بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جامع مسجد میں جہاں نماز ادا کی جاتی ہو وہاں کمرہ یا اسٹور بنانا


سوال

 کیا جامع مسجد میں جہاں نماز ادا کی جاتی ہو وہاں کمرہ یا اسٹور بنانا اس انداز پر کہ وہاں کمرہ یا اسٹور بننے کے بعد جماعت سے نماز ادا نہ کی جا سکے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

وہ  جگہ جو  مسجد ِ شرعی کے لیے وقف ہو جائے،اس کو نماز کے علاوہ کسی اور کام کے لیے خواہ مسجد کی مصالح ہی کے لیے ہو ، استعمال کرنا درست نہیں ، اس لیے اس جگہ  مستقل کمرہ بنانا  جائز نہیں ، البتہ اگر کوئی جگہ نہ ہو اوراس  جگہ  چٹائیاں رکھی ہوں اور نماز کے لیے وافر جگہ ہو تو اس میں گنجائش ہے۔

الجوهرة النيرة (3/ 292):
’’( وَإِذَا صَحَّ الْوَقْفُ عَلَى اخْتِلَافِهِمْ خَرَجَ مِنْ مِلْكِ الْوَاقِفِ ) حَتَّى لَوْ كَانُوا عَبِيدًا فَأَعْتَقَهُمْ لَا يَعْتِقُونَ قَوْلُهُ: ( وَلَمْ يَدْخُلْ فِي مِلْكِ الْمَوْقُوفِ عَلَيْهِ ) ؛ لِأَنَّهُ لَوْ دَخَلَ فِي مِلْكِهِ نَفَذَ بَيْعُهُ فِيهِ كَسَائِرِ أَمْلَاكِهِ‘‘.

شرح فتح القدير (6/ 220):
’’وإذا صح الوقف أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري: وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، ثم قوله: لم يجز بيعه ولا تمليكه هو بإجماع الفقهاء‘‘.

"الفقه الإسلامي وأدلته"میں ہے:

’’إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته ‘‘. (الفقه الإسلامي وأدلته ۱۰/۷۶۱۷ ، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف) فقط واللہ ا علم


فتوی نمبر : 144003200398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں