بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مرحبا سیدی ومکی ومدنی  صلی اللہ علیہ وسلم 

مرحبا سیدی ومکی ومدنی  صلی اللہ علیہ وسلم 


حضرت محمد ا دنیا میں اپنی آمد کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
 ’’أنا دعوۃ إبراہیم وبشارۃ عیسیٰ ورؤیا أمّی آمنۃ التی رأت‘‘ ۔
                                                    (المستدرک للحاکم، ج:۲،ص:۴۵۳)
ترجمہ:…’’ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا مصداق ہوں اور اپنی ماں آمنہ کے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر ہوں‘‘۔
 دعائے ابراہیمی جس میں حضور علیہ السلام کو مانگا گیا ہے، وہ دعا سورۂ بقرہ کا حصہ ہے اور جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو آپ ا کی آمد ورسالت کی خوشخبری سنائی، وہ بشارت سورۂ صف کی چھٹی آیت کا حصہ ہے اور حضرت آمنہ کے خواب کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔آپ ا کی آمد وبعثت تمام جہاں کے لئے رحمت وبرکت ہے۔ آپ ا کی تعلیم میں حقوق اللہ وحقوق العباد، اخوت وبھائی چارگی کا پہلو نمایاں ہے۔
جس طرح گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام نے آپ ا کی آمد وبعثت کا تذکرہ اپنے اپنے زمانے میں کیا تو دنیا میں آنے کے بعد ہی سے آپ ا کے نبی ورسول ہونے کا تذکرہ اہل علم کی زبانوں پر ہونے لگا، چنانچہ بارہ سال کی ہی کم عمری میں اس زمانے کے مذہبی پیشوانے آپ ا کو دیکھتے ہی آپ ا کی رسالت کی پیشین گوئی کردی تھی۔پیشین گوئی کے اس واقعہ کو حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ سیرۃالمصطفی ج:۱،ص:۸۴میں جامع ترمذی کی روایت سے نقل کرتے ہیں کہ: 
’’جامع ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے کہ ایک بار ابو طالب مشائخ قریش کے ساتھ شام کی طرف گئے۔ شام میں جس جگہ جاکر اترے، وہاں ایک راہب رہتا تھا، اس سے پہلے بھی بارہا اس راہب پر گزر ہوتا تھا، مگر وہ کبھی ملتفت نہ ہوتا تھا۔ اس مرتبہ قریش کا کاروانِ تجارت جب وہاں جاکر اترا تو راہب خلافِ معمول اپنے صومعہ سے نکل کر ان میں آیا اورمتجسّسانہ نظروں سے ایک ایک کو دیکھنے لگا، یہاں تک کہ حضور ا کا ہاتھ پکڑ لیا اور یہ کہا:
’’ہذا سید المرسلین، ہذا رسول رب العالمین، یبعثہ اﷲ رحمۃً للعالمین‘‘۔
ترجمہ:…’’یہی ہے سردار دوجہانوں کا، یہی ہے رسول پروردگار عالم کا،جس کو اللہ تعالیٰ جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجے گا‘‘۔
آپ ا نے جب شام کا دوسرا سفر کیا تو عمر مبارک پچیس سال تھی۔اس سفر میں پیش آنے والے ایک واقعہ کو حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ جب بصریٰ پہنچے تو ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھے، وہاں ایک نسطورا نامی راہب رہتا تھا، وہ آپ ا کو دیکھ کر آپا کی طرف آیا اور کہا:’’حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بعد سے ابھی تک یہاں آپ کے سوا کوئی اور نبی نہیں اترا۔ پھر آپ اکے ہمسفر میسرہ سے کہا: ان کی آنکھوں میں یہ سرخی ہے؟ میسرہ نے جواب میں کہا: یہ سرخی آپ ا سے جدا نہیں ہوتی، یہ سن کر راہب بولا:’’ہو ہو وہو نبی وہو آخر الانبیاء‘‘۔ترجمہ:’’یہ وہی ہیںاور یہ نبی ہیں اور آخری نبی ہیں‘‘۔                       (سیرۃ المصطفی،ج:۱،ص:۹۵)
جب آپ ا کی عمر مبارک چالیس سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اوررحمت سے آپ ا کو نبوت ورسالت کی خلعت عطا فرمائی۔ بعثت ورسالت کے بعد آپ ا نے اسلام کی دعوت کو مزید دوسروں تک پہنچانا شروع کیا۔ سب سے پہلے اپنے گھر والوںاور اپنے عزیز واقارب کو اسلام کی دعوت دی۔ رفتہ رفتہ تبلیغ اسلام کا دائرہ بڑھتا چلا گیا اور دوسری طرف دشمنانِ اسلام کا اتحاد مضبوط ہوتاگیا اور وہ اسلام قبول کرنے والوں کو ظلم وستم کا نشانہ بناتے جاتے، دشمنانِ اسلام نے لوگوں پر قبولیتِ اسلام کا دروازہ بند کیا ہواتھا، جسے بالآخر حدیبیہ کی صلح نے کھولا۔ بعثت سے صلح حدیبیہ تک اہل اسلام پابندیوں کا شکار رہے۔ حضور ا نے حدیبیہ سے واپس آکر اشاعتِ اسلام کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پڑوسی ممالک تک پہنچادیا اور اُن ملکوں کے بادشاہوں کے نام قبولیت اسلام کے خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، چنانچہ آپ ا نے پہلا خط قیصر روم کی طرف دحیہ کلبیؓ کو دے کر روانہ فرمایا۔ جواب میں کئی دنوں کے صلاح مشوروں اور سوچ بچار کے بعد قیصر روم نے ایک عظیم الشان دربار منعقد کیا، جس میں روم کے بڑے بڑے عالم بھی تھے، قیصر روم نے درباریوں کو مخاطب کرکے کہا:
’’یا معشر الروم! إنی قد جمعتکم لخیر إنہ قد أتانی کتاب ہذا الرجل یدعونی إلی دینہ وإنہ واﷲ للنبی الذی کنا ننتظرہ ونجدہ فی کتبنا فہلموا فلنتبع ولنصدقہ نتسلم لنا دنیانا وآخرتنا‘‘۔                   (بحوالہ سیرۃ المصطفی)
آپ ا نے بادشاہ حبشہ نجاشی کو بھی خط لکھا اور نجاشی نے خط کا جواب دیا اور حضور ا کی رسالت کی گواہی یوں دی:
’’فأشہد أنک رسول اﷲ صادقا مصدقا… فإنی أشہد أن ماتقول حق والسلام علیک یا رسول اﷲ!‘‘۔              (بحوالہ سیرۃ المصطفی،ج:۲، ص:۱۷-۱۸)
ترجمہ:…’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں … اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو آپ فرمارہے ہیں وہ حق ہے، یا رسول اللہ! آپ پراللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہو‘‘۔
آپ ا نے شاہِ مصر مقوقس کے نام نامۂ مبارک حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے ہاتھ بھیجا۔ شاہِ مصر نے جواب میں تحفے تحائف دیئے، آپ ا کے والا نامہ کی تو توقیر وتعظیم کی اور اقرار کیا کہ بے شک آپ ا وہی نبی ہیں جن کی انبیاء سابقین نے بشارت دی ہے۔ اگرچہ شاہِ مصر آپ ا پر ایمان نہیں لایا، مگر آپ ا کو نبی مرسل جان لیا تھا۔ شاہ مصر اس سے پہلے بھی آپ ا کے بارے میں صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے معلوم کرچکا تھا اور مغیرہؓ مشرف باسلام ہونے سے پہلے بنی مالک کے چند آدمیوں کے ساتھ مقوقس کے پاس گئے تھے۔ جب حضرت مغیرہؓ نے مقوقس سے آپ ا کے حالات سنے تو خود بھی قبولِ اسلام کی جستجو میں اسکندریہ کے بے شمار پادریوں سے آپ ا کی صفت وشان دریافت کی، حتی کہ پادریوں کے اسقف اعظم (بڑے پادری) سے ملے جو بڑا عابد وزاہد تھا۔ اس سے دریافت کیا، کہاکہ ابھی کسی نبی کا مبعوث ہونا باقی ہے؟ تو اسقف اعظم نے جواب میں کہا:
’’نعم ہو آخر الأنبیاء لیس بینہ وبین عیسیٰ بن مریم أحد، وہو نبی مرسل، وقد أمرنا عیسیٰ باتباعہ، وہو النبی الأمی العربی، اسمہ أحمد لیس بالطویل ولابالأبیض ولا بالآدم یعفو شعرہ ویلبس ما غلظ من الثیاب ویجتزئ بما لقی من الطعام، سیفہ علی عاتقہ ولایبالی بمن لاقی، یباشر القتال بنفسہ ومعہ أصحابہ یفدونہ بأنفسہم وہم لہ أشد حباً من أولادہم، یخرج من أرض حرم ویأتی إلی حرم یہاجر إلی أرض بساخ ونخل یدین بدین إبراہیم علیہ السلام‘‘۔               (بحوالہ سیرۃ المصطفی،مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ج:۲،ص:۲۶)
ترجمہ:…’’ہاں! وہ آخری نبی ہے، ان کے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں، وہ نبی مرسل ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہم کو ان کی اتباع کا حکم دیا ہے، وہ نبی امی عربی ہیں، نام ان کا احمد ہے، نہ دراز قد ہیں، نہ پست قامت، آنکھوں میں ان کی نرمی ہے، نہ بالکل سفید ہیں، نہ بالکل گندمی، بال ان کے زیادہ ہوںگے، موٹے کپڑے پہنیںگے،جتنا کھانا میسر آئے گا اسی پر اکتفا وقناعت کریںگے، تلوار ان کے کندھے پر ہوگی، کسی مقابلہ کی پرواہ نہیں کریںگے، خود جہاد وقتال کریںگے، ان کے اصحابؓ ان کے ساتھ ہوںگے جو دل وجان سے ان پر فدا ہوںگے، اپنی اولاد سے زیادہ ان سے محبت رکھتے ہوں گے، وہ نبی حرم (مکہ) میں ظاہر ہوگا اور حرم (مدینہ) کی طرف ہجرت کرے گا ،وہ زمین مستور اور نخلستانی ہوگی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کا پیروکار ہوگا‘‘۔
قارئین کرام! حضور ا کی آمد وبعثت پر انسان کے ساتھ جنات بھی شاہد ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر شجر وحجر نے بھی آپ اکو نبی برحق مانا اور جو اہل کتاب ایمان کی دولت سے محروم رہے تو محرومی کی یہ وجہ بنی کہ حضور ا کووہ نبی مرسل نہیں سمجھتے تھے، نہیں! نہیں! وہ آپ ا کو نبی برحق سمجھتے تھے، جانتے تھے، مگر مانتے نہیں تھے اور نہ ماننے کی وجہ قرآن پاک نے واضح الفاظ میں بتائی ہے :
’’بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖ أَنْفُسَہُمْ أَنْ یَکْفُرُوْا بِمَا أَنْزَلَ اﷲُ بَغْیاً أَنْ یُنَزِّلَ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ، فَبَآئُ وْا بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ وَّلِلْکَافَرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ‘‘۔                                                  (البقرۃ:۹۰)
ترجمہ:…’’بہت بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا، وہ ان کا کفر ہے، اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ چیز کے ساتھ محض اس بات سے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اپنے جس بندہ پر چاہا نازل فرمایا، اسی کے باعث یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے اور ان کافروں کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے‘‘۔
اہل کتاب کے لئے فکر کی بات ہے کہ صرف اور صرف ضد بازی اور حسد کی وجہ سے خالق کائنات ربِ موسیٰ وربِ عیسیٰ کے غضب کے مستحق ٹھہرے اور جس کا نتیجہ وانجام دوزخ کی آگ ہے۔
إذا نحن أدلجنا وأنت أمامنا
کفیٰ بالمطایا طیب ذکراک حادیا 
وإن نحن أضللنا الطریق ولم نجد 
دلیلاً کفانا نور وجہک ہادیا
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین