بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاط حمل اور ماں کی بیماری


سوال

میری شادی ہوئے  3سال3ماہ ہوئے ہیں،  میرے 2بچے ہیں ماشاءاللہ. میری زوجہ کو ہیپاٹائٹس سی ہے، مجھے جون، جولائی 2016 میں پہلے بچے کی پیدائش سے کچھ پہلے ہی اس بات کا علم ہوا. اب میری دوسری بیٹی 1سال 2 ماہ کی ہے. ہم بیٹی کی پیدائش کے بعد،بیگم کی صحت کے پیشِ نظر وقفے کے خواہش مند ہیں.پچھلے مہینے میں نے بیگم کا علاج شروع کروایا. اس مہینے چیک اپ کرایا تو دریافت ہوا کہ وہ پیٹ سے ہے. ہیپاٹائٹس کا علاج اور حمل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے. اب اگر ڈاکٹر نے کہا کہ حمل یا ہیپاٹائٹس سی کے علاج میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں تو ہمارے لیے کیا شرعی حکم ہے؟

جواب

اگر حمل چار ماہ کا ہو جائے تو اسے ضائع کرنا کسی صورت جائز نہیں، اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہو تو ماں کی علاج کی غرض سے اسے گرانا جائز ہے۔

الدرالمختار مع الشامي، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره، ، کراچی ۶/ ۴۲۹:
"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان". (هندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۵۶، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)
"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل". (الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں