بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمزم میں پانی کا اضافہ کرنا


سوال

أگر زمزم کے پانی میں عام پانی ڈالا جائے تو اس عام پانی ڈالنے کی وجہ سے زمزم کے پانی کی فضیلت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ کسی دوست نے کہا ہے کہ زمزم کی فضیلت باقی رہتی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ کسی حدیث سے ثابت ہے ۔ براہِ کرم اس مسئلہ کا حل فرمائیے اور اگر ایسی کوئی حدیث ہو تو اس کی طرف اشارہ فرمایئے ۔

جواب

زمزم کے بارے میں کوئی صریح حدیث تو نہیں ملی جس میں یہ بات ہو کہ زمزم کے  پانی میں اضافہ کرنے سے وہ زمزم ہی رہتا ہے، البتہ ایک درج ذیل  حدیث ہے جس سے استیناس کیا جاسکتا ہے۔ طلق بن علی کہتے ہیں کہ ہم  رسول اللہ ﷺ  کے پاس آئے  آپ ﷺ سے بیعت کی ، اور ان کے ساتھ نماز پڑھی ،اور یہ بتایا کہ ہمارے علاقہ میں ایک ’’کنیسہ‘‘  بھی ہے ،آپ نے پانی منگواکر وضو کیا اور اپنے وضو کا مستعمل پانی دے کر ارشاد فرمایا:  وہاں جاکر اس کو منہدم کردینا اور اس پر یہ پانی ڈال دینا۔ (جو آپ ﷺ نے اپنے وضو کا بچا ہوا پانی دیا۔) اور اس کی جگہ  یہ  پانی ڈال دینا اور اسے مسجد بنادینا۔ ہم نے کہا: علاقہ تو دور ہے، راستہ میں (گرمی کی وجہ سے) پانی کم ہو جائے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں پانی ڈالتے رہنا، پانی  کی برکت باقی ہی رہے گی۔

اس حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمزم کے پانی کی برکت بھی اضافہ کی وجہ سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ باقی رہتی ہے۔البتہ اگر کسی پانی میں زمزم کم ہو اور سادہ پانی زیادہ  اس پورے کو زمزم کہنا یا زمزم کہہ کر بیچنا دھوکا ہوگا، اس سے اجتناب ضروری ہے۔اس لیے کہ بہر حال سارا زمزم نہیں ہے۔

تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة (1/ 259):
’’ وقال طلق بن علي: خرجنا وفداً إلى النبي صلى الله عليه وسلم فبايعناه، وصلينا معه، وأخبرناه أن بأرضنا بيعةً لنا، فقال: " إذا أتيتم أرضكم فاكسروا بيعتكم، وانضحوا مكانها بهذا الماء، واتخذوها مسجداً ".
" وقال طلق بن علي: خرجنا وفداً إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فبايعناه " الحديث.
قوله: " فاكسروا بيعتكم " أي: غيروا محرابها وحولوه إلى الكعبة.
وقوله: " بهذا الماء " قيل: إنه إشارة إلى جنس الماء، والمراد: تطهيرها وغسلها بالماء عما بقي فيها، وقيل: إلى ما أعطاه من فضل وضوئه، إذ روي أنه قال: واستوهبنا فضل وضوئه، فدعا بماء، فتوضأ منه وتمضمض، ثم صبه في إداوة وقال: " اذهبوا بهذا الماء ، فإذا قدمتم بلدكم فاكسروا بيعتكم، ثم انضحوا مكانها بهذا الماء، واتخذوا مكانها مسجداً "، فقلنا: يا نبي الله! البلد بعيد والماء ينشف، فقال: " أمدوه من الماء، فإنه لايزيد إلا طيباً ". ويكون المراد منه: إيصال بركة وضوئه إليها‘‘.
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں