بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

لائحۂ عمل برائے: فضلاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ


لائحۂ عمل

برائے: فضلاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا اپنے آغاز سے ہی یہ اختصاص رہا ہے کہ وہ ہر دور میں اُمتِ مسلمہ کے ایمان و عقیدہ اورعمل کی حفاظت کی غرض سے فتنوں، بدعملی اور لادینی کے سیلاب کی روک تھام کے لیے اپنی متنوع کوششیں کرتا رہا ہے۔ اسی غرض سے جامعہ کے فضلاء اور علماء کی راہنمائی کے لیے جامعہ کے اکابرین نے ۱۹ ربیع الاول۱۴۰۰ھ کو ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں کثیر تعداد میں علماء وفضلاء شریک ہوئے۔ اس اجلاس کی صدارت جامعہ کے بزرگ استاذ حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی نور اللہ مرقدہٗ نے فرمائی، مہتممِ جامعہ حضرت مفتی احمد الرحمنv کے فکر انگیز بیان اور نصائح کے بعد حضرت مولانا محمد بدیع الزمانv (ناظمِ دعوت وتبلیغ) نے فضلاء کے لیے عوام میں دینی خدمت بجالانے کے لیے کچھ راہ نما اُصول اور دستور العمل مرتب کرکے پڑھ کر سنایا، چونکہ آج بھی اس کی ضرورت وافادیت ویسی ہی ہے جیسے اس وقت تھی، اس غرض سے اس دستورُ العمل کو شائع کیا جارہا ہے۔          (ادارہ)

حضرات علماء کرام اپنے اپنے حلقے میں دین کے پیشوا اور قوم کے مقتداہیں۔ ان کے اس رفیع منصب کے لحاظ سے ان پر بڑی گراںقدر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اس لیے ہم سب کا فرض ہے کہ ان عظیم الشان ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس کریں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی تدابیر کریں۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جو امانت ہمارے سپرد کی گئی ہے، اس کے لیے ہم فکرمندہوں اور اُمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے راستے پر لانے کی ہرممکن کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱:…جو حضرات‘ امامت وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، انہیں اس بات کی حرص ہونی چاہیے کہ ان کے وجود سے علاقے کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دینی نفع پہنچے اور لوگوں کا تعلق مساجد کے ساتھ قائم ہو، اس کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جائیں:
الف:- قرآن کریم، حدیثِ نبوی اور مسائلِ فقہیہ کا درس باقاعدگی اور التزام سے دیاجائے اور اُن کے لیے مناسب وقت تجویز کیا جائے۔
ب:- جن مساجد میں قرآن کریم کے مکاتب نہیں، وہاں قائم کیے جائیں اور جہاں مکاتب قائم ہیں اُن کی نگرانی کی جائے، اُن کو فعال بنایاجائے اور ترغیب دے کر بچوں کو وہاں لایاجائے، تاکہ محلے کا ایک بھی بچہ ایسا نہ رہے جو کم از کم ناظرہ قرآن کریم پڑھنے سے محروم ہو، اسی طرح لوگوں کو قرآن کریم حفظ کرانے کی ترغیب دلائی جائے۔
ج:- نوجوان طبقہ کو دین سے مانوس کرنے کی سعی کی جائے اور اُن کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے بھی وقت دیا جائے۔
د:- جمعہ کے خطبات کیف ما اتفق نہ ہوں، بلکہ اُن کے لیے اہم دینی موضوعات کو ایک خاص ترتیب سے منتخب کیا جائے اور جس موضوع پر خطاب کرنا ہو، اس کے لیے پوری تیاری کی جائے، نیز مؤثر انداز میں موضوع کا حق ادا کیا جائے۔ خطابت میں ترغیبی پہلو کو غالب رکھا جائے اور بات ایسے جچے تلے انداز میں کی جائے، جس سے نہ صرف بات ذہن نشین ہو جائے، بلکہ سامعین کی فکری وعملی اصلاح بھی ہو۔
ہ:- جن مساجد میں تبلیغی جماعت کے حلقے قائم ہیں، ان سے ربط وتعلق رکھا جائے، ان کی بھرپور اِعانت وسرپرستی کی جائے اور نوجوانوں کو ترغیب دے کر تبلیغی جماعت سے وابستہ کرنے کی ہرممکن سعی کی جائے۔
و:- جیساکہ سب کو معلوم ہے کہ فرقِ باطلہ اور قدیم وجدید ملحدانہ نظریات میںروز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ہم اس کو شدت کے ساتھ محسوس بھی کرتے ہیں، لیکن یا تو اس کی اصلاح کی کوئی تدبیر نہیں کرتے یا ان کا رد ایسے انداز میں کرتے ہیں کہ بجائے لوگوں کے ذہن کو صاف کرنے کے انہیں متنفر کردیتے ہیں، اس لیے بڑی ضرورت ہے کہ تمام فرقِ باطلہ مثلاً: قادیانیت، رفض، انکارِ حدیث، انکارِ عظمتِ صحابہؓ، کیپٹل ازم، کمیونزم اور لادینیت وغیرہ پر گہری نظر رکھی جائے، ان پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور مثبت انداز میں قوم کے ذہن کی تعمیر کی جائے۔ تقریر میں کسی خاص فرقے یا نظریے کا نام لیے بغیر وقتاً فوقتاً باطل نظریات کی اصلاح کی جاتی رہے، مثلاً انکارِ حدیث کے فتنہ کی اصلاح مقصود ہو تو آنحضرت a کے ارشاداتِ طیبات کی عظمت اس طرح اُجاگر کی جائے کہ منکرینِ حدیث کا سحر ٹوٹ جائے۔ رفض وتشیُّع کی تردید منظور ہو تو صحابہ کرامs کے فضائل ومناقب والہانہ انداز میں بیان کیے جائیں۔ قادیانیت کی تردید مقصود ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختمِ نبوت کے تقاضے ذہن نشین کرائے جائیں۔ اور استخفافِ ائمۂ دین کی اصلاح مقصود ہو تو حضرات ائمۂ اجتہاد کی ہستیوں اور اُن کے احسانات کا مؤثر انداز میں تذکرہ کیا جائے، وعلی ہذا! اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انفرادی ونجی محفلوں میں بھی فرقِ باطلہ کا رد کیاجاتا رہے، خصوصاً اگر کوئی شخص غلط نظریے سے متاثر ہوتا نظر آتا ہے تو بہت حکمت ودانائی اور نرمی وشفقت سے اس کو صحیح بات کی تلقین کی جائے اور اس کی غلط فہمی کی اصلاح کی جائے۔
ز:- خطبات کے دوران، نیز نجی محفلوں میں صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین خصوصاً اپنے اکابرِ دیوبند کے حالات و واقعات اور ملفوظات و ارشادات بیان کرنے کا اہتمام کیا جائے، حکایات و واقعات سے اکابر سے عقیدت پیدا ہوگی اور یہی تمام بدعات اور سارے فتنوں کا تریاق ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲:…جو حضرات تجارت یا کاروبار کی لائن سے وابستہ ہیں تو وہ اس کو صرف اپنا ذریعۂ معاش نہ سمجھیں، بلکہ اُسے ذریعۂ تبلیغ اور مرکزِ دعوت تصور کریں اور اس کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر ہوسکتی ہیں:
الف:- بیع وشراء اور کاروبار سے متعلقہ احکامِ شرعیہ کو خوب محفوظ کیا جائے اور اُن پر عمل کیا جائے۔
ب:- جو گاہک دکان پر آئے یا جس شخص سے معاملہ کرنا پڑے، باتوں باتوں میں اس کو احکامِ شرعیہ کی یاددہانی کی جاتی رہے۔
ج:- اس امر کی کوشش کی جائے کہ آس پڑوس کے دکان داروں کے ساتھ کچھ دینی باتیں ہوجایا کریں اور اس کے لیے کچھ لمحات تجویز کرلیے جائیں۔
د:- بازار میں حق تعالیٰ سے غفلت چونکہ عام ہوتی ہے، اس لیے وہاں ذکر اللہ کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے، لہٰذا کوشش ہونی چاہیے کہ کوئی ہلکا پھلکا ذکر، تسبیح، درود شریف وغیرہ زبان پر جاری رہے اور اس کی عادت بنائی جائے۔
ہ:- کاروبار میں عام طور سے نمازوں سے غفلت ہوجاتی ہے، ا س لیے اس کا ضروری اہتمام کیا جائے کہ اذان ہوتے ہی قریب کی مسجد میں نماز باجماعت ادا ہو۔
و:- حضرات صحابہ کرامؓ، بزرگانِ دین، اور اپنے اکابر کے واقعات وحالات کا مطالعہ اور مذاکرہ رکھا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳:…جو حضرات جدید تعلیم گاہوں میں تعلیم وتدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کو حق تعالیٰ نے دینی دعوت کا ایک اہم اور وسیع میدان عطا فرمایا ہے۔ وہ اپنے عالمانہ وقار اور مؤمنانہ کردار کے ذریعے دین کی بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں:
الف:- آج کل تعلیمی اداروں کا ماحول غیردینی ہے۔ ہمارے علمائے کرام اکثر غیردینی ماحول سے متاثر ہوکر احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ ماحول ان کے علمی ودینی افادات سے محروم ہوجاتا ہے۔ ان حضرات کو ماحول سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ تصور کرنا چاہیے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے انہیں دین کی دولت اور سنتِ نبوی کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر اس بگڑے ہوئے ماحول کے لیے مسیحا بناکر یہاں بھیجا ہے اور جو دولت اُن کے سینے میں حق تعالیٰ نے ودیعت رکھی ہے، وہی اس ماحول کے لیے تریاق ہے، اس لیے اُنہیں خود اس ماحول کے مطابق نہیں ڈھلنا ہے، بلکہ اس ماحول کو سنتِ نبوی l کے مطابق ڈھالنا ہے۔ 
ب:- وہ اپنے رفقاء کار واساتذہ کو دین کی ترغیب دیں ، اپنی تعلیم گاہ میں دینی شعائر کی سربلندی کے لیے تدابیر سوچیں اور اس کے لیے مناسب انداز میں مشورے دیں۔
ج:- جو طلبہ ان کے ہاں زیرتعلیم ہوں، ان میں دینی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کریں، انہیں قرآن وحدیث کی ہدایات سے آگاہ کریں، بزرگانِ دین کے واقعات سنائیں۔ انہیں نیکی کی ترغیب دلائیں، اخلاقِ حسنہ کی تلقین کریں اور دینی فرائض کی پابندی کا شوق دلائیں۔
د:- نوجوان طلبہ کو تبلیغی جماعت میں وقت دینے کی ترغیب دیں اور اُنہیں جماعت سے وابستہ کرنے کی کوشش کریں۔
الغرض حضرات علماء کرام جس شعبہ میں بھی کام کررہے ہوں، اپنے آپ کو دین کا مبلغ تصور کریں اور مخلوق کو زیادہ سے زیادہ دینی نفع پہنچانے کی فکرواہتمام کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴:… دوسروں کی فکر کے ساتھ ساتھ خود اپنی تکمیل کی فکر اور اپنے علم اور جذبۂ علم کو تازہ رکھنا بھی نہایت ضروری ہے اور اس کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر کی جائیں:
الف:- علمی ترقی کے لیے قرآن کریم، حدیث نبوی اور فقہ وفتاویٰ کا مطالعہ جاری رہنا چاہیے:
1: تفسیر میں بیان القرآن، فوائدِ عثمانی اور معارف القرآن۔
2: حدیث میں مشکوٰۃ شریف، ریاض الصالحین، جمع الفوائد، ترجمانُ السُّنَّۃ، معارف الحدیث اور حیاتُ الصحابہؓ۔
3: فقہ میں بہشتی زیور، عمدۃ الفقہ، امدادُ الفتاویٰ اور فتاویٰ دارالعلوم دیوبند۔
4: بزرگوں کے حالات وسوانح میں نقشِ حیات، اشرف السوانح، علماء ہند کا شاندار ماضی، ارواحِ ثلاثہ، تذکرۃ الرشید، تاریخِ دعوت وعزیمت، اور اس نوعیت کی دیگر کتابیں۔
ب:- عملی ترقی کے لیے حضرت تھانوی قدس سرہٗ کے مواعظ وملفوظات کا مطالعہ کیا جائے۔
ج:- حضرات علماء کرام کا شمار چونکہ خواصِ اُمت میں ہوتا ہے اور ان کی ترقی وتنزُّل سے پوری اُمت متاثر ہوتی ہے، اس لیے اپنی اصلاح وتربیت کے لیے ہر عالم کا کسی متبعِ سنت شیخِ کامل سے وابستہ ہونا ناگزیر ہے، اور حضرات علماء کرام کو اس کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین