بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کے راستے میں رقم دینے کی نذر ماننا اور نذر کا مصرف


سوال

میں نے نذر مانی تھی کہ اگر میرے سے فلاں گناہ ہو جائے تو میں 500 روپے اللہ کے راستے میں دوں گا، اب مجھ سے وہ گناہ ہو گیا  تو ان پیسوں کے مصارف کون کون سے ہیں؟  وہ روپے میں کن کن کو دے سکتا ہوں؟

جواب

نذر کا مصرف وہی ہے جو زکا ت کا مصرف ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں  آپ نذر کے مذکورہ پیسے کسی مستحقِ زکات  شخص کو دے دیجیے، نذر کی رقم سے کسی صاحبِ نصاب کو  دینا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح والدین، اولاد، میاں، بیوی کا ایک دوسرے کو نذر کی رقم دینا بھی درست نہیں ہے خواہ یہ رشتہ دار غریب کیوں نہ ہوں۔ 

البناية شرح الهداية (10/ 218):
"وفي " الروضة ": لو قال مالي صدقة أو في سبيل الله ففيه أوجه: أحدها: وهو الأصح عند الغزالي وقطع القاضي حسين به أنه لغو لأنه لم يأت بصيغة الإلزام. والثاني: أنه كما لو قال علي أن أتصدق بمالي فيلزمه التصدق. والثالث: يصير ماله بهذا اللفظ صدقة. وذكر في " التتمة ": إن كان المفهوم من اللفظ في عرفهم معنى النذر أو نواه فهو لو قال: علي أن أتصدق بمالي أو أنفقه في سبيل الله وإلا فلغو. وأما إذا قال إن كلمت فلانا أو فعلت كذا فمالي صدقة فالذي قطع به الجمهور ونص عليه الشافعي أنه بمنزلة قوله فعلي أن أتصدق بمالي أو بجميع مالي أن طريق الوفاء أن يتصدق بجميع ماله. وإذا قال في سبيل الله يتصدق بجميع ماله على الفقراء، انتهى".

فتاوی شامی میں ہے:

"مصرف الزكاة والعشر: هو الفقير، وهو من له أدنى شيء". (الدر المختار)

وفي الشامية: "وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة" . (شامي ۲/۳۳۹)

 "ولايأكل الناذر منها؛ فإن أكل تصدق بقيمة ما أكل".  (شامی۔6/ 321) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں