بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل ضائع ہونے پر کیا فضیلت ہے؟


سوال

اگر کسی عورت کا خود سے اسقاطِ حمل ہو جائے تو کیا ایسی عورت کے لیے کوئی فضیلت ہے یا آخرت میں کوئی اجر ملے گا؟

جواب

ایسا حمل جو چار ماہ یعنی جنین ( ماں کے پیٹ میں موجود حمل) کے اعضاء کی ساخت ظاہر ہوجانے کے بعد، ضائع ہوجائے وہ قیامت کے دن اپنے والدین کی بخشش کا باعث ہوگا، جیساکہ ’’سنن ابن ماجہ‘‘  میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بروایت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ منقول ہے :  قسم ہے اس ذات کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ساقط شدہ حمل اپنی ماں کو بریدہ ناف کے حصے سے کھینچ کر جنت کی طرف لے جائے گا، اگر وہ جنت سے روک دی گئی۔

’’فعن مُعاذِ بنِ جبلٍ رضيَ اللهُ عنه عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلم قالَ : (وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ إِنَّ السِّقْطَ لَيَجُرُّ أُمَّهُ بِسَرَرِهِ إِلَىْ الجَنَّةِ إِذَا احْتَسَبَتْهُ). رواه ابن ماجه (1609)’’.

’’وقد اختلف العلماء في صحة هذا الحديث ، فضعفه النووي في "الخلاصة" (2/1066) ، والعراقي في "مغني الأسفار" (1/373) ، والبوصيري في "مصباح الزجاجة" . ومحققو مسند أحمد ، وحسنه المنذري في "الترغيب والترهيب" (3/57)

والسَّرَرُ : ما تقطعه القابلة من السرة . كما في " النهاية في غريب الحديث " (3/99) . وفي الباب أحاديث أخرى ضعيفة أو موضوعة ، منها ما في " تذكرة الموضوعات " (227) حديث لا أصل له فيه : (السقط يثقل الله به الميزان، ويكون شافعاً لأبويه يوم القيامة). على أن الولد الذي يموت في الشهر التاسع ويسقط من بطن أمه أقرب إلى كونه ولداً من كونه سقطاً، لأنه نزل لتمام أشهر حمله. وقد جاء في "الموسوعة الفقهية" (25/80) في تعريف السقط : "السقط لغة : الولد ذكراً كان أو أنثى يسقط قبل تمامه وهو مستبين الخلق" انتهى.

وقد نص بعض العلماء على أن السقط يشفع في أبويه يوم القيامة . قال النووي رحمهُ الله : "موتُ الواحدِ من الأولادِ حجابٌ منَ النار، وكذا السقطُ" انتهى . "المجموع" (5/287) . وانظر : " حاشية ابن عابدين " (2/228). فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں