بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مروجہ اسلامی بینک اورتکافل   رویوں کا سوال - اختلاف کی نوعیت!


مروجہ اسلامی بینک اورتکافل 
 رویوں کا سوال - اختلاف کی نوعیت!


رِبا اور قمار کی حرمت قطعی ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس حرمت کا انکار نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی مسلمان رِبا اور قمار کو رِبا اور قمار قرار دیتے ہوئے اختیار کرے‘ یہ بھی مشکل ہے۔ بلکہ رِبا اور قمار کے ذریعہ نفع اندوزی چونکہ انسانی فطرت کے منافی بھی ہے، اس لیے کفار اور مشرکین بھی اسے براہِ راست جائز کہہ کر نفع اندوز ہونے کی بجائے توجیہ اور تاویل کا سہارا لیا کرتے تھے۔ رِبا سے متعلق مشرکین مکہ کے ردِ عمل کا بیان یوں ملتا ہے کہ انہوںنے اپنے رِبوی معاملات کی درستگی اور صحت کا براہِ راست دعویٰ نہیں کیا تھا، بلکہ رِبوی معاملات کے تحفظ کے لیے بیع کے ساتھ نفع اندوزی میں مماثلت کی تاویل کا سہارا لیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے رِبوی معاملات سے اجتناب کے حکم کو مزید سخت لہجے اور تہدیدی انداز میں بیان فرمایا کہ: جو رِبوی معاملات کرچکے ہو، بس اب ہرحال میں رِبا سے اجتناب کرو، ورنہ رِبوی معاملات کے ابتلاء وتلوُّث کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔ رِبوی معاملات سے باز نہ آنے کی صورت میں کھلم کھلا اعلانِ جنگ کرکے اللہ کے مقابلے میں آجاؤ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آیت رِبا آخر آخر میں نازل ہونے والی آیت ہے، ا س کی پوری تفصیل اور کامل تفسیر بیان فرمانے سے قبل ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیائے فانی سے پردہ فرماگئے تھے، اس لیے مسلمانو! رِبا اور شبہۂ رِبا دونوں سے اجتناب کرو۔ رِبا کا معاملہ دیگر شرعی احکام کے مقابلے میں چونکہ زیادہ سنگین ہے، اس لیے رِبا کی حرمت وشناعت بیان کرتے ہوئے اسلامی احکام، شرعی دفعات اور دینی روایات کا لب ولہجہ، اسلوبِ بیان اور اندازِ اظہار دیگر امورِ تبلیغ کی بنسبت انتہائی سخت اختیار فرمایا گیاہے۔ 
اللہ تعالیٰ کا غضب ناک اعلان ’’فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ کی صورت میں قرآن نے بیان کیا گیا ہے۔ اقوامِ سابقہ کے استحقاقِ لعنت کے بنیادی اسباب میں اکل رِبا اور اخذِ رِبا کو شمار کیا گیا ہے، اور لسانِ نبوت سے رِبا کی قباحت وشناعت کو سمجھانے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیرات اور اسلوبِ بیان کا اندازہ لگانے کے لیے حضرت عبداللہ بن حنظلہ اور حضرت ابوہریرہ r کی دو روایتوں میں موجود درج ذیل الفاظ ہی کافی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’درہم رِباً یأکلہ الرجل وہو یعلم ، أشد من ستۃ وثلاثین زنیۃ۔ ‘‘              (مسند احمد،ج:۳۶،ص:۲۸۸، ط: مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)
’’جان بوجھ کر سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زناکاری سے زیادہ سخت ہے۔ ‘‘
ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : لاعلمی صرف اس شخص کے حق میں عذر ہوسکتی ہے جس کو حصولِ علم کے مواقع نہ ملے ہوں۔ اگر کسی کو ایسے مواقع میسر آئے تھے اور اس نے ان مواقع سے استفادہ نہیں کیا تو وہ بھی جان بوجھ کے رِبا کھانے والوں میں شمار ہوگا،یعنی وہ بھی مذکورہ وعید کا مصداق ہوگا۔ (مرقاۃ المفاتیح،ج:۶،ص:۶۷، ط: امدادیہ ملتان)غور کا مقام یہ ہے کہ رِبا کے معاملے میں لاعلمی کا عذر قبول کرنے نہ کرنے میں جہاں تفصیل ہے‘ وہاں رِبا سے متعلق علمی تاویلات کا مقام آخر کیا ہوگا؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ بیان، لب ولہجہ اور اندازِ تشنیع اس سے بھی زیادہ سخت ہے، ارشاد ہے:
’’الربا سبعون حوباً أیسرہا أن ینکح الرجلُ أمہٗ۔ ‘‘             (سنن ابن ماجہ، باب التیقظ فی الربا،ج:۲، ص:۷۶۴، ط:دارالفکر، بیروت )
’’رِبا ستر گناہوں کے برابر ہے، ان میں سب سے آسان وادنیٰ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ ‘‘
یعنی ماں سے بدکاری کی قباحت وشناعت جہاں ختم ہوتی ہے، وہاں سے رِبا کی قباحت وشناعت شروع ہوتی ہے۔ اس سے اوپر ستر درجے تک رِبا کی قباحت وشناعت کا اندازہ لگاتے جائیں اور بحیثیت مسلمان رِبوی معاملات سے اجتناب کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان سخت بیان‘ نصوص سے مرادِ شریعت یہی اجتناب ہے، اسے کوئی مسلمان شتام ودشنام سے تعبیر نہیں کرسکتا۔ 
ماضی قریب تک اکابرِ اُمت نے انفرادی واجتماعی سودخوری پر اپنے ردِ عمل میں اسی اندازِ تشنیع کو اپنائے رکھا، خواہ سود خوری کا عمل بلاتاویل اپنایا گیا ہو، یا تاویل کرکے سود کو استعمال کرنے، باقی رکھنے اور رواج دینے کی کوشش کی گئی ہو۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں سود کی ادارتی شکل (بینک) کے منافع کو مختلف دلائل اور رنگارنگ تاویلات کے ذریعہ حلال باور کرانے کی جب کوشش فرمائی گئی تو اس پر اکابر نے کسی بھی قسم کی عملی اور لفظی نرمی کو ’’مداہنت ‘‘ قراردیا تھا اور قرآن وسنت میں بیان کردہ وعیدات، ترہیبات کو اپنے زورِ قلم اور قوتِ بیان سے بھرپور انداز سے پیش فرمایا تھا۔ اس کی سب سے عمدہ مثال حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع دیوبندی نور اللہ مرقدہٗ کا رسالہ ’’مسئلہ سود‘‘ مقبولِ عام وخاص ہے۔ اس رسالے میں تاویل کے ساتھ یا بلاتاویل سود کو جائز سمجھنے والے، رواج دینے والے اور اس کی حرمت کو شعوری یا لاشعوری طور پر تشکیک کی نذر کرنے والوں کے بارے میں حضرت مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی چند تعبیرات، عبارات اور ارشادات -ریشم میں ٹاٹ کی پیوندکاری کے ساتھ- ملاحظہ فرمائیں، جسے بابِ رِبا میں نبوی لب ولہجہ کی اُردو تعبیر بھی قرار دیا جاسکتا ہے:

ارشاد:

’’یہودِ مدینہ میں اس کا عام رواج تھا اور ان میں صرف شخصی اور صرفی ضرورتوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے بھی سود کا لین دین جاری تھا۔ ہاں! نئی بات جو آخری دو صدی کے اندر پیدا ہوئی‘ وہ یہ ہے کہ جب سے یورپ کے بنیئے دنیا میں برسراقتدار آئے تو انہوں نے مہاجنوں اور یہودیوں کے سودی کاروبار کو نئی نئی شکلیں اور نئے نام دیئے اور اس کو ایسا عام کردیا کہ آج اس کو معاشیات واقتصادیات اور تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا اور سطحی نظر والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ آج کوئی تجارت یا صنعت یا اور کوئی معاشی نظام بغیر سود کے چل ہی نہیں سکتا۔ ‘‘   (مسئلہ سود،ص:۹، ادارۃ المعارف، از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’یہ ابتدائی مجبوری ایک انتہائی غفلت تک پہنچ گئی کہ اب معاملات میں حلال وحرام کا تذکرہ بے وقوفی یا آج کل کے جدت پسندوں کی اصطلاح میں نری مُلَّائیت کہلاتا ہے۔ ‘‘                  (مسئلہ سود، ص: ۱۰، ادارۃ المعارف، از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)
’’رِبا (سود) کی شرعی تعریف اور اس کے اقسام کے متعلق قرآن وحدیث کے احکام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، تاکہکم از کم علمی اور فکری غلطی سے تو نجات حاصل ہوسکے۔‘‘            (مسئلہ سود، ص: ۱۱، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’پھر کسی کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم میں سے کسی چیز کو محض اپنے خیال سے مستثنیٰ کردے؟ یا عام ارشاد کو خاص کردے؟ یا مطلق کو بلاکسی دلیل شرعی کے مقید ومحدود کردے؟ یہ تو کھلی تحریفِ قرآن ہے، اگر خدانخواستہ اس کا دروازہ کھلے تو پھر شراب کو بھی کہاجاسکتا ہے کہ وہ شراب حرام تھی جو خراب قسم کے برتنوں میں سڑاکر بنائی جاتی تھی، اب تو صفائی ستھرائی کا اہتمام ہے، مشینوں سے سب کام ہوتے ہیں، یہ شراب اس حکم میں داخل ہی نہیں۔ قمار کی بھی جو صورت عرب میں رائج تھی، جس کو قرآن کریم نے ’’مَیْسِر‘‘اور ’’أَزْلَام‘‘ کے نام سے حرام قرار دیا ہے، آج وہ قمار موجود ہی نہیں، آج تو لاٹری کے ذریعے بڑے بڑے کاروبار اس پر چلتے ہیں، معمہ بازی کا کاروبار بڑے اخباروں، رسالوں کی روح بنا ہوا ہے، تو کہا جائے گا کہ یہ اس قمار حرام میں داخل ہی نہیں اور پھر تو زنا، فواحش، چوری، ڈاکا سبھی کی صورتیں پچھلی صورتوں سے بدلی ہوئی ملیں گی، سبھی کو جائز کہنا پڑے گا۔ اگر یہی مسلمانی ہے تو اسلام کا تو خاتمہ ہوجائے گا اور جب محض چولہ بدلنے سے کسی شخص کی حقیقت نہیں بدلتی تو جو شراب نشہ لانے والی ہے، وہ کسی پیرایہ اور کسی صورت میں ہو‘ بہرحال حرام ہے۔ جوا اور قمار مروَّجہ معمول کی نظر فریب شکل میں یا لاٹری کی دوسری صورتوں میں بہرحال حرام ہے۔ فحش وعریانی اور بدکاری قدیم طرز کے چکلوں میں ہو یا جدید طرز کے کلبوں، ہوٹلوں، سینماؤں وغیرہ میں ہو، بہرحال حرام ہے۔ اسی طرح سود ورِبا یعنی قرض پر نفع لینا خواہ قدیم طرز کا مہاجنی سود ہو یا نئی قسم کا تجارتی اور بینکوں کا، بہرحال حرام ہے۔ ‘‘ (مسئلہ سود، ص: ۲۸،۲۹، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’رہا یہ قضیہ کہ بینکوں کے سودی کاروبار سے غریب عوام کا نفع ہے کہ انہیں کچھ تو مل جاتا ہے، یہی وہ فریب ہے جس کی وجہ سے انگریز کی سرپرستی میں اس منحوس کاروبار نے ایک خوبصورت شکل اختیار کرلی ہے کہ سود کے چند ٹکوں کے لالچ میں غریب یا کم سرمایہ داروں نے اپنی اپنی پونجی سب بینکوں کے حوالے کردی، اس طرح پوری ملت کا سرمایہ سمٹ کر بینکوں میں آیا۔ ‘‘         (مسئلہ سود، ص: ۳۷، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’لیکن اگر سود کے اس ملعون چکر پر کوئی سمجھ دار آدمی نظر ڈالے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے یہ بینک ’’بلڈ بینک‘‘ بنے ہوئے ہیں، جن میں ساری ملت کا خون جمع ہوتا ہے اور وہ چند سرمایہ داروں کی رگوں میں بھرا جاتا ہے، پوری ملت غربت وافلاس کا شکار ہوجاتی ہے اور چند مخصوص سرمایہ دار پوری ملت کے خزائن پر قابض ہوتے جاتے ہیں۔ جب ایک تاجر دس ہزار کا مالک ہوتے ہوئے دس لاکھ کا بیوپار کرتا ہے تو غور کیجیے کہ اگر اس کو نفع پہنچا تو بجز سود کے چند ٹکوں کے وہ سارا نفع اس کو ملا اور اگر یہ ڈوب گیا اور تجارت میں گھاٹا ہوگیا تو اس کے تو صرف دس ہزار گئے، باقی نو لاکھ نوے ہزار تو پوری قوم کے گئے، جس کی کوئی تلافی نہیں۔ اور مزید چالاکی دیکھئے کہ ان ڈوبنے والے سرمایہ داروں نے تو اپنے لیے ڈوبنے کے بعد بھی خسارہ سے نکل جانے کے چور دروازے بنارکھے ہیں۔ ‘‘       (مسئلہ سود، ص: ۳۸، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

مثلاً کمپنی کا لمیٹڈ (محدود ذمہ داری کا) تصور اور انشورنس بنام انشورنس یا بنام تکافل وغیرہ سرمایہ داروں کو خسارہ کی مسؤولیت سے نکلنے کے محفوظ راستے اور ممکنہ نقصانات کی تلافی کے لیے تدابیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ (راقم)

ارشاد:

بہرحال ان لوگوں نے اپنے ایک جرم اس طرح کے بہانے نکال کر دو جرم بنالیے: ایک قانونِ حق کی خلاف ورزی، دوسرے اس قانون ہی کو غلط بتلانا۔ اس جگہ تقاضائے مقام یہ تھا کہ یہ لوگ یوں کہتے: ’’إنما الربامثل البیع‘‘ یعنی سود مثل بیع وشراء کے ہے، مگر ان لوگوں نے ترتیب کو برعکس کرکے ’’إنما البیع مثل الربا‘‘کہا، جس میں ایک قسم کا استہزاء ہے کہ اگر سود کو حرام کہاجائے تو بیع کو بھی حرام کہنا پڑے گا۔ ‘‘ (مسئلہ سود، ص: ۴۴-۴۵، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

جیسے ہمارے اہل علم روایتی بینکوں کے سودی قرضے کی ملمع سازی کو جب سود کہتے ہیں تو مجوزین حضرات جواباً فقہی مرابحہ کو ڈھال بنالیتے ہیں۔ اورتاویلاتی مرابحہ پر رد کرنے والوں کو مرابحہ فقہیہ کا منکر ٹھہرا کر استہزاء بھی کیا جاتا ہے۔ (راقم)

ارشاد:

’’آیت مذکورہ کے تیسرے جملہ (أحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا)میں اہل جاہلیت کے اس قول کی تردید کی گئی ہے کہ بیع اور رِبا دونوں یکساں چیزیں ہیں، ان کا مطلب یہ تھا کہ رِبا بھی ایک قسم کی تجارت ہے، جیسا کہ آج کل جاہلیتِ اُخریٰ والے بھی عموماً یہی کہتے ہیں کہ: ’’ جیسے مکان، دکان اور سامان کو کرایہ پر دے کر اس کا نفع لیاجاسکتا ہے تو سونے چاندی کو کرایہ پر دے کر اس کا نفع لینا کیوں جائز نہ ہو؟ یہ بھی ایک قسم کا کرایہ یا تجارت ہے۔ ‘‘ اور یہ ایسا ہی ’’پاکیزہ‘‘قیاس ہے جیسے کوئی زنا کو یہ کہہ کر جائز قرار دے کہ یہ بھی ایک قسم کی مزدوری ہے، آدمی اپنے ہاتھ پاؤں وغیرہ کی محنت کرکے مزدوری لیتا ہے اور وہ جائز ہے تو ایک عورت اپنے جسم کی مزدوری لے لے تو یہ کیوں جرم ہے؟ اس بیہودہ قیاس کا جواب علم وحکمت سے دینا علم وحکمت کی توہین ہے، اس لیے قرآن کریم نے اس کا جواب حاکمانہ انداز میں بیان فرمایا کہ ان دونوں چیزوں کو ایک سمجھنا غلط ہے، اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور رِبا کو حرام قرار دیا ہے۔ ‘‘      (مسئلہ سود، ص: ۴۵، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’اورتجربہ شاہد ہے کہ سود کا مال سود خور کی آنے والی نسلوں کی زندگی بھی خوشگوار نہیں بننے دیتا، یا ضائع ہوجاتا ہے یا اس کی نحوست سے وہ بھی مال ودولت کے حقیقی ثمرات سے محروم وذلیل رہتے ہیں۔ ‘‘       (مسئلہ سود، ص: ۵۶، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’اور بعض علمائے تفسیر نے اس آیت (لیربوا فی أموال الناس۔۔۔۔ الآیۃ)کو سود وبیاج کی ممانعت پر محمول نہیں فرمایا،بلکہ اس کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ جو شخص کسی کو اپنا مال اِخلاص اور نیک نیتی سے نہیں، بلکہ اس نیت سے دے کہ میں اس کو یہ چیز دوں گا تو وہ مجھے اس کے بدلے میں اس سے زیادہ دے گا، جیسے بہت سی برادریوں میں ’’نیوتہ‘‘کی رسم ہے کہ وہ ہدیہ کے طور پر نہیں بلکہ بدلہ لینے کی غرض سے دی جاتی ہے۔ یہ دینا چونکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے نہیں، اپنی فاسد غرض کے لیے ہے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ: اس طرح اگرچہ ظاہر میں مال بڑھ جائے مگر وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، ہاں! جو زکوٰۃ، صدقات اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے دیئے جائیں‘ ان میں اگرچہ بظاہر مال گھٹتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دوگنا چوگنا ہوجاتا ہے۔ ‘‘  (مسئلہ سود، ص: ۶۴-۶۵، ادارۃ المعارف،از مفتی محمد شفیع عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

مروجہ تکافل میں جو رقم اس غرض سے وقف کی جاتی ہے کہ اس کے بدلے میں تکافل کمپنی مجھے اس سے زیادہ دے گی، اسے ’’غرضِ فاسد‘‘ سے پاک‘ تکافل اگر قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر ’’نیوتہ‘‘ کے نام سے دیئے جانے والے ’’ہدیہ‘‘ کو حضرت مفتی صاحب کے ہاں غرضِ فاسد کہنا اور اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی سے خالی قراردینا غلط ہوگا، مگر ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نیوتہ ’’ہدیہ‘‘ نہیں، ’’بدلے‘‘ کا معاملہ ہے، اور مروجہ تکافل کی ’’وقف‘‘ رقم‘ انشورنس کی طرح معاوضاتی معاملہ ہے، تو وہ سچ کہتے ہیں۔ (راقم)

ارشاد:

’’شکل وصورت کے بدلنے سے احکام میں کوئی فرق نہیں آتا، قرآن نے ’’الخَمْر‘‘ (شراب) کو حرام قرار دیا ہے، زمانۂ نبوت میں وہ جس شکل وصورت کے ساتھ معروف تھی اور اس کے بنانے کے جو طریقے رائج تھے‘ وہ سب بدل گئے، مگر چونکہ حقیقت نہیں بدلی، اس لیے حکم بھی نہیں بدلا، وہ بدستور حرام رہی۔ ’’الفحشائ‘‘ (بدکاری) کی صورتیں اس زمانے میں کچھ اور تھیں، آج کچھ اور ہیں، زمین وآسمان کا تفاوت ہے، مگر بدکاری، بدکاری ہی ہے اور قرآن کے وہی احکام اس پر نافذ ہیں۔ سود اور قمار کا بھی یہی حال ہے، اس زمانے میں اس کی جو شکل وصورت معروف تھی، آج اس سے بہت مختلف صورتیں رائج ہیں، مگر جس طرح مشینوں اور سائنٹفک طریقوں سے کشید کی ہوئی شراب، شراب ہے اور سینماؤں اور کلبوں کے ذریعے پیدا کی ہوئی آشنائیاں اور ان کے نتیجے میں بدکاریاں، بدکاریاں ہی ہیں تو اگر سود اور قمار کو نئی شکل دے کر بینکنگ یا لاٹری کا نام دے دیا جائے تو اس سے اس کے احکام کیوں بدلیں؟ یہ تو ایسا ہی ہوگیا جیسے: کسی ہندوستانی ماہر موسیقی نے عرب کے بدوؤں کا گانا سن کر کہا تھا کہ قربان جائیے اپنے نبی کے! انہوں نے ان لوگوں کا گانا سنا، اس لیے حرام قرار دے دیا، یہ بے شک حرام ہی ہونا چاہیے، اگر ہمارا گانا سنتے تو کبھی حرام نہ کہتے۔ ‘‘   (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۰۴، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

اس تحریر کے مندرجات کی روشنی میں یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ بینکنگ کے روایتی سود کو اس کے روایتی طریقہ کار کے تحت سودی مارکیٹ کی شرح سود کے ساتھ قسط واری سلسلے کے تحت رائج الوقت سودی قرضے کے انداز پر مرابحہ مؤجلہ قرار دینے سے بینک کا سود حلال نہیں ہوسکتا۔ نیز لیزنگ کی روایتی شکل کو اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ اجارہ منتہیہ بالتملیک کا نام دینے سے ’’لیزنگ‘‘ اجارہ نہیں بن جاتی۔ نیز انشورنس کو تکافل کہنے سے انشورنس میں پاکیزگی نہیں آتی، کیوں کہ ’’نام‘‘ بدلنے سے احکام میں تبدیلی نہیں آتی۔ (راقم)

ارشاد:

’’پھر بینکنگ کچھ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے کہ ہر ایک بینک میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ نوکری کرتے ہیں، اس طرح کسی نہ کسی درجے میں سود کی نجاست میں ملوّث ہوجاتے ہیں اور جو لوگ براہِ راست ملوّث نہیں ہوتے تو وہ مال جو بذریعہ سود حاصل کیا جاتا ہے، جب اس کی گردش ملک میں ہوتی ہے تو بالواسطہ ہی سہی، مگر سود کے پیسے سے ہر شخص ملوث ہوجاتا ہے، جس کو حدیث میں ’’سود کا غبار‘‘کہاگیا ہے اور جس سے بچنے کا دعویٰ کوئی بڑے سے بڑا متقی بھی نہیں کرسکتا۔ ‘‘     (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۱۰، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

یہ ارشاد گرامی‘ لمحۂ فکریہ ہے ان احباب کے لیے جو مروجہ بینکوں اور کفالتی اداروں کو اسلامی معیشت کا فروغ قرار دیتے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم نے کثیر تعداد لوگوں کو کم از کم ’’اعظم سود‘‘ سے ’’اہون سود‘‘ کا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ یہ احباب اگر غور فرمائیں تو یہاں غور کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ زیرِبحث بینکوں اور کفالتی اداروں کے معاملات کو ایک طبقے کی طرف سے جب رِبا وقمار قرار دیا جارہا ہے، تو اس رائے کی رو سے ان بینکوں کا حصہ بننے والے ان لوگوں کا کیا بنے گا جو کل تک بینک کے سائے سے بھی بھاگتے تھے اور بڑے متقی تھے، کیا ان بینکوں کا حصہ بننے کے بعد ان کا اتقائ‘ سودی غبار سے غبار آلود کہلائے گا یا نہیں؟۔ (راقم)

ارشاد:

’’مگر ہمیں افسوس ہے کہ ان حضرات نے بہت تلاش وجستجو کے بعد ایک لمبی چوڑی شکل نکالی، مگر اس میں مضاربت کے طریقے کو چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں، اس لیے کہ کوئی بے وقوف سے بے وقوف انسان بھی ایسی حماقت نہیں کرسکتا کہ صرف فریب میں آجانے کے موہوم خطرے سے اپنے زیادہ نفع کو چھوڑدے اور کم پر راضی ہوجائے، ظاہر ہے کہ اگر بالفرض اس کا شریک دھوکادے کر اس حصے میں سے مال کم بھی کرلے تو اس کے لیے سود کی قلیل شرح لینا اور حصہ کم لینا دونوں برابر ہیں،پھر اسے خواہ مخواہ ہاتھ گھماکر ناک پکڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر اسے اپنے شریک کی دریافت کے بارے میں اس قدر بدگمانی ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ دھوکا دے کر تجارت میں نقصان ظاہر کرے گا، حالانکہ درحقیقت اس میں نفع ہوگا تو پھر ایسے شخص کے ساتھ معاملہ کرکے اس کی ہمت افزائی کرنے کا اسے کس ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے؟۔ ‘‘ (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۱۹، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

اکابر کے نظریئے کے مطابق روایتی بینکنگ کا حقیقی متبادل شرکت ومضاربت کے اصولوں پر تجارت ہے۔ مروجہ بینک شرکت ومضاربت سے بھاگ کر روایتی سود کو مرابحہ اور روایتی لیزنگ کو اجارہ کے نام سے اختیار کرتے ہوئے تُجار کی دھوکہ دہی اور مضاربت کے لیے امانت داری کے فقدان پر جو استدلال کرتے ہیں حضرت کی اس عبارت میں اس کا دفعیہ موجود ہے۔ مرابحہ اور اجارہ کے نام سے اسلامی بینکاری کرنے والے اس عبارت کو دو دفعہ ضرور پڑھیں۔ (راقم)

ارشاد:

’’اسلام کا انصاف پسند مزاج اسے اس عیاری اور خود غرضی کی ہرگز اجازت نہیں دے گا، اس تشریح سے حامیانِ سود کا ایک وہ استدلال بھی ختم ہوجاتا ہے، جس میں انہوں نے تجارتی سود کو مضاربت کے مشابہ قراردے کر جائز کہا ہے۔ ‘‘
      (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۱۹-۱۲۰، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

اس ارشاد کے مطابق اہل علم کی رائے میں جو لوگ اپنے رنگارنگ دلائل کی بنیاد پر روایتی سود کو نئے ناموں سے رواج دینے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہوں، ایک طرح روایتی سود کے طرف دار اور دفاعی وسپاہی ثابت ہورہے ہوں تو انہیں ’’حامیانِ سود‘‘ یا سودی اداروں کے ’’پشتیبان‘‘ کہنے میں بظاہر کوئی حرج نہیں۔ (راقم)

ارشاد:

’’کیا آج تک کسی عقل مند نے فریقین کی رضامندی کو ایک حرام چیز کے حلال ہونے کے لیے سبب قرار دیا ہے؟ کیا فریقین رضامند ہوں تو زنا کو جائز کہا جاسکتا ہے؟۔ ‘‘       (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۲۱، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’یہ نقل کرنے کے بعد صاحبِ عنایہ نے لکھا ہے: ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ: سود کی حرمت صرف اس وجہ سے ہے کہ اس میں صرف مدت سے مال کے تبادلے کا شبہ ہے، تو جہاں یہ بات شبہ کی حدود سے آگے بڑھ کر حقیقت بن گئی ہو‘ وہاں تو حرمت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟۔ ‘‘   (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۲۹-۱۳۰، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

علماء دین کی ایک بڑی تعداد اور ماہرینِ بینک کاری کی ایک جماعت مروجہ اسلامی بینکوں اور تکافلی اداروں کے معاملات کو بڑے شدومد سے سود اور قمار قرار دے رہی ہے، کیا ان کی رائے کے نتیجے میں ان اداروں کے معاملات کو مشتبہ قرار دینے کی گنجائش بھی نہیں؟! اگر ہے تو پھر ان سے اجتناب کا حکم دینا تو کم از کم شرعی مقتضا ہے، اس سے مجوزین کو بھی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ (راقم)

ارشاد:

’’ہمارے زیرِبحث مسئلے میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر اُدھار کی وجہ سے سامان کی قیمت میں زیادتی کو جائز تسلیم کیا جائے تو اس کی نوعیت وہی ہے کہ ضمنی طور پر مدت کی رعایت سے سامان کی قیمت بڑھ گئی اور براہِ راست صرف مدّت کا معاوضہ لیا جائے تو وہ رِبا میں داخل ہوکر ناجائز ہوگا، چنانچہ جہاں صاحبِ ہدایہ نے مدّت کی وجہ سے قیمت میں زیادتی کو جائز کہا ہے، وہاں پہلی صورت مراد ہے اور انہوںنے مذکورہ صورت کو اس لیے جائز قرار دیا ہے کہ وہاں مدت پر جو قیمت لی جارہی ہے وہ اصلاً اور براہِ راست نہیں،بلکہ ضمناً ہے۔ ‘‘  (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۳۱، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)
’’حامیانِ تجارتی سود کی اکثر دلیلوں میں دراصل یہی ذہنیت کارفرما نظر آتی ہے۔ ‘‘      (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۳۳، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

ان عبارتوں میں ان اہل علم کے لیے دعوتِ فکر ہے جو نقد اور اُدھار کی قیمتوں میں فرق کی بنیاد پر معاملات کے جواز اور عدم جواز کی بحث میں اپنے مخالفین کا قبرستان تک پیچھا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور معاصرین کا موقف ان کی زبانی سننے کے لیے نہ صرف تیار نہیں، بلکہ دوسروں کا الزام بھی معاصرین کو دیا جارہا ہے۔ نیز یہ بھی غور فرمائیں کہ آپ کی رائے میں جو معاملہ ’’سود‘‘قرار پائے اس معاملہ کے دفاع کاروں کو ’’حامیانِ سود‘‘ کہنا اور ان کی ذہنیت کو مورد الزام ٹھہرانا دینی حمیت ہی شمار ہوگا۔(راقم)

ارشاد:

’’نئی مغربی تہذیب نے یوں تو بہت سی مہلک چیزوں پر چند سطحی فوائد کا ملمع چڑھاکر پیش کیا ہے، مگر اس کا یہ کارنامہ سب سے زیادہ ’’قابل داد ‘‘ ہے کہ ’’سود‘‘ جیسی گھناؤنی اور قابل نفرت چیز کو جدید سسٹم کا دلکش اور نظر فریب لبادہ پہناکر پیش کیا اور اس طرح پیش کیا کہ اچھے خاصے سمجھ دار اور پڑھے لکھے لوگ بھی اس نظام کو نہایت معصوم اور بے ضرر سمجھنے لگے۔ مغربی تہذیب کے اس بدترین مظہر کی خوبیاں لوگوں کے دل ودماغ پر کچھ اس طرح چھاچکی ہیں کہ وہ اس کے خلاف کچھ سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس کو بے ضرر بلکہ نفع بخش، بلکہ قطعاً ناگزیرسمجھتے ہیں، حالانکہ اگر تقلیدِ مغرب کی منحوس عینک اُتارکر واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ایک سلیم الفکر انسان کا ذہن سو فیصد اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ عام قوم کے لیے معاشی ناہمواریاں پیدا کرنے میں جس قدر بڑی ذمہ داری بینکنگ کے موجودہ نظام پر ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں، حقیقت یہ ہے کہ قدیم نظام ساہوکاری کے نقصانات پھر اتنے زیادہ نہیں تھے، جتنے کہ اس جدید نظام سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم پہلے مختصراً بینکنگ کے طریقہ کار کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ بات کو سمجھنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے میں کسی قسم کا اشتباہ باقی نہ رہے۔ ہوتا یہ ہے کہ چند سرمایہ دار مل کر ایک ادارۂ ساہوکاری قائم کرلیتے ہیں، جس کا دوسرا نام ’’بینک‘‘ ہے۔ یہ لوگ مشترکہ طورپر ساہوکاری کا کاروبار کرتے ہیں۔ ‘‘(تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۴۰-۱۴۱، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’اس دام ہم رنگ زمین کو پھیلانے میں جس چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیا گیا ہے، وہ واقعۃً عجیب ہے۔ عوام تو سود کے لالچ میں اپنی رقمیں ایک ایک کرکے بینک کی تجوریوں میں بھرتے رہتے ہیں اور اس سے پورا نفع چند سرمایہ دار اُٹھاتے ہیں۔ ‘‘      (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص: ۱۴۲، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

ارشاد:

’’اس بینکنگ کی اصلیت معلوم کرنے کے بعد بھی کیا کسی سلیم الفکر انسان پر یہ بات مخفی رہ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سود کے لین دین کرنے والے کے لیے خدا اور رسول کے اعلانِ جنگ کی سخت وعید کیوں سنائی؟۔ ‘‘  (تجارتی سود عقل وشرع کی روشنی میں، ص:۱۴۳-۱۴۴، ادارۃ المعارف،از مفتی محمدتقی عثمانی، کراچی)

تبصرہ:

ان عبارات کی روشنی میں ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اسلام کی طرف منسوب بینک ‘ بینک ہیں یا تجارتی کمپنیاں ہیں؟ اگر تجارتی کمپنیاں ہیں تو پھر تجارتی کمپنیاں شرکت ومضاربت کے اصولوں پر خالص تجارت سے آخر فرار کیوں اختیار کرتی ہیں؟! اگر یہ فرار اپنی بینکیت (بینکاری تصور) کے تحفظ کے لیے ہے تو پھر یہ نفع بخش ادارے ’’بینک‘‘ ہی ہوئے اور اوپر بینک کی جو قباحت بتائی گئی ہے، یہ نام نہاد اسلامی بینک اس قباحت سے پاک نہیں کہلاسکتے۔ (راقم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرکیف اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ بینکوں کے سود کو تاویلات کے ذریعہ خارج از رِبا قراردینے میں صرف متجددین یا مستشرقین کے مستفیدین ہی نہیں، بلکہ کئی نامی گرامی عربی وعجمی علماء دین بھی شامل تھے۔ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ’’مسئلہ سود‘‘کی درج بالا تعبیرات کا مخاطب بطور خاص ہردو خطوں کے متجدد علماء کرام بھی تھے اور ہمارے اکابر کی یہ ناراضگی، لہجے کی تیزی، الفاظ کی حدَّت اور تعبیر کی شدَّت کسی کی توہین یا تنقیص یا بدتہذیبی ہرگز نہیں تھی،بلکہ رِبا کی سنگینی کی بناپر دینی اقتضائ، اسلامی حمیت اور ایمانی غیرت کا مظہر ہی تھی۔ اسی طرح قمار (جوا) کو جب مختلف حلقوں بالخصوص علماء دین میں سے بعض لوگوں نے رنگارنگ تاویلات کے ذریعہ رواج دینے میں حصہ لینا شروع کیا اور روایتی انشورنس کو جائز قرار دینے کی تگ ودو فرمائی اور انشورنس کی اسلام کاری کو اسلامی معیشت اور دین اسلام کا عصری تقاضا قراردے کر علمی فتنہ کھڑا کیا گیا تو حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اکابر نے ایسے اہل علم اور ان کی تحقیقات کے بارے میں جو کچھ جس انداز سے فرمایا، اس کے کچھ نمونے بھی ملاحظہ فرماتے جائیں:
’’ بعض تجدد پسند علماء عصر نے جو اس (انشورنس) کو امدادِ باہمی کا معاہدہ قرار دے کر مولیٰ الموالات کے احکام پر قیاس فرمایا اور عقدِ موالات کی طرح اس کو بھی جائز قرار دیا ہے، وہ بالکل قیاس مع الفارق ہے۔      (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۷۱، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
’’درحقیقت مروَّجہ بیمہ کو امدادِ باہمی کہنا اِک دھوکہ ہے اور بیمہ اور سٹہ سے سودی کاروبار پر آنے والی نحوست کو پوری قوم کے سرپر ڈالنے کا ایک خوبصورت حیلہ ہے۔ ‘‘                     (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۷۱، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
’’ان علماء کا کردار بھی قابلِ مذمت ہے جو یورپ کے ماہر اقتصادی نظام کی چند خوبیاں یا خوشنما پہلؤوں کو دیکھ کر جواز اور حلت کا فتویٰ دینے میں جری ہیں۔ ‘‘                    (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۹۱، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
’’ظاہر ہے کہ محض نام بدل دینے سے کسی معاملہ کی حقیقت نہیں بدلتی۔ ‘‘                     (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۶۷، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
’’خدا کے لیے اس چند روزہ کاروبار پر آخرت کو قربان نہ کریں۔ ‘‘                      (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص:۵۲۹، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
 ’’حرام معاملات پر حلال کا لیبل لگانے کے بجائے اس کی فکر کریں کہ امدادِ باہمی کی شرعی اور جائز صورت کو اختیار کریں۔ ‘‘       (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص:۵۲۹، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
’’اگر خدانخواستہ وہ خود حلال وحرام سے بے نیاز ہوکر چند روزہ مال ودولت کمانے کو اپنا مقصد بناہی چکے ہیں تو کم از کم اکابر علماء اور اہل فتویٰ پر اپنی رائے تھوپنے اور ان پر تہمت لگانے سے تو پرہیز کریں کہ یہ تحریفِ دین کا دوسرا گناہ ہے، جس کی اس کاروبار میں کوئی ضرورت بھی نہیں۔ ‘‘            (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص:۵۲۹، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
’’وہ اپنی اس ذمہ داری کو بھی محسوس کریں کہ ان بزرگوں کی طرف غلط فتووں کو منسوب کرنا اخلاقی کے علاوہ قانونی جرم بھی ہے۔ ‘‘    (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص:۵۲۹، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
’’اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو مال ودولت کی ایسی محبت سے بچائے جو اُن کی آخرت کو برباد کرے۔ ‘‘                 (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص:۵۲۹، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
الغرض جو اہل علم‘ امانت ودیانت کے ساتھ جب کسی معاملے کو رِبا اور قمار قرار دے رہے ہوں تو ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ممکنہ حد تک شدومد کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کریں اور امت کو رِبا، شبہۂ رِبا اور قمار سے بچنے کا درس دیں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی نرمی اور لچک کے بغیر ببانگ دہل اپنے موقف کا اظہار کریں۔ رِبا اور قمار کے احکام کے معاملے میں جسے متساہل پائیں، ان کے ساتھ تسامح کرنے کو اکابر کی پیروی میں مداہنت تصور کریں۔ بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ اگر سخت لب ولہجہ میں بات کی جائے تو روایت ودرایت کی رو سے بالکل بجا ہے، کیوںکہ رِبا وقمار کے معاملے میں متساہل لوگوں کے مقابلے میں احکام رِبا کی رعایت زیادہ اہم ہے۔ 
 مگر ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ رِبا اور قمار کے باب میں تاویلاتی اور تزویراتی عمل کے ردِ عمل پر بعض اہل تاویل ناراضگی اور برہمی کا اظہار فرماتے ہیں اور موجودہ زمانے کے بعض اہل تاویل علماء کرام اپنے طرزِ عمل کے مخالفانہ نقطۂ نظر کے اظہار وبیان کو بے وقعت باور کرانے کے لیے مخالفانہ نقطۂ نظر والوں کے اندازِ بیان، اسلوبِ تحریر اور طرزِ تخاطب پر شکایت کرنے لگ جاتے ہیں، اس شکایت کا علمی جواب تو سطورِ بالا میں موجود ہے۔ 
 مگر بعض مجوزین کے اس المیہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ رِبا وقمار سے متعلق اکابر کے اندازِ بیان اور اسلوبِ تحریر سے استغناء برتتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنی تاویلات وتزویرات کو صحابہ کرام علیہم الرضوان اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے علمی واجتہادی اختلافات کے درجے میں بھی باور کرانے لگ جاتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور ائمہ مجتہدین کے علمی واجتہادی اختلافات کے لیے اُمت کے ہاں جو اُصولی رعایتیں ہیں، ان پر مؤولین اپنا استحقاق جتلانے آجاتے ہیں، اس طرزِ عمل کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ فی زمانہ بینکوں کے سود اور انشورنس کی اسلام کاری کے حوالے سے جو اختلاف پایا جارہا ہے، (اسلامی بینک کاری اور تکافل کے عنوان سے) اس کی نوعیت علمی واجتہادی نہیں ہے، بلکہ تاویلاتی وتزویراتی ہے۔ 
اس لیے کہ جو علماء دین‘ اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ مہم درحقیقت سودی بینکوں کو نئے نام اور انداز سے مستحکم کرنے کی مہم ہے اور مروجہ تکافلی نظام روایتی انشورنس کا چربہ ہے۔ ان علماء کا موقف یہ ہے کہ جوازی مہم سے وابستہ علماء کرام چونکہ ائمہ مجتہدین کے درجہ میں نہیں ہیں، اس لیے ان کے نقطۂ نظر کو بھی ہر گز اجتہادی نقطۂ نظر نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب (مجوزین علماء اور مانعین ) اصولاً ’’ناقلین‘‘[اسلاف کے فتاویٰ سے نقل پر اکتفاء کرنے والے] ہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ناقلین کی نقل کو اجتہاد کا درجہ حاصل نہیں ہوا کرتا۔ اگر مجوزین بزعم خود ناقلین کی بجائے ’’مجتہدین‘‘ ہیں تو ان پر پہلی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ مذکورہ نظاموں سے متعلق مخالفانہ نقطۂ نظر والوں کی اس بنیادی غلط فہمی کے ازالے کے لیے اجتہادی کوشش فرمائیں اور اپنے اجتہادی مقام سے اُنہیں دلیل کے ساتھ آگاہ فرمائیں۔ نیز اختلاف اور اہلِ اختلاف کی اجتہادی نوعیت وحیثیت کا تعیُّن بھی فرمائیں۔ دریں صورت ذیلی جزئیات، تکییفات اور تطبیقات سے گفتگو کا مرحلہ دوسرا ہوگا۔ 
اگر مجوزین حضرات مانعین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ مروجہ اسلامی بینکوں اور تکافلی اسکیموں سے متعلق پایا جانے والا اختلاف واقعی علمی اور اجتہادی ہے، تزویراتی اور تاویلاتی نہیں ہے، تو پھر یہ تعین فرمانا بھی ضروری ہوگا کہ اجتہادی اختلاف میں فریقین کے اہل اجتہاد کا طبقہ اور درجہ کونسا ہوگا؟ اگر طبقاتِ فقہاء کی خماسی تقسیم کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ اہلِ اجتہاد پانچوں میں سے کس قسم کے تحت داخل ہوںگے؟! اور اگر سباعی تقسیم کو لیا جائے تو کون کس طبقے کے ساتھ ملحق ہوگا؟! یہ تعین بھی ضروری ہوگا۔ 
اگر فریقین کے علماء کرام،اہل اجتہاد فقہاء کے لیے بیان کردہ اجتہادی درجات کی فہرستوں میں اضافہ کا ذریعہ نہ بن سکیں تو پھر مروجہ اسلامی بینکوں اور تکافل کمپنیوں کی بابت موجودہ اختلاف کو اہلِ اجتہاد‘ علماء کی طرف لے جانے کی بجائے قریب زمانے کے اس اختلاف کی طرح شمار کیا جانا مناسب ہے، جو ہمارے اکابر (حضرت مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ ودیگر) اور روایتی سود اور انشورنس کے مجوزین علماء کے درمیان پایا گیا تھا، اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے اکابر اور سود کے مجوزین علماء کا اختلاف درحقیقت نصوص پر انحصاروعدم انحصار اور سابقہ نقول پر اعتماد اور عدم اعتماد کا اختلاف تھا، جسے جدت وقدامت کا اختلاف بھی کہاجاسکتا ہے، اور روایت وجدت کی کش مکش کا نام بھی دیا جاسکتا ہے، پس اگر موجودہ بینکوں اور تکافلی اداروں کے بارے میں اختلاف کی نوعیت یہی قرارپاتی ہے تو پھر اکابر کے دور میں مخالفین کا جو باہمی رویہ تھا، اس کی گنجائش اب بھی باقی رہنی چاہیے۔ مانعین کا فرض بنتا ہے کہ اکابر کی طرح کھلے داموں اور واضح لفظوں میں اپنے موقف کا اظہار کرتے رہیں، انہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی خوشی وناراضگی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ 

 أللّٰہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین