بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اندازہ سے زکات ادا کرنے کا حکم


سوال

 کیا اندازے سے زکات ادا کرنے سے زکات ادا ہو جاتی ہے؟ اگر نہیں تو جو اب تک اندازے سے زکات دی ہے اس کا کیا ہوگا؟ اور حساب کی صورت کیا ہوگی؟

جواب

زکات پورا حساب کر کے دینی چاہیے، اندازہ کر کے دینا مناسب نہیں ہے، اگر اندازہ کر کے زکات دی گئی اور اندازہ کم رہا تو جتنی مقدار ادا کردی گئی وہ تو ادا ہوجائے گی، لیکن جو مقدار ادا کرنے سے رہ گئی اس کا ادا کرنا ذمہ پر باقی رہ گیا، اگر بعد میں اس کو ادا کردیا گیا تو وہ بھی ادا ہو جائے گی، اگر کسی وجہ سے پورا حساب کرنا ممکن نہ ہو تو احتیاطاً زیادہ سے زیادہ کا اندازہ لگا کر زکات ادا کردینی چاہیے؛ تاکہ زکات کم ادا نہ ہو۔ اور اگر پہلے ہی اندازہ لگا کر کچھ زیادہ زکات دے دی گئی تو بھی زکات ادا ہوجائے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں