بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سابقہ فتوے کے حوالوں میں مطابقت


سوال

سرکاری زمین پر بنی قبروں کو منتقل کرنے پر جو  آپ نے حوالہ جات دیے ہیں ان پر نظر ثانی فرمائیں،  مثلاً : آپ نے کہا فتاوی شامی، حال آں کہ وہ عبارت تنویر اور در کی ہیں،  اسی طرح  ہندیہ والے حوالوں کے صفحات نمبر اور جلد نمبر کو دوبارہ دیکھ لیں!

جواب

دونوں کتابوں کے حوالہ جات  بیروت کی طبع کے موافق تھے،اب پاکستانی طبع کے موافق درج کیے جارہے ہیں:

علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کی  تالیف ’’ردالمحتار‘‘ ہے ، جو کہ ’’الدرالمختار ‘‘ کی شرح ہے، اور ’’الدرالمختار‘‘  متن ’’تنویرالابصار‘‘  کی شرح پر مشتمل ہے، اس مجموعے پر بسااوقات ’’فتاوی شامی‘‘  کااطلاق کیاجاتاہے، ا س بنا پر حوالہ میں تعیین کی بجائے ’’فتاوی شامی‘‘ لکھا گیاتھا،  تاہم اب اسے بھی درست کردیاگیاہے۔

تنویر الابصار مع شرحہ الدرالمختار  میں ہے :

"ولايخرج منه ) بعد إهالة التراب ( إلا ) لحق آدمي ك ( أن تكون الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة ) ويخير المالك بين إخراجه ومساواته بالأرض كما جاز زرعه والبناء عليه إذا بلي وصار تراباً".(باب الجنازۃ،ج:1،ص:170،171،ط:المکتبۃ السبحانیۃ ، کوئٹہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه، فإن نقل إلى مصر آخر لابأس به، ولاينبغي إخراج الميت من القبر بعد ما دفن إلا إذا كانت الأرض مغصوبةً أو أخذت بشفعة، كذا في فتاوى قاضي خان. إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها فالمالك بالخيار، إن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس‘‘. (کتاب الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مکان إلی آخر،ج:1،ص:167ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

وفیه أیضاً:

’’ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها، وإذا حفر الرجل قبراً في المقبرة التي يباح له الحفر فدفن فيه غيره ميتاً؛ لاينبش القبر ولكن يضمن قيمة حفره؛ ليكون جمعاً بين الحقين، كذا في خزانة المفتين، وهكذا في المحيط‘‘. (کتاب الوقف، ج:2،ص472،ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں