بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مستور مگرمسحورکُن شخصیت

مستور مگرمسحورکُن شخصیت 

 بڑے مفتی صاحب(حضرت مولانامفتی محمدعبدالمجید دین پوری) نوراللہ مرقدہ کومرتبۂ شہادت پر فائزہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکاہے،ہنوز دل ودماغ اس صدمے کی شدت سے چُورہیں۔ کچھ لکھنے کاارادہ کرتاہوں توسنت سجایاتبسم بھراچہرہ اور کبھی لہومیں نہایارُخِ زیبانگاہوں میں گھوم جاتاہے اور پھرگھنٹوں گھنٹوں دل ودماغ میں یہ تصویرگردش کرتی رہتی ہے ۔ اس تصور سے باہرنکلتاہوں توآپ کے معطرلہوکی خوشبوکا جھونکاقلب کوگھائل کرکے دل ودماغ کوپھرسونی یادوں کی اسی وادی میں کھینچ لاتاہے اور دل کی کیفیت ،بے کیف ہوجاتی ہے۔اس مغلوب الحالی میںبڑے مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی جامع، مسحورکُن،عالمانہ کمالی صفات کی حامل اور ہمہ گیر شخصیت کے متعلق کچھ لکھنا کم از کم اس تنگ دامن وتنگ نگاہ کے بس کی بات نہیں: دامانِ نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار

گلچینِ بہارِ تو ز داماں گلہ دارد حضرت بڑے مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی شفقتیں وعنایتیں بندۂ ناچیزپرایسی رہیں کہ ضبط تحریر میں لانے کے لئے نہ ہمت وحوصلہ ہے، نہ اظہاروبیان کی مشق وتمرین ہے، بس محض رنج والم کاکچھ بوجھ دل ودماغ سے ہلکاکرنے کے لئے کاغذ وقلم کاسہارالے رہاہوں۔ بڑے مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ سے بندے کاتعارُف بچپن سے اس طرح ہواکہ مسجد الحمراء سے ہرجمعہ کے دن آنے والی نہایت پُرسوز اور دلدوز آوازدل کے دروازے پردستک دیتی، جب خطیب صاحب خوش الحانی کے ساتھ جمعے کے بیان سے قبل مخصوص انداز میں قصیدہ بردہ کایہ شعر : یاربّ صلّ وسلّم دائماً أبداً 

علی حبیبک خیرالخلق کلّھمٖ پڑھتے توالفاظ سماعتوں کومحظوظ کرتے ہوئے دل کی گہرائیوں میں اُترجاتے اور سنتے ہی دل گواہی دیتاکہ واقعۃً کسی سچے عاشقِ رسول کی زبان سے الفاظ نکل رہے ہیں جوسرتاپا عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم میں ڈوباہواہے۔بعد میں معلوم ہواکہ یہ بڑے مفتی صاحب (مولانامفتی محمدعبدالمجید دین پوری شہید رحمہ اللہ) ہیں۔ درجہ سابعہ(۲۰۰۶،۲۰۰۵) تک حضرت نوراللہ مرقدہٗ سے جامعہ کے ایک استاد اور نائب رئیس دارالافتاء کی حیثیت سے تعارف اور اسی کے بقدر تعلق رہا۔ لیکن اسی سال استاذ محترم مفتی محمدانعام الحق صاحب دامت برکاتہم کے سفرِحج پرتشریف لے جانے کے بعد مفتی صاحب کی جگہ ہدایہ ثالث کا درس دینے بڑے مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ تشریف لانے لگے ،تب حضرت کی شخصیت کے مخفی گوہر، ناچیز پر کھلے۔ حضرت نوراللہ مرقدہٗ بلاتکلف ہدایہ جلد ثالث کی عبارت کتاب میں دیکھے بغیر، حفظ سے ایسے مخفی اور غیرمحسوس اندازمیں پڑھتے کہ سامعین کواندازہ بھی نہ ہوتا۔حضرت علیہ الرحمۃ کے قریب بیٹھنے اور غورکرنے کے نتیجے میں جب ناچیز کوآپ کے اس کمال کااندازہ ہوگیاتوبعض اوقات عبارت پڑھنے کے بعد حضرت بھی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ سرکا ہلکاسا مخصوص اشارہ فرمادیتے ۔  دورانِ درس عبارت کاترجمہ، متعلقہ مسئلہ، ائمہ کااختلاف، دلائل بیان کرنے کے بعد ایسی روانی سے کئی کئی فقہی جزئیات (بعض مرتبہ حوالہ جات کے ساتھ) بیان فرماتے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ آپ کادرس انتہائی سادہ الفاظ میں،لیکن علمی گہرائیوں سے بھرپورہوتا۔انہی دروس کے دوران حضرت کی بے نظیر فقہی مہارت وبصیرت کابھی خوب خوب اندازہ ومشاہدہ ہوا۔بعد ازاںدورۂ حدیث میں جامع ترمذی جلدثانی و شمائل ترمذی اور تخصصِ فقہِ اسلامی میں مقدمۂ شامی اور شرح عقودرسم المفتی کے دروس سے، حدیث وفقہ کے مجمع البحرین کے کمالات کاحسین امتزاج دیکھنے وسننے کوملا۔ آپ کے درس کی خصوصیت یہ تھی کہ بہت تفصیلی مباحث سے خالی ،انتہائی سہل لیکن دقیق فقہی نکتوں اور اصولی قواعد سے بایں طور مزین ہوتاتھا کہ ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ صلاحیت واستعداد کے حامل ہردو قسم کے طلبہ یکساں مستفید ہوتے تھے،خصوصاً مقدمۂ شامی اور شرح عقود رسم المفتی کے درس کے دوران آپ کی فقہی جلالتِ شان مزید نکھر کر سامنے آئی۔  شہادت کے تین چارروز بعددیکھنے والے نے خواب دیکھاکہ حدیث کی کسی کتاب کادرس دے رہے ہیں ، کوئی ایسامقام ہے جہاں تفصیلی مباحث ذکرکئے جاتے ہیں۔ سبق میں حاضرطلبہ میں سے کوئی ساتھی دل دل میں سوچ رہے ہیں کہ حضرت‘ حدیث کے اس مقام پرتفصیلی بحث کیوں نہیں فرمارہے ؟  اتنے میں حضرت نورایمانی سے جان کرازخودفرماتے ہیں : مجھے معلوم ہے یہاں تفصیلی بحث کی جاتی ہے، لیکن اب اندازہ ہواہے کہ(تفصیلی مباحث کوچھوڑکر) جتنازیادہ حدیث کوپڑھاجائے اتنافائدہ ہوتاہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کواللہ تعالیٰ نے جومقبولیت عطافرمائی ہے، وہ خالص اللہ تعالیٰ کی دَین اور محتاجِ بیان نہیں ہے۔ مسائل وفتاویٰ کے حوالے سے جس قدر عوام کارجوع اللہ تعالیٰ نے اس جامعہ کونصیب کیاہے، وہ جامعہ سے جاری ہونے والے مدون فتاویٰ کے لئے حضرت رحمہ اللہ کی لکھی گئی تقریظ سے خوب واضح ہے۔ دستی تحریری فتاویٰ کی یومیہ اوسط تعداد چالیس سے پچاس ہے۔ فتویٰ کے میدان سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ فتویٰ کامعاملہ کس قدر نازک ہے۔ روز کے صرف چالیس فتاویٰ ہی اتنی کافی مصروفیت ہے کہ دوسرا کام سوچنے کی فرصت نہ ملے۔جامعہ میں دورۂ حدیث اور درجۂ تخصص کی تدریس ،جامعہ معہدالخلیل الاسلامی میں تصحیحِ فتاویٰ ، جامعہ درویشیہ میں مشیخۃِحدیث کی مسند اور مسجد الحمراء کی امامت وخطابت اس کے سوا ہیں۔      یوں توآپ فقیہ النفس تھے ہی، تقریباً اڑتیس سال تدریس وافتاء کی خدمت سے وابستہ رہنے کے نتیجہ میں آپ کے فقہی ذوق کوچارچاند لگ گئے تھے اوریہ ذوق صرف علمی حد تک محدود نہیں تھا، بلکہ آپ کا ہر عمل فقہ کے جزئیات وکلیات پرپورااترتاتھا۔مثال کے لئے ایک دو واقعات کا بیان کافی ہوگا۔ ناچیز دورۂ حدیث کے سال ایک روزآنکھوں میں سیاہ سرمہ ڈال کے سبق میں حاضر ہوا، توحضرت نے دیکھتے ہی دورانِ درس مائیک کے سامنے سے سَرہٹاکرقریب ہوکر ارشاد فرمایا: ’’کالاسرمہ توخواتین کے لئے ہے، مردوں کے لئے فقہاء نے اسے مکروہ لکھاہے،مردوں کے لئے اثمدہے (جو سرمئی اوربراؤن دورنگ کا ہوتا ہے)۔‘‘ ناچیزکے لئے یہ علمی اضافہ تھا۔ حضرت نوراللہ مرقدہٗ کو غور سے دیکھاتوہمیشہ اہتمام کے ساتھ اثمدکے استعمال کاعادی پایا، شاید ہی کبھی چشمِ مبارک سرخ اصفہانی اثمد سے خالی نظر آئی ہوں ۔ بعد میں یہ جزئیہ کئی کتب میں دیکھاکہ عام حالت میں مردوں کے لئے سیاہ سرمہ فقہاء کے ہاں مکروہ ہے ؛ کیوں کہ یہ زینت کاحصہ ہے جوخواتین کے احکام میں سے ہے۔ مردوں کے لئے اثمد ہی کااستعمال خاص ہے۔ملاحظہ ہو: ’’کتاب الکراھیۃ، الباب العشرون في الزینۃ واتخاذ الخادم للخدمۃ، (۵/۳۵۹) ط: مکتبہ حقانیہ پشاور‘‘ جب کہ امام مالک رحمہ اللہ کے ہاں مردوں کے لئے صرف علاج وغیرہ کی ضرورت کی صورت میں سرمے کااستعمال (بلاکراہت)جائزہے، ورنہ وہ مطلقاً کراہت کے قائل ہیں۔ ملاحظہ ہو:’’جمع الوسائل فی شرح الشمائل لعلی القاری، [المتوفی:۱۰۱۴ھ] ، باب ماجاء فی کحل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، (ص:۱۲۹) ط: ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان‘‘۔ ناچیزنے تخصص کے دوران کئی مرتبہ یہ بات محسوس کی کہ حضرت کو مسندِ افتاء پرتشریف رکھتے ہوئے سلام کیاجائے توبعض اوقات جواب دیتے ہیں اور بعض مرتبہ نہیں۔ دل میں کھٹک ہوتی کہ ناراض نہ ہوں! لیکن انہی دنوں فتاویٰ کی کتب میں یہ جزئیہ نظرسے گزراکہ قاضی کودورانِ قضاء ، اور مفتی کو فتویٰ دیتے وقت سلام کرناادب کے خلاف ہے، اس دوران اگرکوئی سلام کرے بھی توقاضی اورمفتی پرسلام کاجواب دیناواجب نہیں ہے۔ چناںچہ پھرغورکرنے پرمعلوم ہواکہ حضرت جس وقت تصحیح کے لئے فتاویٰ پرنظر فرمارہے ہوتے تواس وقت آپ کی مکمل توجہ اسی جانب ہوتی ، اور جب اس مشغولیت سے ذرا فارغ ہوتے تواس دورانی عرصے میں سلام کرنے والوں کوجواب بھی ارشاد فرماتے۔  فقہ سے اس کلی مناسبت کے ساتھ حدیث وسنت سے علمی وعملی مناسبت بھی تام تھی۔ دورانِ درس متعارض احادیث کی تطبیق اور ترجیح کاخصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث کے علم اور اس پرپختہ عمل ہی کااثرتھاکہ دورانِ درس کیف وسرور کاایساروح پرور سما ں بندھتا کہ الفاظ کاجامہ نہیں پہنایاجاسکتا۔ راقم آثم کے ہم درس بنگلہ دیش کے ایک ساتھی کی دورۂ حدیث کے سال بڑے مفتی صاحب اور ایک بڑے بزرگ استاذ کے سبق کے دوران عجیب حالت ہوتی تھی، آنسوؤں کی ایک لڑی آنکھوں سے بہہ رہی ہوتی تھی۔ پڑوسی ساتھی بارہادریافت کرتے توجواب ملتاکہ تسلسل سے بیٹھنے کی وجہ سے ٹانگ میں شدیدتکلیف ہوتی ہے؛ اس لئے رو رہاہوں، راقم کوان سے بے تکلفی تھی، ایک مرتبہ مجھے بتلایاکہ میں درد اور تکلیف کی وجہ سے نہیں روتا، بلکہ ہوتایہ ہے کہ جب بڑے مفتی صاحب اوردوسرے استاذصاحب درس دے رہے ہوتے ہیں تو مسندِ حدیث تا آسمان نورکاایک ستون بن جاتاہے اور دونوںاسباق کے دوران اساتذہ دکھائی نہیں دیتے ، بلکہ یہ نور اس قدر تیز ہوتاہے کہ اس کی شعاعیں میری نگاہ برداشت نہیں کرپاتی اور بے اختیارآنسو بہہ پڑتے ہیں۔ تقویٰ وپرہیزگاری، اخلاص وللہیت واخفا، توکل، عبادت ،دعاوتضرع، حلم وبردباری، تواضع وانکساری،امت پر شفقت، صبرورضابالقضا،مسنون اذکاروادعیہ کے اہتمام سے محلّٰی طبیعت اور تکبر، غصہ، حسد، غیبت ، اسراف ایسے رذائل سے پاکیزہ فطرت رب نے ودیعت کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان عالمانہ اوصاف کی جامع شخصیات بہت ہی کم دیکھی گئی ہیں : بے تکلف، بے ریا، بے نفس، بے خود، بے غرض  مہربانے، دل نوازے، دوست دارے ایں چنیں چشمِ من بسیار گروید است و کم کم دیدہ است ایں قدر عالی وقارے خاکسارے ایں چنیں در ہمہ عالَم  نہ بینی  جز بہ خاصانِ خدا با چنیں طبعے بلندے انکسارے ایں چنیں عبادت کاذوق ایسا والہانہ تھاکہ تہجداور اشراق سے لے کر اوابین تک تمام نوافل کاآخروقت تک اہتمام تھا۔  پنج گانہ نماز باجماعت اداکرنے کااہتمام ایساکہ ایک سفرمیں ناچیزنے خودمشاہدہ کیاکہ کئی دن تک شدیدگرمی اور کافی فاصلہ پیدل طے کرنے کی مشقت اٹھاکرمسجدمیں جماعت سے نماز ادافرماتے تھے، جب کہ بعض جوان بھی سفر کی رخصت اوربعض گرمی کے عذرکاسہارالے کر اپنے حجروں میں جماعت کرتے تھے۔تہجد کی عادت ایسی پختہ تھی کہ سفرہویاحضر، یہاں تک کہ تفریحی اسفارمیں بھی جب سب تھک کرسوگئے تونصفِ لیل تا سحرآپ کونالۂ نیم شبی میں پایاگیا۔ اشراق کی مواظبت توشائع وذائع ہے۔بعض اوقات حضرت کی مسجدمیں مغرب یاعشاء کے بعد حاضری ہوئی تو بڑے مفتی صاحب کومسجد میں ہی دیرتک نوافل ادا کرتے پایا۔ ناچیزنے بعض مرتبہ عرض بھی کیاکہ حضرت! آج کل حالات بھی ساز گارنہیں اورگھٹنوں کی تکلیف بھی ہے، مولوی عزیر بھی اب نیابت کرسکتے ہیں ، توکبھی خاموشی سے مسکرادیتے ۔اور شہادت سے صرف دودن قبل بھی بندے کے اس بابت استفسارپر فرمایا: جمعہ کابیان میں خود کرتاہوں، خطبہ اور نماز عزیر پڑھاتاہے، کیوں کہ ٹانگ موڑنے میں تکلیف ہوتی ہے ، عرض کیاکہ حضرت اب تومولوی عزیرکے حوالے فرمادیں!توفرمایا:دیکھتے ہیں! (کریمانہ اخلاق کے سبب اپنے صاحبزادے تک کویہ تکلیف دیناگورانہیں فرمائی کہ اس کی تعلیمی یکسوئی میں حرج آئے ۔)  اکابرِدیوبندسے آپ کوخاص عشق تھا، روزانہ معمول یہ تھا(اورہمیں بھی یہی نصیحت فرمائی)کہ رات سونے سے پہلے آدھ گھنٹہ کم وبیش اکابرکے سوانح اورواقعات پڑھتے۔ اسی کانتیجہ تھاکہ مختلف اکابر کی مختلف شانیں آپ میں جمع تھیں۔ صبح سے لے کررات دیرتک حدیث وفقہ کی تدریس ا ورفتاویٰ کی تصحیح کے حوالے سے آپ کامعمول ایسالگابندھا تھاکہ مدتوں اوقات میں معمولی فرق نہ آیا، گویا فقیہِ دوراں ومحدث بے بدل حضرت گنگوہی علیہ الرحمۃ کی شانِ استقامت اورشانِ جامعیت کاچلتاپھرتانمونہ بڑے مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی صورت میں آنکھوں نے دیکھا۔دوسری طرف حضرت مدنی علیہ الرحمۃ سے غیرمعمولی حدتک متأثر نظرآتے تھے، اگریہ کہاجائے کہ بڑے مفتی صاحب علیہ الرحمۃ کی صورت میں حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کوان آنکھوں نے دیکھاہے توبے جانہ ہوگا۔ نہ صرف اپنے اساتذہ کی خدمت بلکہ اس پیرانہ سالی میں جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہرطبقے میں آپ کوعزت واحترام عطاکرکے ہردلعزیز بنادیاتھا، اس وقت بھی اپنے شاگردوں ، خادمین ، اور اہل خانہ واولاد کی خدمت میں کوشاں رہتے تھے۔ گھرمیں چارپائی کی بان ڈھیلی ہونے پررسی کَسنے، کپڑے دھونے، حتیٰ کہ بچوں کے کپڑے تک خود استری کرنے میں عارمحسوس نہ فرماتے تھے۔  گزشتہ سال خیرالمدارس ملتان میں وفاق المدارس کے زیرِ اہتمام جوابی پرچوں کی جانچ کے لئے تشریف لے گئے ۔حضرت کے کمرے میں اے سی کی سہولت موجودتھی، جوبحیثیت ممتحنِ اعلیٰ آپ کے لئے مخصوص تھا، لیکن مخلوق کی شفقت کے آگے ایسے مجبورکہ رات ہوتے ہی اس کمرے کے دروازے خدام کے لئے یوں وا کردیتے کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہتی ،اورسب خدام رات سکون کی نیندسوتے۔سخت گرمی کے موسم میں عام درجے کی اے سی کوچ میں گھٹنوں کی شدیدتکلیف کے باوجود جس صبر،سکون ، بردباری اور شگفتگی کے ساتھ سفرمکمل کیا وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔ساراراستہ مزاح ، اورلطائف سے محظوظ بھی ہوتے رہے اور’’لایزال لسانک رطباً بذکراﷲ‘‘پرعمل بھی جاری رہا۔ کراچی سے ملتان کے سفر، گرمی کی شدت اور دیگر سفری مشقتوں کے باوجود حضرت کے چہرے پرذرا تغیرنہیں تھا، بلکہ اسی طرح تروتازہ جیسے کراچی سے روانہ ہوئے تھے ،ملتان کے جس علاقے سے گزرہوتا،اس کا تعارف بھی کراتے اور موقع ومحل کی مناسبت سے مزاح بھی فرماتے۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں تھا، بلکہ حضرت کی ساری زندگی ہی اس سادگی ، تواضع وانکساری کانمونہ تھی،چنانچہ دوسال قبل ایک جمعرات کی عصرکی اذان کے وقت راقم آثم کے گھرپربڑے مفتی صاحب بنفسِ نفیس اپنی سادہ سی موٹرسائیکل پرتشریف لائے، ناچیزشرم سے پانی پانی ہوگیا ، عرض کیاکہ خادم کوحکم کیاہوتا! مسکراکرفرمایا: بس یہ بتاناتھاکہ ہفتہ کووفاق کے امتحانات میں نگرانی کے لئے تم نے بھی ساتھ جاناہوگا، رات میں جامعہ آجانادارالافتاء میں بیٹھ کرنقشہ بنالیں گے اور یہ کہہ کرحضرت نے موٹرسائیکل اسٹارٹ کرلی اورفرمایا: عصرکی نمازکاوقت قریب ہے۔  گزشتہ سال جامعہ میں ختم بخاری کے موقع پرجب سب کے مشفق ومحسن استاذمحترم مولانا امداد اللہ صاحب دامت برکاتہم نے حضرت مفتی صاحب کوبیان اورطلبہ کونصائح ارشاد فرمانے کے لئے دعوت دی تومائیک پرپہنچ کرمفتی صاحب بے ساختہ رونے لگے اور کافی دیررونے کے بعد فرمایا: حضرت بنوری نوراللہ مرقدہٗ نے ایک مرتبہ ختم بخاری کے موقعہ پرارشاد فرمایا:قیامت کی علامت ہے کہ یوسف بخاری کادرس دے رہاہے۔ یہ قول نقل کرکے فرمایا: یہ توحضرت بنوری نوراللہ مرقدہٗ نے تواضعاً فرمایا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیامت کی علامت ہے کہ عبدالمجیدمسندِ حدیث پرحدیث کادرس دے رہاہے۔ اور پھربیان میں طلبہ کے نصائح کے ضمن میں امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف رحمہمااللہ کا ایک واقعہ سنایا۔(جو آپ کی فقاہتِ نفسی کی دلیل ہے۔)  حلم وبردباری کایہ عالم تھاکہ بچوں کے کھیل کے دوران گزرتے ہوئے کبھی گیندلگ جاتی توچہرۂ مبارک پرتغیرآنابڑی بات، مسکراتے ہوئے گیندخود اپنے ہاتھوں سے اٹھاکربچوں کوتھمادیتے ۔ یہ بھی سننے میں آیاکہ مسجد میں بعض کم نصیب لوگ آپ کوبرسرِعام منہ پرسخت الفاظ کہہ دیتے توزبان سے کچھ کہناتودورکی بات، چہرے کارنگ بھی متغیرنہ ہوتاتھا۔  تقویٰ کی انوکھی شان آپ میں دیکھی ۔ شہرکی ایک مشہور دکان جہاں لوگ عیدِ قربان کے موقع پرقربانی کاگوشت لاکرہنٹربیف وغیرہ بنواتے ہیں اور یہ دکان اسی حوالے سے شہربھرمیں معروف بھی ہے۔ حضرت وہاں کابناہواہنٹربیف نہیں کھاتے تھے۔ عقدہ یوں کھلاکہ ایک مرتبہ فرمانے لگے : میں نے صاحب دکان سے کہاہے کہ آپ کے ہاں مسلمانوں کی طرح اُن دیگر فرقوں کے لوگ بھی اپنے مذبوحہ جانوروں کاگوشت لاتے ہیں جن کاذبیحہ حلال نہیں ہے، اور ان دنوں میں آپ مسلمانوں کے مذبوحہ جانور اور غیرمسلموں کے حرام مذبوحہ جانورایک ساتھ ایک گھی میں پکاتے ہیں، غیرمسلم کاذبیحہ حرام ہونے کے ساتھ ساتھ ناپاک بھی ہے، اس کے ساتھ ملنے کی وجہ سے مسلمان کاگوشت بھی ناپاک ہوجاتاہے۔ فرمایا:صاحب ِ دکان نے وعدہ کیاہے کہ آئندہ حلال وحرام ذبیحے کے گوشت کوالگ الگ رکھوں گا اور الگ ہی پکاؤں گا۔ یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر ان ہی کے اتّقا پر ناز کرتی ہے مسلمانی   اسراف سے اس قدر اجتناب کرتے کہ خط کالفافہ کاٹ کر(اس کے اندرکی جانب جوخالی ہوتی ہے، اس پر)فتویٰ کی تمرین کے لئے تخصص کے طلبہ کودیاکرتے تھے۔سنت کی پابندی کاخوب اہتمام تھا۔اخلاق ہوں یااعمال ،آپ کے ہرعمل کی بنیادپرکوئی نہ کوئی حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی تھی۔آخروقت بھی جب آپ کاجسد اطہرچارپائی پررکھاتھاتوتقریباً اڑھائی گھنٹے ناچیز حضرت کے سرہانے رہااور بہت ہی غورسے حضرت کودیکھتارہا ۔ اس وقت محسوس ہواکہ حضرت ظاہرمیں تومحراب پور کے سفر کی تیاری میں مونچھوں کوعین سنت کے مطابق تراش کرروانہ ہونے کوتیارتھے،لیکن حقیقت میں بارگاہِ ایزدی کی حاضری کے وقت سنتِ خُبیبی پرعمل کرگئے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین