بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قدیم قرآنی مصاحف اورملتِ اسلامیہ کی قرآنی خدمات کا تعارف

قدیم قرآنی مصاحف اورملتِ اسلامیہ کی قرآنی خدمات کا تعارف

زیر نظر تحریر مشہور زمانہ شخصیت علامہ محمد زاہد کوثری ؒ کے مضمون ’’مصاحف الأمصار وعظیم عنایۃ ھذہ الأمۃ بالقرآن الکریم فی جمیع الأدوار‘‘کا ترجمہ ہے۔

علامہ ؒ کی علمی وتحقیقی شخصیت کی قدر دانی وہی حضرات کر سکے جوخود علم و تحقیق کے دبستان سے وابستگی رکھتے تھے، اور جنہوں نے علامہ ؒ کی تحریرات میں اس جوہر گرانمایہ کا ادراک کر لیا تھا۔ علامہؒ کی مستقل تصنیفات اور متفرق تحریرات علامہؒ کے ذوق تحقیق کی عکاس ہیں۔ ہر علمی شخصیت کے موافقین اور مخالفین ہر زمانے میں موجود رہے ہیں، چنانچہ اس روایت سے علامہ ؒ  کو بھی سابقہ پڑا اور علمی میدان میں آپ ؒ کے بھی مخالفین اور موافقین دونوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ گو کہ علامہ ؒ  کا طرزِ تحریر کچھ شدت آمیز ہے، لیکن یہ علمی پختگی کی وہی قابل تعریف قسم ہے جس کو علمی تصلب کہا جاتا ہے۔اردو دان اہل علم عربی زبان سے ناآشنائی کے باعث دیگر عرب عبقری شخصیات کی طرح علامہ ؒ  کی تحریرات سے بھی کما حقہٗ استفادہ نہیں کرسکے، لہٰذا علامہ ؒ  کی شخصیت کا تحقیقی پہلو اُن کی نظر سے اوجھل رہا ہے۔ علامہ ؒ کے شائع شدہ مضامین کے مجموعے بنام ’’مقالات الکوثری‘‘سے ایک مضمون کا ترجمہ جملہ اہل علم کے لئے عموماً اور اردو دان طبقے کے لئے خصوصاً پیش خدمت ہے۔اگرچہ کسی بھی زبان کا ترجمہ، خواہ کسی زبان میں کیا جائے، اس کے اصل قالب کی مکمل ترجمانی بہرحال نہیں کرسکتا، تاہم فی الجملہ اس کے مقاصد کے سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔(از مترجم) تاریخ انسانی میں گزری امتوں میں سے کسی امت نے بھی اپنی آسمانی کتاب کی اس قدر حفاظت نہیں کی، جس قدر اس امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام )نے قرآن کریم کی حفاظت ، قرآن کریم کی تدریس اور ہر اس علم و فن کی تدوین کا اہتمام کیا، جس کا قرآن کریم سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق تھا۔ یہ اہتمام اسلام کی صبح نو سے تاحال جاری ہے اور جب تک خداوند تعالیٰ نے چاہا، یہ اہتمام اسی طرح جاری رہے گا۔ اس طرح باری تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وہ وعدہ سچ کر دکھایاجو اس فرمان گرامی میں باری تعالیٰ نے فرمایا تھا: ـ’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ ‘‘ (۱) کیا کبھی تاریخ میں ایسی مثال گزری ہے کہ کہ کسی امت نے مدتوں گزر جانے کے باوجود کسی سماوی کتاب کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا ہوکہ اس کو چھوٹوں اوربڑوں، جوانوں اور بوڑھوں سب نے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا ہو ؟اور پھر ان میں کسی خاص جگہ کی تحدید نہ ہو بلکہ شہروں، بستیوں اور دیہاتوں سب جگہ یہ ایک عام معمول بن گیا ہو؟یہاں تک کہ اگربڑے بڑے شہروں سے دور کسی دیہات میں بھی کوئی قاری ایک کلمے میں بھول چوک سے غلط پڑھ لے تو وہاں بھی ایسا شخص دستیاب ہو جو اس کی غلطی پر اس کو تنبیہ کر کے درست کلمے کی طرف اس کی رہنمائی کر سکے، سوائے قرآن کریم کے اس طرح کسی اور کتاب کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔ جس روز سے قرآن کریم نازل ہوا، اسی وقت سے اس اُمت نے اس کی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے، اور تمام اسلامی ممالک میں مدتوں سے اس کے حفظ کا دستورعام چلا آرہا ہے۔ اس بات میں صرف وہی شخص شک کر سکتا ہے جو چاشت کے وقت سورج کے موجود ہونے میں شک کرے یا واضح حقائق میں اپنی کسی نفسانی غرض کی وجہ سے اس بات کو مشکوک ظاہر کرنے کی کوشش کرے۔ آپ ا قرآن کریم کے ایک ایک حصے کے نزول کے بعد اس کی حفاظت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔آپ ا صحابہ کرام ؓ کو قرآن کریم سیکھنے ، سکھانے ، یاد کرنے اور سینوں میں محفوظ کرنے کی خصوصی ترغیب فرمایا کرتے تھے، اور اس ترغیب میں ان کو یوں ارشاد فرماتے :  ’’ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ‘‘۔ ترجمہ:’’ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن کریم سیکھے اور لوگوں کو سکھائے‘‘۔ اس سلسلے میں کئی ایک صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔ قرآن کریم کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے نے صحابہ کرام ؓ کے قرآن کریم کے حفظ کرنے اور اس کے احکام کی معرفت حاصل کرنے کو بھی بہت آسان کر دیا تھا۔ باری تعالیٰ کے اس فرمان گرامی میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے:’’وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہٗ عَلٰی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلاً ‘‘۔(۲ ) مجلس نبوی میں اس وقت کتابت کر سکنے والوں کی تعداد چالیس سے متجاوز تھی،ان میں سے کاتبین وحی قرآن کریم کے نزول کے فوراً بعد ہی صحابہ کرام ؓ کی موجودگی ہی میںاس ذکر حکیم کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر لیا کرتے تھے۔ خود صحابہ کرام ؓ اس سلسلے میں وحی لکھنے اور لکھوانے میں حسب استطاعت و قدرت جلدی فرمایا کرتے تھے، اور صحابہ کرام ؓ آپ ا کے سامنے صبح شام اس کی تلاوت کیا کرتے تھے ، تاکہ جس طرح آیت نازل ہوئی ہے ،اسی طرح سینے میں محفوظ ہو جائے(اور اس میں کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے)۔اسی اہتمام اور عنایت کا نتیجہ تھا کہ کفار مسلمانوں پر طرح طرح کی باتیں بنایا کرتے تھے، جیساکہ باری تعالیٰ نے ان کی یہ باتیں قرآن کریم میں ذکر فرمائی ہیں۔ ارشاد گرامی ہے:’’وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا إِنْ ھٰذَا إِلاَّ إِفْکُ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ آخَرُوْنَ فَقَدْ جَائُ وْا ظُلْمًا وَّزُوْرًا وَقَالُوْا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَھَا فَھِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلًا ‘‘ ۔(۳) صحابہ کرام ؓ میں سے جن فقرأ صحابہ کرام ؓ کے گھر بار نہ تھے، مسجد نبوی کا صفہ ان کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا، اور وہ آپ  ا کی نگرانی میں قرآن کریم پڑھتے پڑھایا کرتے تھے ۔یہ سب کچھ آپ اکے انہیں قرآن کریم یاد کرنے اور سیکھنے سکھانے کی ترغیب فرمانے کا نتیجہ تھا،یہاں تک کہ مسجد نبوی میں ان کی تلاوت سے ایک بھنبھناہٹ کی آواز گونجا کرتی تھی۔انہی کے بارے میں باری تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: ــ’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ ‘‘ ۔(۴) صفہ نامی چبوترا صرف ناداروں کے ٹھہرنے کی ہی جگہ نہ تھی، بلکہ قرآن کریم حفظ کرنے اور اس کے احکام کی درس و تدریس کا باقاعدہ مدرسہ بھی تھا۔انہی اہل صفہ میں سے آپ ا نے کئی ایک کو مختلف قبائل کی طرف انہیں قرآن پڑھانے اور دینی تعلیمات سکھلانے کے لئے روانہ بھی فرمایا تھا۔مدینہ منورہ (زادھا اللّٰہ شرفًا)میں جب ہجرت سے قبل آپ ا نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ  کو اہل مدینہ کو قرآن کریم سکھلانے کی غرض سے روانہ فرمایا تھا، اسی وقت سے وہاں قراء کرام کا ایک گھر تھا ،جہاں قراء کرام باہر سے آکر ٹھہرا کرتے تھے۔آپ ا نے ایک طرف قراء صحابہ ؓ میں سے چنیدہ اشخاص کو قرآن کریم سکھلانے کے لئے مختص فرما رکھا تھا،اور دوسری طرف لوگوں کو حکم فرمایا تھا کہ وہ ان کے پاس جا کر قرآن کریم سیکھیں، چنانچہ مدینہ منورہ قراء کرام سے بھر گیا تھا۔ انہی میں سے آپ ا قراء کرام کی جماعتیں نومسلم قبائل کی طرف قرآن کریم پڑھانے، اور دین سکھلانے کی غرض سے بھیجا کرتے تھے۔ان قراء کرا م کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی۔ان کے اسمائے گرامی سیرت کی مفصل کتابوں اور صحابہ کرام ؓ کے حالات پر مشتمل کتابوں میں ذکر کئے گئے ہیں۔ان میں سے صرف بئر معونہ کے واقعے میں دھوکے سے شہیدکئے جانے والوں کی تعدادتقریباً ستر تھی۔ اس واقعے سے نبی کریم ا کو اس قدر صدمہ پہنچا تھا کہ آپ انے مسلسل ایک ماہ تک فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھ کران دھوکہ دہندگان قبائل یعنی  قبیلۂ رعل ،قبیلۂ ذکوان اور قبیلۂ عصیہ کے لئے بددعا فرمائی تھی۔ اس اندوہ ناک حادثے کے بعد صحابہ کرام ؓ کا قرآن کریم کے حفظ کرنے کااہتمام مزید بڑھ گیا تھا۔ قرآن کریم کی تدریس میں صحابہ کرام ؓ کا عام معمول یہ تھا کہ وہ چند چند آیات کر کے سکھلایا کرتے تھے، چند سورتیں ایک کو اور چند سورتیں دوسرے کو پڑھاتے ، تاکہ ہر کوئی اپنے اپنے سبق کو اچھی طرح یاد کرلے اوراس طرح ہر ممکن طریقے سے حفاظ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ بعض ان میں سے ایسے تھے جن کو مکمل قرآن کریم یاد تھا، اور بعض ایسے تھے جنہیں چند سورتیں یاد ہوتیں، جن میں ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی شریک ہوتے، اس طرح قرآن کریم کا بقیہ حصے کا حفظ مختلف جماعتوں پر تقسیم تھا۔جنہوں نے قرآن کریم یاد نہیں کیا تھا، ان میں سے بھی اکثر کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی قاری کو قرآن کریم کی کی کسی آیت میں غلطی ہو جاتی تو وہ اس قاری کو تنبیہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔یہ ان کی تلاوت کی کثرت اور اس پر مداومت کا نتیجہ تھا۔ بعض حفاظ کرام عام جہری نمازوںاور خاص طور پر فجر کی نماز میں امامت کرتے ہوئے سات بڑی بڑی سورتوں میں سے کسی کی تلاوت کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بعض صحابہ کرام ؓ مثلاً حضرت عثمان ؓ اور حضرت تمیم داریؓ جیسے حضرات کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک رکعت میں پورا قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ تابعین ؒ میں سے امام ابو حنیفہ ؒ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ آپ ؒ نے ایک رکعت میں پورے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی ہے۔اسلاف میں ایسے حضرات کی تعداد تو بہت ہے جن کے بارے میں یوں منقول ہے کہ وہ ہرسال رمضان المبارک میں ساٹھ قرآن کریم ختم فرمایا کرتے تھے۔ اہل علم میں سے جو حضرات قدرے سُست تھے، ان کا بھی ایک ماہ میں ایک قرآن کریم ختم کرنے کا عام معمول تھا۔ان میں بھی غلبہ ان حضرات کا تھا جو ایک ہفتے میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ باری تعالیٰ نے اہل عرب صحابہ کرام ؓ کو جوقوتِ حافظہ مرحمت فرمائی تھی، اس کی وجہ سے اُنہیں قرآن کریم کا یاد کرنا بہت سہل تھا۔اہل عرب کو قصائد ، خطبات ، شواہد اور امثال کا اس قدر ذخیرہ سینوں میں محفوظ تھا کہ اس نے اقوام عالم کو انگشت بدنداں کردیا تھا اور اپنی قوت حافظہ کا سکہ منوالیا تھا۔البتہ جو بیمار دل اور بے جا بغض رکھنے والے ہیں، اُنہیں اس واضح بات کے تسلیم کرنے میں بھی تردد رہا ہے۔اہل عرب کے اس عمومی رویے ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کے یاد کرنے میں ان کا کیا حال ہوگا ،جس نے ان کے دلوںکو موہ لیا تھا اور اس کے الفاظ کی بلاغت اوراس کے معانی کے اس زورِ بیان نے جو قرآن کریم کے حکیم اور سزاوار حمد و ثنا کی طرف سے نازل شدہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، ان کی بصیرت کو خیرہ کر دیا تھا ؟ آپ ا سے مروی ہے کہ آپ ا ہر سال جبریل ؑ کے ساتھ رمضان المبارک میںقرآن کریم کا ایک مرتبہ دور فرمایا کرتے تھے۔ اور جس سال آپ ا کی وفات ہوئی اور آپ ا رفیق اعلیٰ سے جاملے، اس سے پچھلی رمضان آپ ا نے دو مرتبہ یہ دور فرمایا تھا۔ دور اس طرح ہوتا ہے کہ پہلے ایک شخص پڑھے اور دوسرا سنے، اس کے بعد دوسرا پڑھے اور پہلا سنے، اس لئے کہ لفظ’’ معارضۃ‘‘(جو کہ حدیث شریف میں وارد ہے) مشارکت (یعنی دو طرفہ ہونے )کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس طرح درحقیقت آپ اکے ہر سال جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کی تعداد دو ہوئی اورسن وفات سے پچھلی رمضان اس کی تعداد چار ہوئی۔آپ ا کو اس طرح دو مرتبہ دور کرنے سے معلوم ہو گیا کہ اب رفیق اعلیٰ سے ملاقات کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے، چنانچہ آپ ا نے صحابہ کرام ؓ کو جمع فرمایا اور ان کے سامنے آخر ی مرتبہ پورا قرآن کریم پیش فرمادیا۔ اس آخری مرتبہ جو آپ ا نے قرآن کریم صحابہ کرام ؓ کو سنایا، وہ قرآن کریم کی انہی دیگر قر آت متواترہ ہی کا حصہ ہیںجو مختلف طبقات میں منقول چلی آرہی ہیں، لہٰذا ان میں سے کسی ایک حرف کے انکار پر بھی کفر کا حکم لاگو ہوگا۔البتہ ان قر آت متواترہ میں سے بعض وہ ہیں جن کا متواتر ہونا عوام کو بھی واضح طور پر معلوم ہے، اور بعض وہ ہیں جن کا علم خاص قراء ماہرین ہی کو ہے ، عوام کو ان کا علم نہیں ۔چنانچہ پہلی قسم کی قرء ات میں سے کسی کا انکار بالاتفاق کفر ہو گا، جب کہ دوسری قسم کی قرء ات کا انکار اس وقت کفر شمار ہو گا جب دلائل کے قائم کردینے کے باوجود بوجہ عناد کوئی شخص ان کا انکار کرے،لہٰذا قرء ات سبعہ یا قرء ات عشرہ متواترہ کی تحقیر و تضعیف بہت ہی خطرناک معاملہ ہے،اگرچہ شوکانیؒ اور صدیق حسن خان قنوجیؒ نے اس کی جسارت کی ہے۔جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ فن قرء ات کے شیخ امام شمس الجزری ؒ نے باقاعدہ قرء ات عشرہ کے راویوں کے اسمائے گرامی اپنی کتاب ’’منجد المقرئین‘‘ میں طبقہ در طبقہ شمار فرمائے ہیں، جس کی روشنی میں ہر صاحب عقل پر قرء ات عشرہ کا جملہ طبقات میں تواتر بلا شک و شبہ واضح ہوجاتا ہے۔مزید یہ کہ امام جزری ؒ نے ہر طبقے کے تمام رواۃ کا احاطہ نہیں کیا ہے۔ شوکانیؒ اور قنوجیؒ کا ابن جزریؒ کی طرف منسوب کلام کے ذریعے نتیجے کے طور پراپنے فاسد گمان کو ثابت کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔آپ ابن جزریؒ کی خود اپنی کتاب ــ’’المنجد‘‘کی عبارت دیکھئے جو تواتر کے متعلق انہوں نے تحریر فرمائی ہے۔ ابن جریرؒ نے ابن عامرؒ کی بعض قرء ات کے متعلق جو کچھ کہا ہے، وہ بھی ایک نری لغزش ہے، جو ماقبل میں بیان کردہ دو اقسام میں سے دوسری قسم میں سے ہے۔یہی کچھ حال زمخشری کی رائے کا بھی ہے جو انہوں نے کشاف میں ذکر کی ہے، اللہ ہمیں ان لغزشوں سے محفوظ فرمائے۔ابن جریرؒ فن قرء ات میں ماہر نہیں ہیں، اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس کو صحیح طرح پڑھا پڑھایا ہے، اور ان کی لغزش کا سبب بھی ان کی یہی لاعلمی ہے، جیسا کہ فن قرء ات کے ماہرین نے ان پر تبصرہ فرمایا ہے۔ یہ بالکل بجا ہے کہ مصحف متواتر میں سورتوں اور آیات کی ترتیب، ترتیب نزولی کے موافق نہیں ہے، بلکہ یہ ترتیب متواتر وہی ہے جو نبی کریم ا نے وفات سے قبل آخری مرتبہ صحابہ کرام ؓ کے سامنے جو قرآن کریم سنایا ، اس میں پیش فرمائی تھی۔ اس سے قبل آپ ا کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی آپ ا سورتوں اور آیات کے درمیان اس کی جگہ ارشاد فرما دیا کرتے تھے،جیسا کہ یہ بھی قرآن کریم کی اجزاء بندی کے متعلق صحیح حدیث میں منقول ہے کہ آپ ا نے سورتوں کی باقاعدہ ترتیب صحابہ کرام ؓ کے سامنے بیان فرمائی تھی۔ حاصل یہ کہ درست تحقیق کے مطابق سورتو ں کی باہمی ترتیب بھی اسی طرح توقیفی ہے ،جس طرح آیات کی باہمی ترتیب توقیفی ہے۔ واقعہ بھی یہی ہے ، اس لئے کہ سورتوں اور آیات کی ترتیب کے بغیر مرتب انداز میں قرآن کریم صحابہ کرام ؓ کے سامنے پیش کیسے فرمایا جاسکتا تھا؟ قرآن کریم مکمل طور پر چمڑے کے رقعوں ، ہڈیوں اور پتوں وغیرہ پر عہد نبوی ہی میں لکھا جا چکا تھا، اور ان تمام اجزاء کی( جنہیں نبی کریم ا کی موجودگی میں تحریر کیا گیا تھا) صحابہ کرام ؓ اپنے گھروں میں حفاظت فرمایا کرتے تھے،نیز انہیں یاد بھی کرتے رہتے تھے،بلکہ اسی طریقے کے مطابق جس کو ہم نے ماقبل میں بیان کیا، صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی تعداد نے مکمل قرآن کریم حفظ کر رکھاتھا(۵)۔بعض صحابہ کرام ؓ سے اس سلسلے میں حفاظ صحابہ کرام ؓ کی جو تعداد مروی ہے،وہ راوی کے اپنے علم اور کسی خاص قبیلے میں ان کی پائی جانے والی تعداد کے مطابق ہے۔ جو شخص بھی اس سلسلے میں ان روایات کا تتبع کرے گا ،وہ اس بات میں شک نہیں کر سکتا۔ عرصہ قبل جو کچھ ہم نے علوم قرآن کریم کے متعلق تقریر قلمبند کروائی تھی ، اس میں اس خاص موضوع کے متعلق تفصیل سے بحث کی تھی۔( ۶) مراجع ومصادر (۱)سورۃ الحجر:۹        (۲)سورۃ الاسرائ:۱۰۶ (۳)سورۃ الفرقان:۵        (۴)سورۃ الکہف:۲۸ (۵)فتح الباری،ج:۹،ص:۴۳ میں ابن حجرؒ نے ان حفاظ کی تعداد ۲۹ بتلائی ہے،جنہیں مکمل قرآن کریم یاد تھا۔ (۶)علوم القرآن کے موضوع پر علامہ کوثریؒ کی مستقل تصنیف موجود ہے، جس میں آپؒ نے اصولِ تفسیر، اسبابِ نزول، نسخِ آیات، جمع قرآن اور اس پر اٹھنے والے اشکالات کے جواب، قرآن کریم کے رسم الخط، کتب قرأت وتفسیر ، طبقاتِ قراء ومفسرین اور روایت ودرایت وغیرہ موضوعات پر گرانقدر مباحث رقم کی ہیں۔ (جاری ہے)  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین