بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کو بتائے بغیر ناراض ہو کر میکے جانا


سوال

کیا بیوی شوہر کو بتائے بغیر ناراض ہو کر میکے جاسکتی ہے؟ جب کہ میں نے معافی بھی مانگی ہے اور اس کے والدین اس کو مجھ سے بات کرنے نہیں دے رہے۔

جواب

زوجین کو باہمی اختلاف خود ہی آپس میں جلد حل کرلینا چاہیے، معاملہ کو بڑھانا دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔  بیوی کا بغیر شرعی عذر کے بلا اجازت گھر سے نکلنا جائز نہیں، اور میکے والوں کا بیوی کو ورغلانا اور شوہر سے بدگمان کرنا یا اس سے دور کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

’’من خبب عبداً علی أهله فلیس منا، ومن أفسد امرأة علی زوجها فلیس منا ... رووا فیه أن النبي ﷺ لعن من فعل ذلک‘‘. (الزواجر عن اقتراف الکبائر، کتاب النکاح، [الکبیرة:275] تخبیب المرأة علی زوجها أي إفسادها علیه والزوج علی زوجته، (2/28) ط: دار المعرفة، بیروت)

ترجمہ: جس شخص نے کسی غلام کو اس کے آقا کے خلاف ورغلایا وہ ہم میں سے نہیں ہے، اور جس نے بیوی اور شوہر کے تعلق میں فساد پیدا کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔۔۔ نیز روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس عمل پر لعنت فرمائی ہے۔ 

الترغيب والترهيب للمنذري (3/ 37):
"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأةً من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟ فإني امرأة أيم فإن 
استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لاتمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لاتصوم تطوعاً إلا بإذنهفإن فعلت جاعت وعطشت ولايقبل منها، ولاتخرج من بيتها إلا بإذنه، فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لاجرم ولاأتزوج أبداً". رواه الطبراني".

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بتائیے کہ ایک بیوی پر شوہر کا کیا حق ہے؟ اس لیے کہ میں بے نکاحی عورت ہوں، اگر میں استطاعت رکھوں گی تو نکاح کروں گی، ورنہ میں بن بیاہی رہوں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شوہر کا بیوی پر حق ہے کہ اگر وہ عورت کو اپنی خواہش کے لیے بلائے تو اگرچہ وہ کجاوے پر سوار ہو تو بھی خود کو نہ روکے، اور بیوی پر شوہر کے حق میں سے ہے کہ وہ نفلی روزہ شوہر کی اجازت کے بغیر نہ رکھے، اگر کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے تو ویسے ہی بھوکی پیاسی رہی اور یہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا، اور بیوی پر شوہر کا حق ہے کہ وہ گھر سے نہ نکلے مگر شوہر کی اجازت سے، اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے تو آسمان کے فرشتے، رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہاں تک وہ شوہر کے پاس لوٹ آئے۔ اس عورت نے عرض کیا: پھر تو میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 145):
"فلاتخرج إلا لحق لها أو عليها  أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلةً أو غاسلةً لا فيما عدا ذلك.

(قوله: فيما عدا ذلك) عبارة الفتح: وأما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج..." إلخ  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں