بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ختنہ کے متعلق مختلف سوالات


سوال

1- کیا ختنہ نہ کرنے والا مسلمان نہیں ہوتا؟

2- کیا سب ہی  نبیوں نے ختنہ کیا تھا؟

3- کتنے نبی مختون پیدا ہوئے تھے؟ کون کون سے نبی تھے؟

4- کیا ہمارے آقا بھی مختون پیدا ہوئے تھے؟

جواب

1-ختنہ کرنا نبی اکرم ﷺ  اور دیگر انبیاءِ کرام علیہم السلام کی سنت ہے اور یہ شعائرِ اسلام میں سے اور فطرت میں داخل ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس عمل کے اہتمام کی بہت تاکید آئی ہے۔ بغیر عذر کم عمری میں ختنہ نہ کروایا گیا تو جنہوں نہ نہیں کروایا وہ گناہ گار ہوں گے، لیکن ایسا نہیں کہ کسی کی ختنہ نہ ہوئی ہو یا اس نے اپنے بچے کی ختنہ نہ کرائی تو اس کا اسلام جاتا رہے۔ 

’’عن أبي هریرة رضي الله عنه عن النبي ﷺ قال:’’خمس من الفطرۃ:الختان،والاستحداد، وتقلیم الأظفار،ونتف الإبط،وقص الشارب‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة،کتاب الطهارة، رقم الحدیث:۲۰۵۹،۱؍۱۹۵،دارالسلفیة)

"الختان سنة کما جاء في الخبر وهو من شعائر الإسلام و خصائصه، حتیٰ لو اجتمع أهل بلدٍ علیٰ ترکه، یحاربهم الإمام، فلایُترَک إلا للضرورة، و عذرُ الشیخ الذي لایطیق ذلك ظاهر، فیُترك". (البحر الرائق، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتّٰی:۹؍۳۵۹، دار الکتب العلمیة)

2-ختنہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی سنت قراردیا  گیا ہے۔ اور آپ ﷺ  کی  بعثت سے قبل بھی عرب میں ختنہ کا رواج تھا۔ نیز ختنہ کو رسول ا للہ ﷺ  نے فطرت قرار دیا ہے، اور تمام ہی انبیاء علیہم السلام دینِ فطرت پر مبعوث ہوئےتھے۔

(وَاتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ) خص ابراہیم علیہ السلام بالذکر، مع ان دین الانبیاء کلہم واحد وہو صرف نفسہ واعضاۂ وقواہ ظاہرًا او باطنًا فی مرضاۃ اللّٰہ تعالٰی مشتغلاً بہ تعالٰی معرضًا عن غیرہ تعالٰی لاتفاق جمیع الامم علی کونہ نبیًا حقًا حمیدًا فی کل دین، ولکون دین الاسلام موافقًا لشریعۃ ابراہیم علیہ السلام فی کثیر من فروع الاعمال کالصلٰوۃ الی الکعبۃ والطواف بہا ومناسک الحج والختان وحسن الضیافۃ وغیر ذلک من کلمات ابتلاہ اللّٰہ تعالٰی بہا فاتمہن.(تفسیر مظہری ۲/۴۶۱)

وکان من المعلوم عندہم ان کما ل الانسان ان یسلم وجہہ لربہ، ویعبدہ اقصی مجہودہ.وان من ابواب العبادۃ الطہارۃ، وما زال الغسل من الجنابۃ سنۃ معمولۃ عندہم، وکذلک الختان وسائر خصال الفطرۃ، وفی (التوراۃ) ان اللّٰہ تعالی جعل الختان میسمۃ علی ابراہیم وذریتہ

(حجۃاللہ البالغہ ۱ / ۲۹۰۔۲۹۲)

والذبح والنحر سنۃ الانبیاء علیہم السلام توارثوہما وفیہما مصالح... منہا انہ صار ذلک احد شعائر الملۃ الحنیفیۃ یعرف بہ الحنیفی من غیرہ فکان بمنزلۃ الختان وخصال الفطرۃ فلما بعث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقیمًا للملۃ الحنیفیۃ وجب الحفظ علیہ.(حجۃ اللہ البالغہ ۲ / ۳۱۹۔۳۲۰)

قال الموجبون الختان علم الحنیفیۃ وشعار الاسلام ورأس الفطرۃ وعنوان الملۃ.... وعلیہ استمر عمل الحنفاء من عہد امامہم ابراہیم الی عہد خاتم الانبیاء فبعث بتکمیل الحنیفیۃ وتقریرہا لا بتحویلہا وتغییرہا.(ابن القیم، مختصر تحفۃ المولود ۱۰۳۔ ۱۰۴)

3-اس کے بارے میں کوئی یقینی  علم نہیں، البتہ اس بارے میں ایک روایت کعب احبار کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے، لیکن اس کا ثبوت یقینی نہیں ہے۔ 

الخصائص الكبرى - (1 / 91):

"وفي الوشاح لابن دريد: قال ابن الكلبي: بلغنا عن كعب الأحبار أنه قال: نجد في بعض كتبنا أن آدم خلق مختوناً، واثني عشر نبياً من بعده من ولده خلقوا مختتنين، آخرهم محمد صلى الله عليه وسلم، وشيث وإدريس ونوح وسام ولوط ويوسف وموسى وسليمان وشعيب ويحيى وهود وصالح صلى الله عليهم أجمعين".

 

4- اس بارے میں اہلِ علم کے دو اقوال ہیں:

(1) آپ ﷺ مختون پیدا ہوئے۔  بیہقی شریف میں اس طرح کی روایت  ہے:

"عن ابن عباس عن أبيه العباس بن عبد المطلب قال: ولد رسول الله مختوناً مسروراً". [دلائل النبوة. الإمام البيهقي ( 384 ـ 458 هـ ).دار الكتب العلمية ـ ودار الريان للتراث]

حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختون اورناف بریدہ پیداہوئے تھے۔

نیزالخصائص الکبریٰ میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے تاریخ ابن عساکراورابن عدی کے حوالے سے حضرت ابن عباس اورابن عمررضی اللہ عنہماکی یہ روایت نقل کی ہے کہ:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناف بریدہ اورمختون شدہ پیداہوئے‘‘۔ [خصائص الکبریٰ،ج:۱،ص:۱۱۵،عنوان:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض جسمانی خصوصیات۔ط:ممتازاکیڈمی لاہور]

 

(2)   آپ غیر مختون پیدا ہوئے تھے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے شق صدر کے موقع پر  یا آپ ﷺ کے دادا نے پیدائش کے ساتویں دن آپ کی ختنہ کی۔

            علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  نبی کریم ﷺ کے مختون پیدا ہونے کے سلسلے میں روایات مختلف ہیں، ان میں سے کوئی روایت صحیح نہیں ہے، حاکم کے اس قول  (نبی کریم ﷺ کے مختون پیدا ہونے کے بارے میں روایات متواتر ہیں)کو رد کرنے میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تفصیلی کلام کیا ہے، محدثین کے نزدیک اس قسم کی روایات ضعیف ہونا ثابت ہوچکا ہے، بعض محققین حفاظ فرماتے ہیں : درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ مختون پیدا نہیں ہوئے تھے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے رب کا جو مجھ پر انعام و اکرام ہے ان میں ایک یہ ہے: 
« أَنَّیْ وُلِدْتُّ مَخْتُوْناً وَلَمْ یَرَأَحَدٌ سَوْأَتِیْ »
ترجمہ: ”میں ختنہ شدہ پیدا ہوا اور میرے ستر کو کسی نے نہیں دیکھا“ ۔ [(رواه الطبراني في الصغیر رقم (۹۳۶)، طبراني أوسط، العلل المتناهیة (۱۶۵/۱)، دلائل النبوة لأبي نعیم (۴۶/۱)، مجمع الزوائد (۱۳۸۵۶)

وقال ابن القيم في زاد المعاد (1/82) :

"وقد وقعت هذه المسألة بين رجلين فاضلين صنف أحدهما مصنفاً في أنه صلى الله عليه وسلم ولد مختونا وأجلب فيه من الأحاديث التي لا خطام لها ولا زمام ، وهو كمال الدين بن طلحة ، فنقضه عليه كمال الدين بن العديم وبين فيه أنه صلى الله عليه وسلم ختن على عادة العرب ، وكان عموم هذه السنة للعرب قاطبةً مغنياً عن نقل معين فيها".

الخصائص الكبرى - (1 / 91):

"باب الآية في ولادته صلى الله عليه وسلم مختوناً مقطوع السر

أخرج الطبراني في الأوسط وأبو نعيم والخطيب وابن عساكر من طرق عن انس عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: من كرامتي على ربي أني ولدت مختوناً، ولم ير أحد سوأتي. وصححه الضياء في المختارة، وقال ابن سعد: أنا يونس بن عطاء المكي حدثني الحكم بن أبان العدني حدثنا عكرمة عن ابن عباس عن أبيه العباس بن عبد المطلب قال: ولد النبي صلى الله عليه وسلم مختوناً مسروراً، وأعجب ذلك عبد المطلب وحظي عنده، وقال: ليكونن لابني هذا شأن! فكان له شأن. أخرجه البيهقي وأبو نعيم وابن عساكر.

وأخرج ابن عدي وابن عساكر من طريق عطاء عن ابن عباس قال: ولد النبي صلى الله عليه وسلم مسروراً مختوناً. وأخرج ابن عساكر عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم ولد مختوناً. وأخرج ابن عساكر عن ابن عمر قال: ولد النبي صلى الله عليه وسلم مسروراً مختوناً. قال الحاكم في المستدرك: تواترت الأحاديث أنه ولد مختوناً... وأخرج الطبراني في الأوسط وأبو نعيم وابن عساكر عن أبي بكرة أن جبرئيل ختن النبي صلى الله عليه وسلم حين طهر قلبه".

زاد المعاد في هدي خير العباد ـ مشكول وموافق للمطبوع - (1 / 80):

"فصل في ختانه صلى الله عليه وسلم

وقد اختلف فيه على ثلاثة أقوال:

أحدها : أنه ولد مختوناً مسروراً، وروي في ذلك حديث لايصح ذكره أبو الفرج بن الجوزي في " الموضوعات " وليس فيه حديث ثابت، وليس هذا من خواصه، فإن كثيراً من الناس يولد مختوناً. وقال الميموني : قلت لأبي عبد الله: مسألة سئلت عنها: ختان ختن صبياً فلم يستقص؟ قال: إذا كان الختان جاوز نصف الحشفة إلى فوق فلايعيد؛ لأن الحشفة تغلظ وكلما غلظت ارتفع الختان. فأما إذا كان الختان دون النصف فكنت أرى أن يعيد. قلت : فإن الإعادة شديدة جداً، وقد يخاف عليه من الإعادة ؟ فقال: لاأدري، ثم قال لي: فإن هاهنا رجلاً ولد له ابن مختون، فاغتم لذلك غماً شديداً، فقلت له: إذا كان الله قد كفاك المؤنة فما غمك بهذا؟ انتهى . وحدثني صاحبنا أبو عبد الله محمد بن عثمان الخليلي المحدث ببيت المقدس أنه ولد كذلك وأن أهله لم يختنوه. والناس يقولون لمن ولد كذلك: ختنه القمر. وهذا من خرافاتهم.

القول الثاني : أنه ختن صلى الله عليه وسلم يوم شق قلبه الملائكة عند ظئره حليمة.

القول الثالث: أن جده عبد المطلب ختنه يوم سابعه وصنع له مأدبةً وسماه محمداً. قال أبو عمر بن عبد البر: وفي هذا الباب حديث مسند غريب، حدثناه أحمد بن محمد بن أحمد حدثنا محمد بن عيسى حدثنا يحيى بن أيوب العلاف حدثنا محمد بن أبي السري العسقلاني حدثنا الوليد بن مسلم عن شعيب عن عطاء الخراساني عن عكرمة عن ابن عباس أن عبد المطلب ختن صلى الله عليه وسلم يوم سابعه وجعل له مأدبةً وسماه محمداً صلى الله عليه وسلم، قال يحيى بن أيوب: طلبت هذا الحديث، فلم أجده عند أحد من أهل الحديث ممن لقيته إلا عند ابن أبي السري، وقد وقعت هذه المسألة بين رجلين فاضلين صنف أحدهما مصنفاً في أنه ولد مختوناً وأجلب فيه من الأحاديث التي لا خطام لها ولا زمام وهو كمال الدين بن طلحة، فنقضه عليه كمال الدين بن العديم وبين فيه أنه صلى الله عليه وسلم ختن على عادة العرب، وكان عموم هذه السنة للعرب قاطبةً مغنياً عن نقل معين فيها. والله أعلم".

المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص - (2 / 657):

"و قد تواترت الأخبار أن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولد مختوناً مسروراً".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (6 / 752):

"وقد اختلف الرواة والحفاظ في ولادة نبينا صلى الله عليه وسلم مختوناً، ولم يصح فيه شيء، وأطال الذهبي في رد قول الحاكم: إنه تواترت به الرواية، وقد ثبت عندهم ضعف الحديث به، وقال بعض المحققين من الحفاظ: الأشبه بالصواب أنه لم يولد مختوناً". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں