بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

میدانِ فتویٰ کا نایاب شہسوار

میدانِ فتویٰ کا نایاب شہسوار

    ’’أشد الناس بلاء الأنبیا ء ثم الأمثل فالأمثل‘‘یہ ایک حدیث ہے جس کو امام بخار یؒ نے اپنی صحیح میں ذکر فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ مشکلا ت و مصائب کا سامناحضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی ذات طیبات کواپنے فرض منصبی کی تکمیل میں کرنا پڑتا ہے ،اور پھر انبیا علیہم السلام کے بعد جوجس قدر مقصد نبوت کے قریب ہو گا، اسی قدر اس کو بھی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا ۔     اس حدیث شریف کے آئینہ میں اگرمحد ث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی قائم کردہ عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ ،دیوبند ثانی، مادر عملی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شہادتوں اور قربانیوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو جامعہ کی عنداللہ مقبولیت کا کامل یقین ہو جاتا ہے۔چنانچہ کون نہیں جانتا کہ چند سالوں میں حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید ؒ، حضرت مولانا مفتی عبدالسمیع شہیدؒ،حضرت مولانا محمد بنوری شہیدؒ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ ،حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید ؒ ،حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ، حضرت مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ، حضرت مولانامفتی سید سعید احمد اخوند زادہ مردانی شہید ؒ،حضرت مولانا خلیل اللہ شہیدؒ ، حضرت مولانا انعام اللہ شہید ؒ، حضرت مولاناارشاداللہ عباسی شہید ؒ، اور اب حضرت مولانا مفتی محمد عبدالمجید دین پوری شہیدؒ،اورحضرت مولانا مفتی صالح محمد کاروڑوی شہیدؒ نوراللّٰہ مراقدھم وطَیَّبَ اللّٰہ آثارہم وجعل الجنۃ مثواہم جیسے اساطین امت کو موت کی نیند جامعہ کے ساتھ تعلق کی بناء پر ہی سلایا گیا ، لہٰذااگرچہ شہداء کے فراق کے غم میں دل اداس ہیں، مگر یہی شہادت جس کو دشمن اپنی کامیابی تصور کرتا ہے، جامعہ کی حقیقی کامیابی کی دلیل بھی ہے اور ان شاء اللہ! جامعہ کی تا قیامت بقاء کا ذریعہ بھی ثابت ہو گی ۔ شہیدوں کے لہو سے جو زمین سیراب ہوتی ہے بہت زرخیز ہوتی ہے بہت شاداب ہوتی ہے      ۳۱؍ جنوری ۲۰۱۳ء کو ایک بار پھر جامعہ کو خون میں نہلادیا گیا ،دشمن نے ایسی گھناؤنی وارداتوں میں جو روایت قائم کی تھی کہ اپنا ہدف قیمتی سے قیمتی ہستی کو بنایا جائے، پہلے کی طرح اس بار بھی دشمن نے اپنی اس روایت کو بر قرار رکھا کہ گلستانِ بنوری کے دارالافتاء جیسے اہم پودے کے ’’تنے ‘‘دارالافتاء کے نائب رئیس ،استاذالحدیث حضرت مولانا مفتی عبدالمجیددین پوریؒ اور معاون مفتی، حضرت مولانا مفتی صالح محمد کاروڑیؒ اور ان حضرات کی ’’پک اینڈ ڈراپ ‘‘کی خدمت پر مامورحسان علی شاہ صاحب کو د ن دَہاڑے شہید کر کے اپنے سیاہ کارناموںمیں اضافہ کیا ۔دشمن جو ایسے گھناؤنے کارناموں کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے، حق تعالیٰ شانہ کتاب مقدس میں قتل علماء کو قتل انبیاء کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  ’’وَیَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَأْمُرُوْنَ  بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ ‘‘ ۔(آل عمران:؟؟) ترجمہ : ’’اور انصاف کی تلقین کرنے والوں کو بھی قتل کرتے ہیں آپ (ا) ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔     اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے علماء کے قاتلوں کے لئے عذاب الیم کو ذکر فرمایا ہے اور مفسرین لکھتے ہیں کہ جہنم میں جتنی انواع واقسام کے عذاب ہو ں گے، ان میں سب سے سخت عذاب ‘ عذابِ الیم ہو گا ،کیونکہ عذابِ الیم ایسا عذا ب ہے کہ جس سے خود جہنم بھی پناہ مانگتی ہے ، أعاذنا اللّٰہ منہ۔     حضرت دین پوری شہیدؒ کاروان بنوری کے ایک مخلص فرد تھے۔احقاقِ حق اور اور احکامِ دین پر عمل میں حضرت استاذ ’’ لایخافون لو مۃ لائم ‘‘کے بلند مرتبہ پر فائز تھے ۔جامعہ بنوری ٹاؤن جیسے عالمی ادارے کے دارالافتاء جیسے اہم شعبے کے مسند نشیں ہو نے کے باوجود عاجزی و انکساری اور تواضع کا پیکر تھے ۔ہمیشہ گردن جھکا کر چلتے، جہاں تک مجھے یا د پڑتا ہے، میں نے حضرت ؒکے جسم پر کبھی کلف والا لباس نہیں دیکھا ، طلباء کے ساتھ بہت شفقت کا معاملہ فرماتے۔ حضرت بنوری علیہ الرحمۃ کے ساتھ والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ جب بھی کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو بڑے اہتمام کے سا تھ حضرت بنوری ؒ کی قبر پر حاضری دیتے۔ بازار سے سودا سلف خود جا کر خریدتے اور اکثر اٹھا کر بھی خود ہی لاتے، اگر کو ئی طالب علم سامان پہچانے کی خدمت کی درخواست کرتا تو بہت کم اس کو موقع دیتے تھے ۔     گزشتہ چار پانچ سال سے گھٹنوں میں بہت زیادہ تکلیف رہنے لگی تھی، مگر اس کے باوجو د بنو ری ٹاؤ ن میں ہو تے ہوئے صف اول کی نماز فوت نہیں ہوتی تھی ۔گزشتہ سال وفاق کے پرچوں کی مارکنگ ملتان جامعہ خیر المدارس میں ہوئی تھی اور یہ بہت زیادہ گرمی کے دن تھے، مجھے وہ منظر بڑی اچھی طرح یا دہے کہ ان دنوں میں ظہر کی اذان ایک بجے ہو جاتی تھی اور نماز ڈیڑھ بجے ہو تی تھی، مگر حضرتؒ دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں اذان کے فوری بعد اپنے آرام دہ اے ۔سی کمرے سے نکل کر مسجد روانہ ہو جاتے اورجماعت کے ساتھ نماز ادا فرماکر دیر تک ذکر واذکار میں مشغول رہتے اور جب واپس آتے تو تمام کپڑے پسینے کے ساتھ شرابور ہو چکے ہو تے، مگر اذان کے بعد کمرے میں بیٹھنا گوارہ نہ فرماتے ۔      احقر نے اپنے دو سالہ تخصص میں حضرت الاستاذ ؒ کو بہت قریب سے دیکھا، بلا شبہ حضرت اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔چونکہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنو ر ی ٹاؤ ن کے دارالافتاء سے جاری ہو نے والے تمام فتاویٰ پر آخری دستخط حضرتؒ کے ہو تے تھے اس لئے بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ زبانی و تحریری فتاویٰ کاجتنا کام بنو ری ٹاؤ ن جیسے ملک کے مصروف ترین دارالافتاء میں ۸؍۷ جیّدو تجربہ کار مفتیان کرام کرتے تھے ،حضرت الاستاذؒاتنا کام بڑھاپے کے ضعف و اعذاراور کتبِ حدیث کی تدریس اور امامت و خطابت جیسی ہمہ گیر مصروفیات کے باوجوداکیلے تنِ تنہا کرتے تھے۔       حضرتؒ فتویٰ کے میدان کے ایسے شہسوار تھے کہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے :برجستہ جواب ،قرآن وحدیث پر گہری نظر ،فقہی جزئیات کا استحضار اوران سے بر موقع استدلال، تحریری فتاویٰ میں بڑی سے بڑی غلطی اور چھوٹی سے چھوٹی چوک پر یکساں گرفت اور اس کی مربیانہ اصلاح حضرت شہیدؒ کا طرۂ امتیا ز تھا ،اس بات کی گواہی یقیناًوہ سینکڑوں متخصصین کرام دیں گے جنہوں نے ایک دَہائی سے زائد عرصہ میں حضرتؒ سے اس میدان میں استفادہ کیا ہے ۔بلا مبالغہ صرف جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء میں حضرت ؒ روزانہ درجنوں ،ماہانہ سینکڑوںاور سالانہ ہزاروں فتاویٰ کی تصحیح فرماتے ۔جامعہ کے استاذ اور دارالافتاء میں حضرت ؒکے رفیق کار مولانا مفتی شعیب عالم صاحب مدظلہم نے حضرت ؒکے صرف بنوری ٹاؤن کے فتاویٰ کا تخمینہ ڈیڑھ لاکھ لگایا ہے، جب کہ زبانی فتاویٰ اس سے کئی گنا زیادہ ہو ںگے اور دیگر اداروں کے فتاویٰ اس تخمینے میں شمار نہیں کئے گئے ، یہ حساب ۱۹۹۸ء کے بعد کے فتاویٰ کا ہے اورحضرتؒ ۱۹۷۴ء سے فتویٰ کے شعبے کے ساتھ باقاعدہ منسلک رہے ہیں ،تو یوںحضرت ؒنے اپنی زندگی میں تقریباً۳۸ (اڑتیس) سال افتاء نویسی کی خدمت سرانجام دی ہے، جس سے کل فتاویٰ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔     حضرتؒ کے فتاویٰ میںاکابر کا احتیاط اوران کے مسلک و مشرب کی کامل تقلید نمایاں تھی۔ جدید مسائل میں اپنی تحقیقات کی بجائے اکابر کی رائے کو خود بھی اپناتے اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین فرماتے، خاص کر مسئلۂ تکفیر میں بہت احتیاط فرماتے ۔تخصص کے دوسرے سال میں ایک مرتبہ احقر کے پاس ایک استفتاء آیا کہ سند ھ کے ایک مصنف ڈاکٹر انور علی عالمانی نے لندن کے ایک اسکالر علامہ آء ،آء قاضی کی انگلش تقاریر کا اردو میں ترجمہ کیا تھا ،اس ترجمہ میں ڈاکٹر عالمانی سے یہ غلطی ہوئی کہ’’ سورۂ مدثر‘‘ کی آیت ’’یاأیھا المدثر‘‘ میں علامہ نے انگلش میں ترجمہ کیا تھاo.you entolded in your mantle  جو کہ با لکل درست تھا، مگر ڈاکٹر عالمانی نے لفظ mantle(مانٹل)کا ترجمہ mentle (مینٹل) کے اعتبار سے کر دیا ،جس سے ترجمہ غلط ہو ا، اور ترجمے میںتو ہین رسالت کا شبہ ہو نے لگا تو مقامی مسلمانوں نے ڈاکٹرمو صوف پر تو ہین رسالت کا مقدمہ درج کروادیا اور مقدمے کی پیروی کی مضبوطی کے لئے جامعہ سے فتویٰ طلب کیا ۔میں جب اس استفتاء کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضرہو ا تو حضرت نے دیکھتے ہی تمام صورت ِحال کو سمجھ لیا اور’’دی آکسفورڈڈکشنری ‘‘میں دیکھا تو واقعہ کی اصل حقیقت بالکل اسی طرح سامنے آئی جیسے استاذ محترم ؒنے بیان فرمائی تھی۔اور ڈاکٹرعالمانی کی یہ غلطی چونکہ تو ہین رسالت کے زمرے میں نہیں آتی تھی، اس لئے فتوے میں اس غلطی کو توہین رسالت سے خارج قرار دلوایا، مگر اس مسئلے کی حساسیت کی بنا ء حضرت شیہد ؒ نے دارالافتاء کے تمام مفتیان کرام کی ایک میٹنگ بلوائی اور تمام مفتیان کرام کی مشاورت سے اس کا جواب لکھا گیا ۔      لیکن اس احتیاط میں حضرت نہ تو افراط کا شکار تھے اور نہ ہی تفریط کی طرف مائل تھے ،چنانچہ ایک مرتبہ تو ہین رسالت ہی کا ایک مسئلہ تھا، جس میں ایک خبیث نے اپنے باطنی خبث کا مظاہرہ کیا تھا، اس کا جواب جب ایک متخصص لکھ کر لے گئے تو اس سے فرمایا کہ جواب بالکل درست ہے، مگر اس کی خباثت کے اعتبا ر سے الفاظ بہت نرم استعمال کئے  گئے ہیں ،چنانچہ اس فتوے کو دوبارہ لکھنے کا حکم دیا۔     یومیہ درجنوں ڈاک اور دستی فتاویٰ کی تصحیح مکمل سوال وجواب کو پڑھے بغیر نہ فرماتے تھے، حالانکہ حضرت کے پا س آنے سے پہلے فتوے کی تصحیح جید مفتیا ن کرام فرما چکے ہو تے تھے ۔حضرتؒ پر دارالافتا ء کے کا م کی ایک دھن سوار ہو تی تھی کہ رات کو عشاء کے بعد دارالافتاء تشریف لاتے اور جب تک اگلے دن کی واپسی کے تمام فتاویٰ کی تصحیح نہ فرمالیتے، واپس نہ جاتے ۔     اگر حضرت شہید ؒ کے پو رے دن کی مصروفیا ت اورکام کو دیکھاجائے تو بلا شبہ اتناکام آج کا نو جوان اپنے مضبو ط اعضاء اور تازے خون کے ساتھ بھی نہیں کر سکتا۔ حضرت اکثر نماز فجر پہلی صف میں ادا فرماتے اورنماز کے بعددیر تک ذکرو اذکار میں مشغول رہتے، معمولات سے فارغ ہو کر روزانہ حضرت بنوری ؒ کی قبر پہ حاضری دیتے اورپھر دارالافتاء آکر دورہ ٔ حدیث شریف کے سبق کا مطالعہ فرماتے ،اور یہیں سے دارالحدیث تشریف لے جاتے اور دورۂ حدیث کا پہلا سبق پڑھاتے جو کہ مدرسے کے عام وقت سے پون گھنٹہ پہلے شروع ہو تاتھا ۔ سبق سے فراغت کے بعد دفتر میں بیٹھ کر کچھ دیر اخبار پڑھتے اور پھر گھر تشریف لے جاتے او رناشتے کے بعد دارالافتاء میں جلوہ افروز ہو تے اور بارہ بجے تک تحریری فتاویٰ کی تصحیح فرماتے ۔زبانی مسائل پو چھنے والوں کو بھی نمٹاتے اور پی ۔ٹی۔ سی ایل اور مو بائل فون پربھی سوالات کے جواب دیتے ۔بارہ بجے کے بعد بخاری پڑھانے کے لئے جامعہ درویشیہ تشریف لے جاتے، (یہیں جاتے ہوئے حضرتؒ نے جا م شہادت نو ش فرمایا ) پھر ڈیڑھ بجے ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعدکچھ دیر آرام فرماتے ، دوبارہ عصر تک کے لئے دارالافتاء تشریف فرما ہو تے۔ مغرب کے بعد حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ (جو کہ اب حضرتؒ کی شہادت کے بعد خودبھی وفات پا گئے ہیں،رحمہ اللہ )کے مدرسہ  جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کے دارالافتاء میں حل شدہ فتاویٰ کی آخری تصحیح فرماتے ۔عشاء کے بعد پھر بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء میں تشریف لاتے اور ساڑھے دس یا گیارہ بجے تک فتاویٰ کی اصلاح فرماتے ۔ تقریباً رات گیارہ بجے گھر جاتے اور پھر اگلے دن جب صبح فجر کی نماز میں ’’وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰ تِھِمْ یُحَافِظُوْنَ‘‘ پر عمل پیر اہوکر   پہلی صف میں نظر آتے تو ایک طرف خدائی وعدہ ’’ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ کا یقین کامل ہوتا اور دوسری طرف اکابر کے تقویٰ و طہارت کے واقعات کی ایک عملی تصویر سامنے آجاتی۔ ہم نے اپنے اساتذہ سے جامعہ کے استاذ الحدیث اور حضرت مولانا محمدانور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے شاگرد حضرت مو لا نا محمد ادریس میرٹھی علیہ الرحمہ کا جو نماز کااہتما م سنا تھا، اس کا عملی مشاہدہ حضرت کی نماز کے اہتمام میں کیا ۔     حضرت ؒکی زندگی کے نمایا ں پہلوؤں میںسے ایک اپنے مشائخ و اساتذہ کے ساتھ والہانہ تعلق اور عقیدت تھی ۔عشاء کے بعد ہم حضرتؒ کے پاس ان کی خدمت کے لئے حاضر ہو تے تواکثر اپنے اساتذہ کے واقعات بڑی محبت سے سناتے اور فرطِ عقیدت سے اکثر آنکھیں بھیگ جاتیں ۔ایک دن اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ’’ہم خان پور میں پڑھتے تھے، شرح جامی کا سبق تھا ،سبق خود حل کر کے لانا ہو تا تھا ،ایک دفعہ جمعرات کا دن تھااور ہمارے اوپر گھر جانے کا نشہ سوار تھا، اس لئے سبق حل نہ کیا ،صبح استاذ صاحب نے سبق سنا تو سبق  یاد نہ تھا ،استاذ جی نے غصے سے پو چھا کہ بھائی کیوں یاد نہیں کیا ؟تو میں نے کہہ دیا کہ نہیں جو یاد ہو تو اب کیا کریں ؟(حضرتؒ نے اتنی بات سنا کر کر فرمایا کہ آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میرے منہ سے یہ بات کیسے نکل گئی ؟) بس یہ کہنا تھا کہ ساتھ میں ایک درخت تھاجس کی جڑوں میں چیونٹیوں کی بلیں تھیں، اس میں پانی ڈلواکر وہاں استاذ جی نے کان پکڑوائے اور خوب جوتے بھی لگائے اورکتاب دے کر حکم دیا کہ ابھی سبق یا د کر کے سناؤ ،بقول حضرت شہید ؒ کہ: بس پھر تو جو سبق ساری رات میں یادنہیں ہو اتھا، صرف دس ،بارہ منٹ میں یا د ہو گیا۔یہ واقعہ سنا کر استاذ صاحب ؒ رونے لگے اور فرمایا کہ اگر استاذ جی اس وقت جو تے نہ لگواتے تو نجانے آج میں کہاں ہو تا؟ ۔      دورۂ حدیث کے سال آخری سبق کے بعد بڑی رقت آمیز دعاء کروائی اور آخر میں فرمایا کہ آپ یہ دعاء کریں کہ اللہ تعالیٰ مرتے دم تک حدیث کے ساتھ یہ تعلق برقرار رکھے اور شہادت کی مو ت عطاء فرمائے ۔اللہ نے حضرت ؒ کی اس دعاء کو حرف بحرف قبو ل فرمایا کہ بخاری کے درس کے لئے جاتے ہوئے ہی حضرت ؒ نے جام شہادت نو ش فرمایا۔ شہادت کے بعد حضرت کے چہرہ کا اطمینان زبان حال سے ’’ فزت ورب الکعبۃ‘‘کا نعرہ لگا رہا تھا۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین