بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات (چوتھی قسط)

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور اُس کے نتائج و ثمرات       (چوتھی قسط)

عہد صحابہؓ میں چھ مجتہدین صحابہs کی آرا کی پیروی امام احمد بن حنبل vالمتوفی ۲۴۱ھ ’’کتاب العلل‘‘ میں بلند پایہ فقیہ و حافظ حضرت مسروق vکا بیان نقل کرتے ہیں: عہد صحابہؓ میں چھ صحابہؓ :۱:… حضرت عمر q (۴۰ ق ھ - ۲۴ھ/ ۵۸۴-۶۴۴ئ) ۲:…حضرت عبداللہ بن مسعود q (۰۰۰- ۳۲ھ/ ۰۰۰- ۶۵۲ئ) ۳:… حضرت علی بن ابی طالب q (۲۳ ق ھ- ۴۰ھ / ۶۰۰ - ۶۶۱ئ) ۴:… حضرت ابی بن کعب q (۰۰۰- ۲۱ھ/ ۰۰۰- ۶۴۲ئ) ۵:… حضرت زید بن ثابت q (۱۱-۴۵ھ/ ۶۱۱- ۶۶۵ئ) ۶:…حضرت ابوموسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری q (۲۱ ق ھ - ۴۴ھ/ ۶۰۲- ۶۶۵ئ) فتویٰ دیتے تو ان کے قول پر بات ٹھہرتی، ان میں تین صحابی اپنے قول اور فتوے کو دیگر تین صحابہؓ کے مقابلے میں چھوڑ دیتے تھے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودq، حضرت عمرq کے مقابلے میں اور حضرت ابوموسیٰ اشعریq حضرت علیq کے مقابلے میں اور حضرت زیدq حضرت ابی بن کعبq کے مقابلے میں اپنی رائے اور فتویٰ سے دست بردار ہو جاتے تھے۔(۱) اب یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تفقہ، فقہی بصیرت اور تفریعِ مسائل کا نام ہی رائے ہے۔ عہد ِرسالت، خلافت ِراشدہ اور عہد ِصحابہؓ سے اس سنت پر عمل برابر جاری و ساری تھا۔ (۲) عظیم مجتہدین کی عظیم تر مجتہدین کے حق میں اپنی فقہی آرا سے دست برداری یہاں یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ مذکورہ بالا صورت میں ایک عظیم مجتہد کا دوسرے عظیم تر مجتہد کے مقابلے میں اپنی رائے کو چھوڑ کر دوسرے مجتہد کی رائے کو اختیار کرنا‘ اجتہاد کی ایک قسم ہے۔ چنانچہ امام ابوالحسن الکرخی v (۲۶۰- ۳۴۰ھ/۸۷۴-۹۵۲ئ) فرماتے ہیں: ’’إن تقلید المجتہد لغیرہٖ ممن ہو أعلم منہ و ترک رأیہ لرأیہ ضرب من الاجتہاد فی تقویۃ رأی الأخر فی نفسہ علی رأیہ بفضل علمہ و تقدمہ و معرفۃ وجوہ النظر والا ستدلال ، فلم یحل فی تقلیدہٖ إیاہ من أن یکون مستعملاً لضرب من الاجتہاد یوجب عندہٗ رجحان قول من قلدہ‘‘۔ (۳) ’’بلاشبہ ایک مجتہد کا اپنے سے بڑے مجتہد و عالم کی تقلید کرنا اور اپنی اجتہادی رائے کو اس کی اجتہادی رائے کے مقابلے میں نظرانداز کرنا، دوسرے مجتہد کی رائے کو اپنی رائے کے مقابلے میں چھوڑنا دراصل اس کی علمی برتری اور علم میں اس کی پیش قدمی کی وجہ سے ہے۔ اس کی وجوہِ نظر کی معرفت اور استدلال کے پیش نظر ترجیح دینا اور اس کی تقلید کرنا اِس امر سے خالی نہیں کہ وہ اجتہاد کی ایک قسم پر عمل پیرا رہا، جس نے اس امرکو اس کے خیال میں ضروری کر دیا کہ اس نے جس کی تقلید اختیار کی ہے اس کے قول کو اپنے قول پر ترجیح دے۔‘‘ چھ مجتہدین صحابہ sمیں سے تین صحابیؓ کوفی چنانچہ مذکورہ بالا چھ علما میں سے تین حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریs کا شمار مجتہدین فقہاء کوفہ سے ہے۔ (۴) اور دوسرے تین حضرات علما و مجتہدین کا تعلق بقیہ اسلامی بلاد سے ہے۔ مذکورہ بالا چھ صحابہs کا شمار ان مجتہدین صحابہؓ میں ہے، جنہیں فقہ و نظر میں بلند مقام حاصل تھا، جو عہد ِرسالت میں بھی فتویٰ دینے کے اہل تھے اور فتویٰ دیتے تھے، چنانچہ مؤرخ ابن سعدv ۱۶۸-۲۳۰ھ نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں ایک مستقل باب ’’ذکرمن کان یُفتی بالمدینہ ویُقتدی بہ من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ قائم کیا ہے، اس میں ان مجتہدین صحابہs کو نام بنام گنوایا ہے۔(۵) مجتہدین صحابہؓمیں تین صحابہs پر ابوابِ احکام کی انتہا امام بخاریv کے استاد علی بن المدینی v متوفی ۲۳۴ھ کا بیان ہے کہ احکام سے متعلق صحابۂ رسولؐ کا علم تین صحابہ sپر منتہی ہوا، انہی سے وہ علم سیکھا اور روایت کیا گیا: ۱:…حضرت عبداللہ بن مسعود q، ۲:… حضرت زید بن ثابت q، ۳:…حضرت ابن عباس r۔ ان میں سے ہر ایک کے شاگرد تھے جو ان کے قول پر عمل کرتے اور لوگوں کو فتوے دیتے تھے۔(۶) مذکورہ بالا بیان سے بھی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ عہد صحابہ ؓ میں عوام الناس ان کے فتووں پر عمل پیرا رہتے تھے، غور فرمائیں کیا یہ تقلید شخصی نہیں؟ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، زید بن ثابتؓ اور ابن عباسs کے شاگرد اپنے استادوں کے اقوال اور فتاویٰ کے مقلد و ناشر مؤرخ علامہ خطیب بغدادی vمتوفی ۴۶۳ھ نے بسندِمتصل علی بن المدینیv متوفی ۲۳۴ھ کا بیان ان الفاظ میں زینت ِ کتاب کیا ہے: ’’ لم یکن من أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحد لہ أصحاب یقومون لہ بقولہ فی الفقہ إلا ثلاثۃ: عبداللّٰہ بن مسعودؓ وزید بن ثابتؓ و ابن عباسؓ و کان لکل واحد منہم أصحاب یقومون لقولہ و یفتون الناس‘‘۔ (۷) ’’حضور اکرم a کے صحابہs میں کوئی ایک صحابیؓ ایسا نہ تھا جس کے شاگرد فقہ میں اس کے اقوال پر جمے رہتے اور عمل کرتے اور اس کے فقہی مذہب کو اختیار کرتے ہوں، مگر صرف تین صحابیؓ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اورحضرت ابن عباس s ایسے تھے کہ ان میں سے ہر ایک کے شاگرد اُن کے قول کو اختیار کرتے اور لوگوں کو اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔‘‘ یہاں یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ امام بخاری v کے شیخ علی بن المدینیv سے ایک نامور مجتہد خلیفہ راشد حضرت علیq کا نام رہ گیا ہے۔ ابوابِ احکام کی جن ائمہ مجتہد ین پر انتہا ہوتی ہے، وہ تین نہیں چار ہیں، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عہد صحابہؓ (پہلی صدی ہجری) میں مطلق تقلید ہی نہیں، تقلید شخصی کا بھی عوام میں رواج ہو چلا تھا۔ صحابہsکی مجلس کا موضوعِ سخن صحابۂ رسولؐ sمسجد میں بیٹھ کر پیش آنے والے مسئلوںکے حکموں کے متعلق آپس میں بحث و مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ یہ فقہی بصیرت صحابہ کرامs کی طبیعت میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ ان کی مجالس میں موضوعِ سخن ہی فقہی مسائل ہوتے تھے۔ چنانچہ حاکم نیشاپوری v متوفی ۴۰۵ھ ’’المستدرک‘‘ میں حضرت ابوسعید خدری q کا بیان نقل کرتے ہیں: ’’أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذ اجلسوا کان حدیثہم معنی الفقہ إلا أن یقرأ رجل سورۃ أو رجلاً أن یأمر بقراء ۃِ سورۃٍ‘‘۔ (۸) ’’حضور اکرم a کے صحابہ s جب بیٹھتے توان کا موضوعِ سخن فقہ اور فقہی مسائل ہوتے تھے، مگر یہ کہ کوئی صحابیؓ کوئی سورت پڑھنا شروع کرتا یاکوئی صحابیؓ کسی کو کوئی سورت کی تلاوت کی فرمائش کرتا۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامs کی مجلس میں موضوعِ سخن فقہی مسائل ہوتے تھے یا پھر قرآن کی تلاوت ہوتی تھی۔ امام ابوبکر الجصاص v متوفی ۳۷۰ھ ’’أحکام القرأٰن‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’إن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مجتمعون فی المسجد یتذاکرون حوادثَ المسائل فی الأحکام ‘‘۔(۹) ’’اصحابِ رسول ؐ s مسجد میں بیٹھ کر پیش آنے والے مسئلوں کے حکموں کے متعلق آپس میں بحث ومباحثہ کرتے رہتے تھے۔‘‘ حضرت عمرq کا صحابہs کو فقہی بصیرت حاصل کرنے کی ترغیب و تاکید اور اس سنّت ِمتوارثہ پر قرآن و سنت کی رہنمائی امام ابوبکر الجصاص v متوفی ۳۷۰ھ ’’أحکام القرأٰن‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’محمد سیرینv (۳۳- ۱۱۰ھ/ ۶۵۳- ۷۲۹ئ) احنف بن قیسv (۰۰۰- ۶۷ھ/ ۰۰۰- ۶۸۶ئ) سے وہ حضرت عمرq سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرq  نے فرمایا: قیادت و سیادت سے بہرہ مند ہونے سے پہلے فقہی بصیرت (اور مسائل کے حل کا فہم) حاصل کرو، رسول اللہ a کے صحابہs مسجد میں بیٹھ کر پیش آنے والے مسئلوں کے احکام میں مباحثہ کرتے تھے۔ (ان کے بعد) تابعین بھی اس طریقے و روش پر گامزن رہے اور ان کے بعد آنے والے فقہا کا ہمارے زمانے (۳۷۰ھ/۹۸۰ئ) چوتھی صدی ہجری تک یہ سلسلہ بدستور قائم ہے۔‘‘ اس حقیقت کا انکار رَذیل اور جاہل لوگ کرتے ہیں جنہوں نے ملتی جلتی سنن وآثار کو اٹھاکر دیکھا، ان کے مطالب و معانی اور احکام کو نہ پاسکے، ان میں بحث کرنے اور ان سے فقہی احکام نکالنے سے عاجز آ گئے، چنانچہ حضور اکرم a کا ارشاد ہے: ’’رُبَّ حامل فقہ غیر فقیہ و رُبَّ حامل فقہ إلٰی من ہو أفقہ منہ ‘‘۔ (۱۰) ’’بہت سے فقہی حدیثوں کے راوی فقیہ نہیں اور بہت سے فقہی حدیثوں کے سننے والے ان کا منشأ و مطلب زیادہ اچھا سمجھتے ہیں۔‘‘ اس حقیقت سے منکر جماعت کی مثال ایسی ہے جیسی اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے: ’’مَثَلُ الَّـذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَاکَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا‘‘۔(۱۱) ’’ان لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تھا، پھر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا، ان کی مثال گدھے کی سی ہے جو کتابیں لادے ہوئے ہو۔ ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’إِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ‘‘۔ (۱۲) ’’یعنی وہ (باتیں جو یہ پوچھتے ہیں) تم پر کھولی جائیں تو تم کو بری لگیں گی۔‘‘ اس سے مراد بے محل و بے جا سوالات ہیں، جیسے ’’مَن أَبِیْ؟‘‘ میرا باپ کون ہے؟ اور ’’أین أنا؟‘‘ میں کہاں ہوں؟ جن سے ہر شائستہ انسان کو ناگواری ہوتی اور تکلیف پہنچتی ہے۔ اس قسم کے فضول ولایعنی سوالات کی قباحت و ممانعت کا اظہار اس آیۂ شریفہ میں یوں کیا گیا ہے: ’’وَإِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْأٰنُ تُبْدَلَکُمْ‘‘۔ (۱۳) ’’اور اگر تم اُنہیں دریافت کرتے رہو گے اس زمانے میں جب کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔‘‘ اس قسم کے سوالات کی شریعت میں اجازت نہیں، لیکن ایسے سوالات جن سے حق تعالیٰ کی رضا جوئی اور احکام الٰہی کی تعمیل کرنا مقصود ہو وہ اس کے زمرے میں داخل نہیں، یہی وجہ ہے کہ نت نئے مسائل کے متعلق احکام الٰہی کے اظہار و بیان سے کسی سائل کو ناگواری نہیں، بلکہ خوشی و مسرت ہوتی ہے، اس لیے کہ ان پر عمل سے ہر ایک کی دینی و دنیوی زندگی سنورتی ہے، چنانچہ ایسے تمام سوالات جن کا تعلق معاش کے شعبوں سے ہو یا معاد کے، ان سے مقصد احکام کی بجاآوری ہے، وہ سب ’’عفو‘‘ یعنی درگزر کے دائرے میں داخل ہیں، چنانچہ آیۂ شریفہ میں ارشاد ہے: ’’عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا‘‘۔۔۔۔۔۔’’اللہ تعالیٰ نے ان کی بات سے درگزر کیا۔ ‘‘یعنی اس قسم کے دینی مسائل میں بحث و تکرار پر تم سے باز پرس نہیں کی اور ان مسائل کے حقائق تم پر روشن کر دیئے ۔ذرا غور فرمائیں! یہ فقہی بصیرت کیسا عظیم احسان الٰہی ہے؟ اس مقام پر ’’عفو‘‘ درگزر کرنے کا مطلب ایسے سوالات سے درگزر کرنا، اجازت دینا، سہولت فراہم کرنا، اور لگائی ہوئی پابندی کو ڈھیل دینا، آسانی کرنا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’فَـتَابَ عَلَیْکـُمْ وَعَفَا عَنْکـُمْ‘‘۔ (۱۴) ۔۔۔۔’’اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تم سے در گزر کی۔‘‘ یہاں عَفَا عَنْکُمْ کے معنی  سَھَلَ عَلَیْکُمْ کے ہیں، یعنی تمہیں سہولت بخشی ہے (تم اس سے فائدہ اٹھائو)حضرت ابن عباس r نے فرمایا ہے: ’’الحلال ما أحل اللّٰہ والحرام ماحرم اللّٰہ وما سکت عنہ فھو عفو‘‘۔ ’’حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا اور جس سے اللہ تعالیٰ نے سکوت و خاموشی اختیار کی وہ عفو و درگزر کی حدود میں داخل ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں سہولت دی گئی ہے، فائدہ اٹھانے کی گنجائش رکھی گئی ہے، جیسا کہ رسول اللہ a کا ارشاد ہے:’’عفوت لکم عن صدقۃ الخیل والرقیق۔‘‘ ۔۔۔۔۔ (۱۵)۔۔۔۔۔’’میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ سے درگزر کی۔‘‘ (۱۶) مذکورہ بالا ارشاداتِ نبوی سے اجتہاد کے موقع و محل کی تعیین بھی ہو جاتی ہے۔ صحابہsکے اجتہادی طریقے کی پیروی شمس الائمہ سرخسی vمتوفی ۴۷۳ھ ’’المحرر فی أصول الفقہ ‘‘میں لکھتے ہیں کہ :حضور اکرم a کے ارشاد : ’’ أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اھتدیتم۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’میرے صحابہؓ ستاروں کی طرح رہنما ہیں، ان میں سے تم جس کی پیروی کرو گے راستے پائو گے۔‘‘کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی اقتدا احکام الٰہی کی طلب و جستجو میں ان کے طریقے پر چلنے میں پوشیدہ ہے، نہ ان کی تقلید کرنے میں۔ اور ان کا طریقہ رائے و اجتہاد پر عمل کرنا تھا اور یہی آپ a کے اس ارشاد :’’میرے بعد آنے والوں کی پیروی کرو اور میرے خلفائؓ کے طریقے پر چلتے رہو‘‘ کا مطلب تھا کہ جن باتوں میں حکم صریح نہ پائو، ان میں ان کے طریقۂ اجتہاد و رائے پر گامزن رہو۔(۱۷) بعض مجتہد اکابر و اصاغر صحابہ s کے بکثرت فتووں کے اسباب اکابر صحابہ s سے (فتوے اور) روایتیں کم ہونے کا سبب یہ ہے کہ تابعینؒ کے فائدہ اٹھانے سے پہلے وہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر صحابہؓ میں سے حضرت عمر بن الخطاب اور حضرت علی r سے بکثرت (فتوے اور)روایتیں مروی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی v’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’فصارت قضایاہ وفتاواہ متبعۃ فی مشارق الأرض ومغاربھا ‘‘۔ (۱۸) ’’چنانچہ حضرت عمرq کے فیصلوں اور فتووں کی اسلامی قلمرو کے مشرق و مغرب میں ہر طرف پیروی کی جاتی تھی۔‘‘  یہ بھی تقلید تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے زیادہ زمانہ پایا، انہوں نے حکمرانی کی، ان سے سوالات کیے گئے، انہوں نے لوگوں کے فیصلے چکائے۔ رسول اللہ a کے تمام تر صحابہ کرام s ایسے امام تھے جن کی اقتدا اور پیروی کی جاتی تھی اور یہ جو افعال و اعمال کرتے تھے ان کو نظر میں رکھا جاتا تھا، ان کی طرف توجہ دی جاتی تھی، ان سے فتوے پوچھے جاتے، وہ ان کا جواب دیتے تھے، انہوں نے حدیثیں سنی تھیں اور وہ حدیثیں سناتے تھے، یہ اکابر صحابہؓ میں سے تھے، ان کے علاوہ دوسرے اکابر صحابہ s جیسے حضرت ابوبکرؓ (۵۱ق ھ - ۱۳ھ/ ۵۷۳- ۶۳۴ئ) حضرت عثمانؓ (۴۷ ق ھ - ۳۶ھ/ ۵۷۷- ۶۵۶ئ) حضرت طلحہ ؓ (۲۸ ق ھ- ۳۶ھ/ ۵۹۶- ۶۵۶ئ) حضرت زبیرؓ (۲۸ق ھ - ۳۶ھ/ ۵۶۴ئ- ۶۵۶ئ) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (۲۳ق ھ- ۵۵ھ/ ۶۰۰-۶۷۵ئ) حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ (۴۴ ق ھ - ۳۲ھ/ ۵۸۰- ۶۵۲ئ) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح عامر بن عبداللہؓ (۴۰ق ھ -۱۸ھ/ ۵۸۴- ۶۳۹ئ) حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیلؓ (۲۲ ق ھ - ۵۱ھ/ ۶۰۰- ۶۷۱ئ) حضرت ابی بن کعب ؓ (۰۰۰- ۲۱ھ/ ۰۰۰- ۶۴۲ئ) سعد بن عبادہؓ (۰۰۰-۱۴ھ/ ۰۰۰- ۶۳۵ئ) عبادہ بن الصامتؓ (۳۸ ق ھ - ۳۴ھ/ ۵۸۶- ۶۵۴ئ) اسید بن حضیرؓ (۰۰۰- ۲۰ھ/ ۰۰۰- ۶۴۱ئ) معاذ بن جبلؓ (۲۰ ق ھ - ۱۸ھ/ ۶۰۳- ۶۳۹ئ) اور انہی جیسے صحابہ کرام s سے بہت کم روایتیں منقول ہیں۔ ان اکابر صحابہ کرام s سے اس کثرت سے روایتیں منقول نہیں جس کثرت سے کم عمر صحابہ کرام s سے مروی ہیں، جیسے حضرت جابر بن عبداللہؓ (۱۶ ق ھ - ۷۵ھ/ ۶۰۷-۶۹۷ئ) ابوسعید خدریؓ (۱۰ق ھ - ۷۴ھ/ ۶۱۳- ۶۹۳ئ) ابوہریرہؓ عبدالرحمن بن صخرؓ (۲۱ق ھ - ۵۹ھ / ۶۰۲- ۶۷۹ئ) عبداللہ بن عمر بن الخطابؓ (۱۰ق ھ - ۷۳ھ/ ۶۱۳- ۶۹۲ئ) عبداللہ بن عمر و بن العاصؓ (۷ ق ھ - ۶۵ھ/ ۶۱۶- ۶۸۴ئ) عبداللہ بن عباسؓ (۳ ق ھ- ۶۸ھ / ۶۱۹- ۶۸۷ئ) رافع بن خدیج ؓ (۱۲ق ھ -۷۴ھ/ ۶۱۱- ۶۹۳ئ) انس بن مالکؓ (۱۰ق ھ - ۹۳ھ/ ۶۱۲- ۷۱۲ئ) براء بن عازبؓ (۰۰۰- ۷۱ھ/ ۰۰۰- ۶۹۰ئ)۔ اور انہی جیسے دوسرے صحابہ کرام s ہیں، ان مذکورہ بالا تمام صحابہs کا شمار فقہاء صحابہؓ میں کیا جاتا ہے، یہ رسالت مآب a کے ساتھ رہتے تھے۔ اور ان سے کم عمر صحابہؓ جیسے حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ (۰۰۰-۵۸ھ/ ۰۰۰-۶۷۸ئ) زید بن خالد جہنیؓ (۰۰۰-۷۸ھ/ ۰۰۰-۶۹۷ئ) عمران بن الحصینؓ (۰۰۰ - ۵۲ھ/ ۰۰۰- ۶۷۲ئ) نعمان بن بشیرؓ (۲ق ھ - ۶۵ھ/ ۶۲۳- ۶۸۴ئ) معاویہ بن ابی سفیانؓ (۲۰ق ھ - ۶۰ھ/ ۶۰۳- ۶۸۰ئ) سہل بن سعد مساعدیؓ (۰۰۰ - ۹۱ھ/ ۰۰۰- ۷۱۰ئ) عبداللہ بن یزیدی الخطبیؓ (۰۰۰ - تقریباً ۷۰ھ/ ۰۰۰- ۶۹۰ئ) مسلمہ بن مخلد الزرقیؓ (۱ ق ھ- ۶۲ھ/ ۶۲۲- ۶۸۲ئ) ربیعہ بن کعب الاسلمیؓ (۰۰۰ - تقریباً ۶۳ھ/۰۰۰- ۶۸۳ئ) ہند بن ارثہ اسلمیؓ (۰۰۰ - تقریباً ۵۰ھ/۰۰۰- تقریباً ـ۶۷۰ئ) اسماء بن حارثہ اسلمیؓ (۱۴ ق ھ - ۶۶ھ/ ۶۰۶-  ۶۸۶ئ) یہ دونوں رسول اللہ a کی خدمت کرتے اور ساتھ رہتے تھے، چنانچہ ان سے زیادہ روایتیں منقول ہیں اور ان دونوں میں اور انہی جیسے صحابہؓ میں علم زیادہ رہا، اس لیے کہ یہ زیادہ مدت تک زندہ رہے اور ان کی عمریں بھی لمبی ہوئیں اور تابعین کو ان کے علم سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع ملا اور بیشتر بڑے صحابہؓ ان سے پہلے وفات پاگئے اور ان اکابر صحابہ کرامs  سے زیادہ علم نہیں پھیلا، اس لیے بھی کہ اس وقت انہی صحابہs کی بڑی تعداد موجود تھی۔ (۱۹) عبداللہ بن مسعودq کا اجتہاد میں مرتبہ و مقام حضرت عبداللہ بن مسعودq ایسے بلند ترین فقیہ تھے کہ حضرت فاروق اعظم qجیسے مجتہد اعظم و خلیفہ راشد سے فقہی مسائل میں سو سے زیادہ مسئلوں میں اختلاف رکھتے تھے، ابن حزمv فرماتے ہیں: ’’أما اختلافہما فلو تقصی یبلغ أزید من مائۃ مسئلۃ‘‘۔ (۲۰) ’’حضرت عمرq اور حضرت عبداللہ بن مسعودq کے مابین اختلافی مسائل کو اگرشمار کیا جائے تو ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ نکلے گی۔‘‘ فقہ و بصیرت کا گھاٹ ابن سعدv نے بسندِمتصل حضرت مسروق کوفی v کا بیان نقل کیا ہے: ’’لقد جالست أصحابَ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فوجدتہم کالاخاذ، فالاخاذ یُروی الرجل والاخاذ یُروی الرجلین و الاخاذ یُروی العشرۃ والاخاذ یُروی المائۃ والاخاذ لونزل بہ أھل الأرض لأصدرہم، فوجدت عبدَاللّٰہ بن مسعودؓ من ذٰلک الاخاذ‘‘۔ (۲۱) ’’مجھے رسول اللہ a کے صحابہs کے ساتھ ہم نشینی کی سعادت حاصل رہی ہے، چنانچہ میں نے انہیں گڑھوں (تالاب) کی طرح پایا (کوئی کم علم والا، کوئی زیادہ علم والا) کوئی ایک آدمی کو سیراب کرتا، کوئی دو کو سیراب کرتا، کوئی دس کو اور کوئی سو دو سو کو سیراب کرتا۔ ان میں ایسا بھی تالاب تھا کہ اگر اس سرزمین والے سب ہی آتے تو وہ سب کو سیراب کرکے لوٹاتا تو میں نے عبداللہ بن مسعودqکو (فقہی بصیرت میں) ایسا ہی تالاب پایا۔‘‘ علامہ بدر الدین زرکشی v متوفی ۷۹۴ھ ’’البحر المحیط‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’وأَمّا ابن مسعودؓ کان فقیہَ الصحابۃؓ منتدبًا بالفتویٰ وکذٰلک ابن عباسؓ و زیدبن ثابتؓ ممن شہد لہ الرسولؐ بأنہ أفرض الأئمۃ رضی اللّٰہ عنہم -المعتبر تصدیۃ لھذا المعنی من غیرنکیر- ولاشک فی کون العشرۃ من أھل الاجتہاد وکذلک من انتشرت فتاویٰ کابن مسعودؓ و عائشۃؓ وغیرہم کثرت فتاواھم غیرأن الذی اشتہر منہم الفتاویٰ والأحکام جماعۃ مخصوصۃ ‘‘۔(۲۲) ’’حضرت عبداللہ بن مسعود q کی فتوے سے وابستگی رہی ہے، اس لیے وہ مفتی اور فقیہ صحابیؓ کے لقب سے مشہور تھے، یہی حال حضرت عبداللہ بن عباسr کا ہے اور حضرت زید بن ثابتq ان صحابہs میں سے ہیں جن کے متعلق رسول اللہ a نے مسائل میراث کے سب سے بڑے عالم ہونے کی شہادت دی ہے اور وہ یہ خدمت برابر سرانجام دیتے رہے، اس امر میں کسی کا اختلاف نہیں، اور عشرہ مبشرہ s  کے مجتہدین ہونے میں بھی شک و شبہ نہیں ہے، اور ایسے صحابہؓ جن کے فتوے شائع ہیں، جیسے ابن مسعودq اور حضرت عائشہt اور بعض دوسرے صحابہ s ہیں جن کے فتوے کثیر تعداد میں موجود ہیں، وہ صحابہ s جو احکام (حلال و حرام) سے متعلق مسائل میں شہرت رکھتے ہیں، وہ ایک مخصوص اور محدود جماعت ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودq کا روایتی معیار اہل علم میں سے کسی کو اس بات میں شک نہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود q کو فقہ و درایت اور اتقان و احتیاط اور رسول اللہ a کی خدمت میں حاضری و قربت کا جو مرتبہ و مقام حاصل تھا، وہ کم ہی صحابہؓ    کو حاصل ہوگا، چنانچہ امام عمرو بن میمون یمانی ثم کوفی v متوفی ۷۴/۷۵ھ کا بیان ہے: ’’مجھے حضرت عبداللہ بن مسعود q کی ہمنشینی کی برسوں سعادت حاصل رہی ہے۔ میں نے انہیں حدیثیں بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔ ایک بار انہوں نے رسول اللہ a کی ایک حدیث سنائی تو احتیاط کا یہ عالم تھا کہ انہیں سہو کا اندیشہ و خطرہ ہوا اور خوف طاری ہوگیا، پھر فرمایا: رسول اللہ a نے اس طرح سے فرمایا تھا یا اس کے قریب قریب بات کہی تھی یا اسی قسم کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ علم میں ان کا یہ مقام تھا کہ رسول اللہ a سے روایت کرتے وقت گھبراہٹ طاری ہو جاتی تھی، بیانِ روایت میں احتیاط کا یہ حال تھا۔‘‘(۲۳) حضرت عبداللہ بن مسعود q کے مذکورہ بالا بلند معیار کا اندازہ مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین الذہبیv متوفی ۷۴۸ھ کے بیان سے کیا جاسکتا ہے، وہ ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’أبوعبدالرحمٰن عبداللّٰہ ابن أم عبدالہذلی صاحب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وخادمہ و أحدالسابقین الأولین ومن کبارالبدریین، ومن نبلاء الفقہاء و المقرئین کان ممن یتحری فی الأداء و یتشدد فی الروایۃ ویزجر تلامذتہ عن التہاون فی ضبط الألفاظ‘‘۔(۲۴) ’’حضرت ابو عبدالرحمن عبداللہ بن ام عبد ہذلی q رسول اللہ a کے صحابی ہیں، ان کے خادم ہیں، سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہیں، بڑے بدری صحابہؓ میں سے ہیں، نہایت بلند پایہ فقہا اور قاریوں میں سے ہیں، ان صحابہ sمیں سے ہیں جو بیانِ روایت میں متشدد، بہت سخت اور بہت محتاط تھے، وہ اپنے شاگردوں کو الفاظِ حدیث کے ضبط میں سستی اور بے احتیاطی پر سختی سے روک ٹوک کرتے تھے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن مسعودq کا روایتی معیار کتنا سخت اور بلند تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودq کی مجتہدین کو ہدایت حضرت ابن مسعود q فرماتے تھے کہ ہم پر ایسا زمانہ بھی گزرا کہ ہم فیصلہ نہیں کرتے تھے، فتویٰ نہیں دیتے تھے، کیونکہ اس وقت ایسے مسائل (اجتہادیہ) پیش نہیں آتے تھے، پس اگر کسی کو حکم بتانا ہو تو کتاب سے بتائے، اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول اللہ l سے بتائے، اور اگر آپ a کی سنت میں بھی نہ ہوتو پھر اپنی رائے سے حکم بتائے اور فیصلہ صادر کرے۔(۲۵) لہٰذا اگر نئے مسائل میں اجتہاد سے کام لینے کا پہلے سے رواج نہ ہوتا تو حضرت عبداللہ بن مسعود q مجتہدین کو اپنی اجتہادی رائے اور فقہی بصیرت سے مسئلے کا حکم پیش کرنے کی ہدایت نہ فرماتے، اور بعض صحابہ کرامs اس امر پر ان کی نکیر کرتے۔ یہ بات (ان پر نکیر نہ کرنا) اس امر کی شاہد ہے کہ ان کے یہاں اجتہادی رائے پر عمل کا معمول اور دستور تھا۔(۲۶) اسی لیے جس میں اجتہاد کی اہلیت و صلاحیت نہ ہو، اس کو اجتہاد کی ہرگز اجازت نہیں۔(۲۷) عبداللہ بن مسعودq کے مذہب و فتووں کی تشکیل و تدوین علامہ ابن القیم الجوزیہv متوفی ۷۵۱ھ نے ’’اعلام الموقعین‘‘ میں امام محمد بن جریر طبری المتوفی ۳۱۰ھ کا بیان نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’لم یکن أحد لہ أصحاب معروفون، حرروا فتیاہ و مذہبہ غیر ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ‘‘۔(۲۸) ’’کوئی مجتہد صحابی ایسا نہ تھا سوائے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے جس کے مشہور و معروف شاگرد اس کے فتووں اور اس کے مذہب کو قید تحریر میں لائے ہوں۔ ‘‘ سب سے پہلے تشکیل و تدوین مذہب اور فتووں کی جمع و ترتیب کی سعادت صرف عبداللہ بن مسعودq کے تلامذہ کو حاصل ہے اور وہ بھی مرکز علم کوفہ میں۔ حواشی وحوالہ جات ۱:…کتاب العلل و معرفۃ الرجال، استنبول، المکتبۃ الاسلامیۃ، ۱۹۸۷ئ،ج: ۱،ص: ۱۹۷۔الطبقات الکبریٰ، ج: ۲،ص: ۳۵۱، تاریخ الثقات للعجلی، ص: ۲۷۸ (ترجمہ: ۸۸۶، عبداللہ بن مسعودؓ) سیر اعلام النبلائ،ج: ۲،ص: ۳۸۸، ترجمہ ابوموسیٰ الاشعریq۔ ۲:…عہد صحابہؓ: جمہو مؤرخین کے نزدیک دور صحابہؓ پہلی صدی ہجری کے اختتام پر ختم ہوتاہے، چنانچہ امام ابواسحاق الشیرازیv متوفی ۴۷۶ھ ’’طبقات الفقہائ‘‘ (بغداد، ۱۳۵۶ھ، ص: ۲۲-۲۳) میں رقمطراز ہیں:’’ وانقراض عصر الصحابۃؓ مابین تسعین إلٰی مائۃ‘‘ (صحابہ s کا زمانہ نوے سے سو کے مابین ختم ہوگیا) پہلی صدی ہجری کے خاتمے سے پہلے جن صحابہ کرام s نے سفر آخرت اختیار کیا، اس کی تفصیل مؤرخ واقدی v متوفی ۲۰۷ھ نے یوں پیش کی ہے: ۱:-کوفے میں آخری صحابی حضرت عبداللہ بن ابی اوفیq ( ۸۶ھ/۷۰۵ئ) میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ۲:- مدینے میں آخری صحابی سہل بن سعد ساعدیؓ (۹۱ھ/ ۷۱۰ئ) سو برس کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ۳:- بصرے میں حضرت انس بن مالکq نے (۱۰ ق ھ - ۹۱ھ / ۶۱۲- ۷۱۰ئ) نے اور بعض کا قول ہے ۹۳ھ میں انتقال کیا۔ ۴:- شام میں حضرت عبداللہ بن جریرq نے ( ۸۸ھ/۷۶۷ئ) میں وفات پائی۔ ۵:- (مکہ میں) حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہq نے (۲ھ- ۱۰۰ھ/ ۶۲۵- ۷۱۸ئ) میں وفات پائی۔ مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین الذہبیv نے حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہq کا ذکر پہلی صدی ہجری کی وفیات کے ذیل میں کیا ہے، لیکن لکھا ہے: ’’قال وہب بن جریر سمعت أبی یقول: کنت بمکۃ سنۃ عشرو مائۃ، فرأیت جنازۃ فسألت عنہا، فقالوا: ہذا أبوالطفیل۔ قلت: ہذا ہوالصحیح بثبوت إسنادہ و ہو مطابق لماقیلہ‘‘۔ (تاریخ الاسلام،ص: ۵۲۸، حوادث ووفیات ۸۰-۱۰۰ھ) وہب ابن جریرv کا بیان ہے: میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے کہ: میں ۱۱۰ھ میں مکہ میں تھا، میں نے ایک جنازہ دیکھا اور اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول حضرت عامر بن واثلہq کا جنازہ ہے، میں (الذہبی)کہتا ہوں : یہ قول صحیح ہے، اس کی سند درست اور سابقہ بیان کے مطابق ہے۔ ۳:…أصول الجصاص، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۰ھ،ج: ۲،ص: ۳۷۳۔        ۴:…طبقات الفقہاء للشیرازی،ص: ۱۲۔ ۵:…الطبقات الکبریٰ، بیروت، دار صادر، ۱۴۰۵ھ،ج: ۲،ص: ۲۳۴۔ سیر أعلام النبلائ،ج: ۲، ص:۴۲۳۔ ۶:…الجامع،ج: ۲،ص: ۲۸۹۔        ۷:…مقدمۃ ابن الصلاح، ص: ۴۴۱۔ سیر أعلام النبلائ،ج: ۲،ص: ۴۳۸۔ ۸:…المستدرک علی الصحیحین ومعہ تلخیص الذہبی و کتاب الدرک لتخریج المستدرک لابن حجر، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۹۵۸ئ،ج: ۱،ص: ۲۸۶۔ ۹:…أحکام القرآن للجصاص، مصر، ۱۳۴۷ھ،ج: ۲،ص: ۵۹۰- ۵۹۱۔ ۱۰:…سنن أبی دائود، کتاب العلم، کراچی میر محمد کتب خانہ، ج:۲،ص:۵۱۵۔ سنن ترمذی، ابواب العلم، کراچی ایچ ایم سعید کمپنی، ج:۲، ص:۹۰۔ ۱۱:…الجمعۃ: ۵۔    ۱۲:…المائدۃ: ۱۰۱ - ۱۰۲۔        ۱۳:…ایضاً۔        ۱۴:…البقرۃ:۱۸۷۔ ۱۵:…سنن ابی دائود، کتاب الزکوۃ، باب فی زکوٰۃ السائمۃ، کراچی میر محمد کتاب خانہ (۱/۲۲۳) ۔سنن الترمذی، ابواب الزکوٰۃ،کراچی ایچ ایم سعید(۱/۱۳۴) ۱۶ :…أحکام القرآن للجصاصؒ، مصر، ۱۳۴۷ھ، ج: ۲،ص: ۵۹۰- ۵۹۱۔            ۱۷:… أصول الجصاص،ج: ۲،ص: ۳۸۶- ۳۸۷۔ ۱۸:…حجۃ اللہ البالغۃ، کراچی، قدیمی کتب خانہ، ج:۱،ص: ۲۸۱۔            ۱۹:…الطبقات الکبریٰ،ج: ۲، ص: ۳۷۶۔ ۲۰:…الاحکام فی اصول الاحکام،ج: ۶،ص: ۶۱۔                ۲۱:…طبقات، ج: ۲،ص: ۳۴۳۔ ۲۲:…البحر المحیط، ج: ۶، ص: ۲۱۱- ۲۱۲۔                    ۲۳:…أصول الجصاص،ج: ۲،ص: ۲۲۔ ۲۴:…تذکرۃ الحفاظ، طبع: ۱۹۵۵ئ، ج: ۱،ص: ۱۳-۱۴۔                ۲۵:…أصول الفقہ للجصاص،ج: ۲،ص: ۲۳۱۔ ۲۶:…ایضاً،ج: ۲،ص: ۲۳۱۔                    ۲۷:…ایضاً،ج: ۲،ص: ۲۳۶۔ ۲۸:…إعلام الموقعین عن کلام رب العالمین، بیروت، دارالجیل،ج: ۱،ص: ۲۰۔                                                                                       (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین