بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بکریوں کی حفاظت کی غرض سے گھر میں کتا پالنے کا حکم


سوال

 زید نے گھرمیں بکریاں پالی ہوئی ہیں، گھر میں انسانوں کی عدمِ  موجودگی کی وجہ سے بکریوں کی حفاظت کے لیے گھرمیں کتاپالنا از رو شریعت کیسا ہے؟

جواب

احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا    خیر  و برکت سے محرومی کا باعث ہے ؛ اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔  البتہ  اگر جانوروں  اور  کھیتی کی حفاظت کے لیے   یا  شکار کے لیے  کتا پالا جائے تو اس کی شریعت نے اجازت دی ہے؛ لہذا شوقیہ کتا پالنا جائز نہیں ہے، البتہ  حفاظت یا شکار کی نیت سے پالنا درست ہے، اگر واقعۃً انسانوں کی عدمِ موجودگی کی وجہ سے بکریوں کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کی ضرورت ہے تو اس نیت سے پالنے کی اجازت ہوگی۔ 

صحيح البخاري (7/ 87):

"باب من اقتنى كلباً ليس بكلب صيد أو ماشية

حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا عبد الله بن دينار، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتنى كلباً، ليس بكلب ماشية، أو ضارية، نقص كل يوم من عمله قيراطان»".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (21/ 98):

"(ليس بكلب صيد) صفة لقوله: (كلباً) وماشية، أي: أو ليس بكلب ماشية، وهو اسم يقع على الإبل والبقر والغنم، ولكن أكثر ما يستعمل في الغنم، ويجمع على المواشي ولم يبين الحكم اكتفاء بما في الحديث... مطابقته للجزء الثاني للترجمة وهو قوله أو ماشية صريحاً، وللجزء الأول من حيث المعنى".

الفتاوى الهندية (5/ 361):

"وفي الأجناس: لاينبغي أن يتخذ كلباً إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں