زید نے اپنی ماں سے کہا کہ اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا۔ اور ماں نے زید کو کہا کہ تجھے معاف کیا، اب زید نیچے آیا اور اس نے اپنے والد کو گزشتہ بات جو ماں سے کہی تھی کہہ کر کہا کہ "میں نے اسے یعنی اپنی بیوی کو چھوڑ دیا"، تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہو گئی؟
''چھوڑدیا '' کس سیاق میں کہا؟ اس کی وضاحت ضروری ہے ۔اگر مطلب یہ تھا کہ اسے چھوڑدیا یعنی طلاق نہیں دی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اور اگر یہ مطلب نہیں تھا تو زید کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے ، زید کے لیے اپنی بیوی کی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں اس سے رجوع کرنا درست ہے، اگر عدت میں زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا یا بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو نکاح برقرار رہے گا، اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت ختم ہوتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، اور پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا پڑے گا، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔
'' فتاوی شامی '' (3/ 299):
'' فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: " رهاكردم " أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت''۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201018
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن