کیا عورت اگر خود سلام کرے مرد کو تو کیا مرد کو خواہ وہ محرم ہو یا غیر محرم ہو جواب دینا چاہیے یا نہیں؟ اسی طرح سے اگر عورت کو چھینک آئے تو کیا مرد اس کا جواب بلند آواز سے دے یا آہستہ آواز سے دے یا دے ہی نہیں؟ نیز گھر کے اندر پردے کا اہتمام کس طرح کرایا جائے؟ نیز غیر محرم عورت سے کسی وجہ کے تحت بات کرنا صحیح ہے، مثلاً لیڈی ڈاکٹر وغیرہ؟
صورتِ مسئولہ میں نامحرم جوان عورتوں کو سلام نہیں کرنا چاہیے، اور اگر نامحرم عورت خود سلام کرے تو دل ہی دل میں جواب دے دے، زبان سے جواب نہ دے۔ اور اگر بوڑھی عورت ہو تو زبان سے بھی جواب دے سکتے ہیں۔ نیز یہی حکم چھینک کے جواب کا بھی ہے کہ اگر نامحرم عورت کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کا جواب بھی دل ہی دل میں دے دے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"رد السلام واجب إلا ... شابة یخشیٰ بها افتتان". (الشامیة:۱۸۱۶ ۔ ط: سعید کراچی )
باقی نامحرم اجنبیہ عورت سے بوقتِ ضرورت ، بقدرِ ضرورت بات کرنے کی اجازت ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143101200338
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن