بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق


سوال

میرا نام عبیداللہ سندھی ولد چینو داس سنہ 2003ع میں میں نے اپنے آبائی مذھب ھندومت کو ترک کر کے اللہ کے فضل سے اسلام قبول کر لیا . میرے سارے گھر والے تاحال اپنے مذھب ھندومت پر قائم ھیں. سنہ 2011ع میں میری شادی ہوئی. میری زوجہ محترمہ بھی ھندومت سے اسلام میں داخل ہوئی ہیں اور اس کے بھی سارے گھر والے اپنے  ھندو مذھب پر قائم ہیں ، پچھلے ہفتے کسی بات پر میری بیوی کے ساتھ میری لڑائی ہوئی اور غصے کی حالت میں میں نے مندرجہ ذیل الفاظ کہے.جاؤ تمہیں طلاق ہے طلاق طلاق طلاق یہ الفاظ بالکل غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکل گئے اور اس وقت میں بالکل خالی الذھن تھا اور میری طلاق دینے کی کوئی نیت نہیں تھی.ان مخصوص حالات میں کیا میرے لیے رجوع کی کوئی صورت نکل سکتی ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ میری زوجہ محترمہ بالکل اکیلی ہے اور میرے علاوہ اس کا کوئی نہیں ہے .ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے رسالہ جولائی کے شمارے میں مفتی شفیع عشمانی صاحب کے حوالہ سے ایک فتوی کا ذکر ہے جو بالکل میرے سوال کی طرح کی ایک شکل ہے، اس کا لنک بھیج رہا ہوں، آیا یہ فتوی درست ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں آپ سے فتوی درکار ہے.والسلام عبیداللہ سندھی

جواب

واضح رہے کہ تین مرتبہ طلاق دینے کے بعد جب تک مطلّقہ عورت کا عدت کے بعد کسی دوسری جگہ نکاح نہ ہوجائے اور دوسرا شوہر حقوق زوجیت کی ادائیگی کے بعد طلاق نہ دیدے یا اس کا انتقال نہ ہوجائے اس وقت تک پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی کوئی صورت نہیں ، باقی جس فتوی کا سائل حوالہ دے رہا ہے وہ جمہور کے موقف کے مطابق نہیں ہے اس لیئے اس پر عمل کی اجازت نہیں ۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143406200074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں