بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر نیت کے الفاظ صریحہ کے ساتھ ایک طلاق دینا


سوال

 ایک خاتون خلع یافتہ ، اپنا اچھا برا سمجھنے والی، خود کفیل، انھوں نے برائی سے بچنے  کے لیے نکاح کرلیا ، کیوں کہ خلع لیے ہوئے نو سال گزر گئے تھے ، بھائی اور والد شادی کے لیے کچھ نہیں کررہے تھے ۔ ایک دن بھائی صاحب نوسال کا عرصہ گزرنے کے بعد ایک نامناسب رشتہ لائے اور بغیر جانچے کہا کہ اس کو قبول کرو،  خاتون نے والد کو کہا کہ وہ رشتہ قبول نہیں کرسکتی، اس لیے کہ اس نے نکاح کیا ہوا ہے، والد صاحب نے کہا کہ طلاق لے لو،  جو کہ وہ نہیں چاہتی اور نہ شوہر طلاق دینا چاہتا ہے، مگر والد صاحب نے رونا دھونا شروع کردیا، ساتھ طبیعت خراب کرنا شروع کردی، پھر نہ چاہتے ہوئے لڑکے نے  لکھا کہ میں ایک طلاق دیتا ہوں، ساتھ یہ کہا کہ میری نیت نہیں ہے، صرف آپ کے والد صاحب کی طبیعت خراب ہونے سے بچانے کے لیے دے رہا ہوں، کیوں کہ انہوں نے طبیعت کا بہانہ شروع کردیا تھا، پوچھنا یہ ہے کہ: کیا ایک طلاق واقع ہوچکی ہے جب کہ نیت نہیں تھی اور مجبور کیا جارہا ہو۔ 

جواب

 میں ایک طلاق دیتا ہوں، طلاق کے معنی میں صریح ہیں، جس سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہٰذا   صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔ عدت (یعنی تین ماہواری )کے دوران رجوع  کرسکتے ہیں، رجوع کی صورت میں شوہر کو  آئندہ دو طلاق کا اختیار رہے گا، عدت کےدوران رجوع نہ ہونے کی صورت میں باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی ہوسکتا ہے۔ نیز عدت کے بعد عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنےمیں بھی آزاد ہوگی، والد اور بھائی کو بھی چاہیے کہ اگر وہ خود رشتہ کرنا چاہتے ہیں تو برابری کی جگہ پر سائلہ کی رضامندی سے رشتہ کریں، کسی نامناسب جگہ پر رشتہ کرنے کے لیے انہیں جبر کرنے کاحق نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143803200026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں