کیا’’العزاسلامی بنک ‘‘میں اکاؤنٹ کھلواکراس کاکریڈٹ کارڈ حاصل کرناجائزہے یانہیں؟
کریڈٹ کارڈ(Credit Card)کااستعمال اوراس کے ذریعہ خریدوفروخت درست نہیں ہے،اس لیے کہ کسی معاملے کے حلال وحرام ہونے کی بنیاد درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا۔شریعت میں جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاحرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال نا جائز ہے اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے ۔
اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکوں میں سودی معاملات کی اصلاح کے لیےفقہی اصطلاحات کا سہارا لیا گیا ہے، عملی تطبیق تاحال پورے طور پر نہیں پائی جاتی۔اکثر اہل علم کے نزدیک مروجہ اسلامی بینکاری چند ظواہر سے قطع نظر اپنی روح اور نتائج کے عتبار سے روایتی سودی کاروبار سے زیادہ مختلف نہیں،اس لیے مروجہ اسلامی بینک میں بھی سودی معاملات کی موجودگی کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ حاصل کرنا جائزنہیں ہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143802200052
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن