بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کا بیٹی کو شہوت سے چھونا


سوال

اگر باپ اپنی بیٹی کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگاۓ اور بوسہ لے اور بچی تیرہ چودہ سال کی ہو تب تو وہ اس کو باپ کا پیار سمجھ کر الجھ گئی ہو اور صحیح سمجھ ہی نہ پائے کہ ہو کیا رہا ہے، بعد میں گناہ کا احساس ہوا تو اب با پ بیٹی ماں کے لیے کیا حکم ہے؟ اور باپ بڑی بیٹی کے ساتھ بھی یہی کرتا رہا؟ ماں بہت نیک عورت ہے، اب پچاس کی ہو گئی ہے، لیکن بیٹی کے دل سے یہ بات جاتی نہیں، جب کہ شادی بھی ہو گئی ہے، کیا باپ اس کا محرم ہے؟ بیٹی ماں، باپ اور اپنے لیے اللہ سے معافی ما نگتی ہے، سمجھ نہیں آتا باپ کے سامنے کیسے آۓ؟ میری راہ نمائی فرمائیں اللہ آپ کو جزاے خیر دے میں بہت پریشان ہوں، لگتا ہے ماں کو بھی باپ کی حرکتوں کا اندازہ ہے، پر وہ کہتی ہیں: میں پانچ بیٹیاں لے کر کہا ں جاتی؟ اب تو باپ کو دل سے معاف کر دیا، پہلے دل کرتا تھا قتل کر دوں، اب باپ کا بڑھا پا دیکھ کر ترس آتا ہے، لگتا ہے اب وہ اچھے ہو گئے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کروں؟

جواب

اس بارے میں شرعی اصول یہ ہے اگر  باپ مذکورہ عمر  کی بیٹی کو  ایسےچھوئے  کہ اس کے اور بیٹی کے جسم کےدرمیان کوئی کپڑا نہ ہو یا کپڑا تو ہو لیکن اس سے بدن کی گرمی محسوس ہو اور   باپ   کو شہوت بھی محسوس ہو یا جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، اور پھر اس پر  بیوی (بیٹی کی ماں) حرام ہوجا تی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً ایسی صورت پیش آئی ہو یا باپ نے خود شہوت کا اقرار کیا ہو یا جسم کے ایسے حصے کو چھوا یا پیار کیا ہو جہاں شہوت غالب ہو تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گی، اور اس شخص کے لیے اپنی بیوی سے تعلق قائم رکھنا جائز نہیں ہوگا، گزشتہ تعلق پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہوگا اور  آئندہ کے لیے دونوں جدا ہوجائیں۔  بصورتِ دیگر جب تک اس بات کا یقین نہیں کہ ایسی صورتِ حال پیش آئی ہو ، باپ نے خود شہوت کا اقرار نہ کیا ہو اور جسم کے ایسے حصے کو بھی نہیں چھوا جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو، تب حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، اس لیے کہ ہاتھ سے چھونے سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے شہوت کا یقین ہونا شرط اور لازم ہے اور یہاں شہوت کایقین سے ہوناثابت نہیں ہے۔

بہرحال مذکورہ حالات میں بچیوں کو  خلوت میں والد کے پاس جانے سے احتراز کرنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں