کی نیت سے ادا کردیں تو اس سے آپ اس ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے؛ کیوں کہ عموماً دینے والے کی طرف سےاس طرح کی اجازت ہوتی ہے۔ البتہ اگر موکل کو تمام صورتِ حال بتاکر صراحتاً اجازت لے لیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔

اور اگر آپ نے موکل کی طرف سے دیے گئے 300 روپے خرچ کردیے تھے اور اس وقت آپ کی ملکیت میں رقم موجود نہیں تھی تو اب آپ کے 300 روپے دینے سے ان کی زکاۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے مالک سے صراحتاً اجازت لے کر 300 روپے ادا کرنا ضروری ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں