بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عالم ربّانی کی رحلت

عالم ربّانی کی رحلت

۲۲؍رجب المرجب ۱۴۳۴ھ مطابق ۲؍ جون ۲۰۱۳ء بروز اتوار بعد نماز مغرب عالم ربانی، میدانِ تصوف کے شہسوار مولانا شاہ محمد احمد پرتاب گڑھیؒ کے خلیفہ مجاز اور حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے شاگرد وخلیفہ مجاز،حضرت مولانا بدرعالم میرٹھیؒ اور حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادیؒ کے فیض یافتہ اور حضرت مولانا شاہ ابرارالحقؒ کے تربیت یافتہ وخلیفہ مجاز، جامعہ اشرف المدارس کراچی کے مؤسس وبانی، ہزاروں مریدین کے شیخ ومصلح ،لاکھوں معتقدین ومنتسبین کے مأویٰ ومرجع حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمہ اللہ تعالیٰ اس دنیا فانی کی ۹۰؍ بہاریں دیکھنے کے بعدعالم فانی سے منہ موڑ کر عالم عقبیٰ کی طرف رحلت فرماگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمٰی۔ علماء کرام اور اہل قلوب صالحین کے قافلے بڑی تیزی کے ساتھ جانب عقبیٰ رواں دواں ہیں، دنیا کی تاریکی میں بڑی شدت اور تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور آنحضرت ا کے ارشاد گرامی کا منظر آنکھوں کے سامنے آرہا ہے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: ’’ یذھب الصالحون الأول فالأول ویبقیٰ حفالۃ کحفالۃ الشعیر أو التمر لایبالیہم اللّٰہ بالۃ ‘‘۔  (صحیح بخاری،کتاب الرقاق،باب ذھاب الصالحین،ج:۲، ص:۱۸۰۱،ط:الطاف اینڈ سنز) ترجمہ:’’نیک لوگ یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جائیں گے اور پیچھے انسانوں کی تلچھٹ رہ جائے گی، جیسے جو یا کھجور کی تلچھٹ ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو ان کی کچھ بھی پرواہ نہ ہوگی‘‘۔ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ کا وجود سامی سایۂ رحمت اور چشمۂ فیض تھا، جس سے نہ جانے دنیا کے کونے کونے میں کتنی مخلوقِ خدا سیراب ہوتی تھی۔ ان کی زندگی واقعۃً ایک عارف باللہ کی زندگی تھی، آپ کے فیض یافتہ اور صحبت یافتہ دور سے پہچانے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت والا کی ذات میں بہت سے کمالات اور خصائص ودیعت فرمائے تھے۔ حضرت حکیم صاحب نور اللہ مرقدہٗ میں محبت کا عنصر غالب تھا، آپؒ کا خمیر محبت کی مٹی سے گوندھا گیا تھا اور شیخ کامل کی نظر کیمیا اثر کی کرامت سے حسن ازل کا عشق ان کے رگ وپے میں سرایت کرگیا تھا، وہ کشتۂ محبت ہی نہیں سراپا محبت بن گئے تھے۔ وہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے نوجوان وعمر رسیدہ حضرات وخواتین کی اس طرح تربیت فرماتے کہ وہ عشق مجازی کے تعفن وبدبو اور سڑاند کے ڈھیروں سے کوسوں دور بھاگ کر عشق حقیقی کے متوالے بن جاتے تھے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ راقم الحروف حضرت والا کی زیارت وملاقات کے لئے آپ کی خانقاہ جامعہ اشرف المدارس گلشن اقبال گیاہوا تھا، دیکھا کہ حضرت والا کی خدمت میں دو نوجوان بیٹھے ہیں، جو چہرے مہرے اور وضع قطع سے کسی کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم لگتے تھے، حضرت والا نے ان کی تربیت کرتے ہوئے انہیں فرمایا کہ: ’’تم اپنے سر کے بالوں کو استرے سے صاف کرادو، تمہارا سر ایسے لگے گا جیسے کسی مرنے والے کی قبر پر لوٹا پڑا ہو، جب تم ایسا کرلوگے تو پھر کوئی بھی حسینہ اور دوشیزا تمہاری طرف منہ پھیر کر نہیں دیکھے گی، اس طرح تم بہت سے گناہوںسے بچ جاؤگے‘‘۔ حضرت حکیم صاحبؒ کی ہر مجلس اور ہر محفل بجائے خود درسِ عبرت تھی، آپؒ کی مجلس میں محبت کی خوشبو مہکتی تھی اور آپؒ کے بیانات میں اکثر وبیشتر محبت ہی زیر بحث آتی۔ حضرت تھانویؒ کا ملفوظ ہے کہ سارے سلوک کا حاصل صرف ایک چیز معلوم ہوتی ہے اور وہ محبت ہے۔حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ شیطان میں تین عین تھے، مگر چوتھا عین نہیں تھا، اس لئے مارا گیا۔ وہ عالم تھا اور اتنا بڑا عالم کہ معلم ملکوت کہلاتا تھا۔ عابد تھااور ایسا عابد کہ آسمان کے چپے چپے پر سجدہ کیا تھا۔ وہ عارف تھا اور ایسا عارف کہ عین غضب الٰہی کے وقت بھی جب کہ اُسے راندۂ درگاہ کیا جارہا تھا، دعا کرنے لگا:’’رَبِّ فَأَنْظِرْنِیْ إِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ‘‘ کیونکہ جانتا تھا کہ یہ حالت بھی قبولت دعا سے مانع نہیں۔ لیکن ظالم میں عشق نہیں تھا، اگر اسے یہ چوتھا عین بھی حاصل ہوجاتا اور اسے اللہ تعالیٰ سے محبت ہوتی تو حکم الٰہی سے سرتابی نہ کرتا، جب حکم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو فوراً سجدہ میں گرجاتا، کیونکہ محبت مصلحتیں اور علتیں تلاش نہیں کیا کرتی، محبت تو محبوب کے حکم پر مرمٹنے کا نام ہے، پس جب تک عشق ومحبت نہ ہو، نہ علم کا اعتبار ہے، نہ عبادت کا ، نہ معرفت کا۔ حضرتؒ کے مختصر حالاتِ زندگی گلشن اختر، شمارہ نمبر:۲،۱۴۳۱ھ مطابق ۲۰۱۰ء سے لئے گئے ہیں، جو حضرت مولانا حکیم محمد مظہر صاحب نے حضرت والا کی تعزیت کے موقع پر اپنے دست اقدس سے ہمیں عنایت فرمائے: ’’ولادت باسعادت ہندوستان کے صوبہ یوپی کے ضلع پرتاب گڑھ کی ایک چھوٹی سی بستی (اٹھیہ) کے ایک معزز گھرانے میں عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ کی ولادت باسعادت ہوئی، سنِ ولادت ۱۹۲۸ء ہے۔ آپؒ کے والد ماجد کا نام محمد حسین صاحب تھا، آپ کے والد ایک سرکاری ملازم تھے، عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ اپنے والد کے اکلوتے فرزند ہیں۔ زمانۂ طفولیت: بچپن ہی سے عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ پر آثارِ جذب کا ظہور ہونے لگا تھا۔ بچپن ہی سے محبت الٰہیہ کا ظہور ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ مادر زاد ولی ہیں، کچھ اور ہوش سنبھالنے کے بعد نیک بندوں کی محبت اور بڑھ گئی اور ان کی وضع قطع دیکھ کر بہت خوشی ہوتی اور ہر مولوی ، حافظ اور ڈاڑھی والے کو محبت سے دیکھتے۔ ابتدائی تعلیم: درجۂ چہارم تک اردو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ نے اپنے والد صاحب سے ’’علم دین‘‘ حاصل کرنے کی درخواست کی اور فرمایا کہ مجھے دیوبند بھیج دیا جائے، لیکن والد صاحب نے مڈل اسکول میں داخل کرادیا۔ درجۂ ہفتم کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ کے والد گرامی نے ’’علم طب‘‘ کے حصول کے لئے طبیہ کالج الٰہ آباد میں داخل کرادیا اور کہا کہ علم طب کے بعدعربی درسیات کی تعلیم حاصل کرنا۔ تحصیل علوم دینیہ وعربی درسیات عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ نے اپنے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مدرسہ بیت العلوم میں دینی تعلیم حاصل کی، بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لینا چاہئے، لیکن حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ نے انکار فرمادیا کہ وہاں مجھے اپنے شیخ کی صحبت نہیں ملے گی، جو علم کی روح ہے۔ فرمایا کہ: میرے نزدیک علم درجہ ثانوی اور اللہ تعالیٰ کی محبت درجہ اولیٰ میںہے۔ یہاں علم کے ساتھ مجھے شیخ کی صحبت نصیب ہوگی، جس کی برکت سے مجھے اللہ تعالیٰ ملے گا۔ اسی کی برکت ہے کہ آج بڑے بڑے فضلاء دیوبندحضرت والا کے حلقۂ ارادت میں ہیں۔ حضرت والا نے ’’درسِ نظامی‘‘ کے نصاب کی چار سال میں تکمیل کی اور صحیح بخاری شریف کے چند پارے اپنے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ سے بھی پڑھے، جو کہ ایک واسطہ سے حضرت گنگوہیؒ کے شاگرد تھے۔ بیعت وارادت حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک مشہور وعظ ’’راحۃ القلوب‘‘ کے مطالعے کے بعداس سلسلے سے بہت مناسبت اور محبت پیدا ہوگئی اور حضرت تھانویؒ کی خدمت میں بیعت کے لئے خط لکھا، وہاں سے جواب ملا کہ اس سلسلے کے کسی اور بزرگ سے رجوع فرمائیں۔ ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ حضرت تھانویؒ کی رحلت کی خبر ملی، حضرت تھانویؒ کی رحلت کے بعد سلسلۂ تھانوی کے کسی ایسے شیخ اور مصلح کی تلاش میں رہے جو سراپادردِ عشق ومحبت اور سراپا سوختہ جان ہو۔ اسی دوران الٰہ آباد میں حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادیؒ کے سلسلے کے ایک بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد احمد پرتاب گڑھیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صبح وشام ان کی مجالس میں آنے لگے۔ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ کو علم ہوا کہ پھولپور میں مجددِ ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے اجل خلیفہ حضرت مولانا عبدالغنی مقیم ہیں، تو حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ کو ان کی طرف دل میں زیادہ مناسبت معلوم ہونے لگی۔ حضرت مولانا عبدالغنی رحمہ اللہ کو اپنا مرشدومصلح منتخب کرنے کا فیصلہ کیا اور عید الاضحیٰ کے قریب والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر پھولپور روانہ ہوگئے اور عین عیدالاضحیٰ کے روز پھولپور پہنچے۔ اس وقت حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ ’’تلاوتِ قرآن کریم‘‘ میں مصروف تھے، جب حضرت پھولپوریؒ متوجہ ہوئے تو عرض کیا کہ میرا نام ’’محمد اختر‘‘ ہے، پرتاب گڑھ سے اصلاح کے لئے حاضر ہوا ہوں، پھر اپنے شیخ کے ساتھ ایسے جڑے کہ سترہ سال حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کی خدمت میں گزاردیئے۔ خلافت واجازتِ بیعت اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کے وصال کے بعد حسبِ وصیت حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحبؒ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور دو سال بعد خلافت سے سرفراز فرمائے گئے۔ تصانیف وتالیفات حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ کی ۱۰۶؍ سے زائد تصانیف ہیں اور مواعظ لاکھوں کی تعداد میں عربی، اردو، انگریزی، فرانسیسی، فارسی، ترکی، بنگالی، پشتو،گجراتی، براہوی،سندھی، بلوچی، ہندی، تامل(سری لنکا) جرمن، پرتگالی، چائینیز، زولو اور ان کے علاوہ بھی مختلف پندرہ زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ چند مشہور تصانیف معرفتِ الٰہیہ، براہین قاطعہ، معارفِ مثنوی، روح کی بیماریاں اور ان کا علاج، کشکولِ معرفت، فیضانِ محبت، مواعظِ حسنہ جو تقریباً چھ جلدوں سے زائد تک پہنچ چکی ہے، اس کے علاوہ اور تالیفات وتصنیفات موجود ہیں۔ الحمد للہ! آج یہ خانقاہ پورے عالم کا مرکز ہے اور متوسلین وطالبین سعودی عرب، عرب امارات، افریقہ، امریکہ، برطانیہ، بنگلہ دیش، کینیڈا اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے اصلاح وتزکیہ کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور حضرت کی صحبت وارشادات عالیہ سے مستفید ہوکر فائز المرام ہوتے ہیں۔‘‘ حضرت حکیم اختر صاحبؒ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد ۱۹۵۴ء یا ۱۹۵۵ء میں پاکستان آئے اور ناظم آباد نمبر:۴ میں تقریباً دو دہائیوں تک دینی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بعد ازاں’’ خانقاہ امدادیہ اشرفیہ‘‘ گلشن اقبال کراچی میں منتقل ہوئے اور آخری وقت تک وہیں قیام پذیر رہے۔ مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ نے ایک بڑا دینی ادارہ ’’جامعہ اشرف المدارس‘‘ کے نام سے سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر میں قائم کیا، جس میں ۵۰۰۰ سے زائد طلبہ زیرتعلیم ہیں اور کراچی میں اس کی ۱۰؍ سے زیادہ شاخیں ہیں۔ حضرت مولانا حکیم اختر صاحبؒ کی نگرانی میں’’ الاختر ٹرسٹ‘‘ قائم ہوا، تاہم بعد ازاں امریکا نے جن چند اداروں پر پابندی عائد کی ان میں ’’الاختر ٹرسٹ‘‘ بھی شامل تھا۔دنیا بھر میں حضرت والاؒ کے مریدوں اور عقیدت مندوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جن میں جنوبی افریقہ کے معروف کرکٹر عبداللہ آملہ اور ہاشم آملہ بھی شامل ہیں۔ حضرت مولانا حکیم اختر صاحبؒ پر ۲۸؍مئی ۲۰۰۰ء کو فالج کا حملہ ہوا، جس کے بعد سے وہ علیل چلے آرہے تھے۔ علالت کے دوران ہی بروز اتوار بعد نمازِ مغرب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ حضرتؒ کے خلفاء کی طویل فہرست ہے جو پاکستان کے علاوہ، سعودی عرب، بھارت، بنگلہ دیش، امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور برما سمیت دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہیں۔ حضرتؒ نے دین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں کئی ایک ممالک کا دورہ کیا اور اخیر عمر میں یہ سلسلہ عدمِ صحت کی بناپر موقوف ہوگیا تھا۔حضرت حکیم اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے سوگواروںمیں ایک بیٹا، ایک بیٹی، ہزاروں شاگرد اور لاکھوں عقیدت مندوں اور متوسلین کوچھوڑا ہے۔ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ کے انتقال کی خبر جامعہ پہنچی تو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم ، نائب رئیس حضرت مولانا سید محمد سلیمان بنوری دامت برکاتہم اور جامعہ کے اساتذہ کرام نے حضرت مولانا حکیم محمد اختر نور اللہ مرقدہٗ کے سانحۂ ارتحال کے غم کو اپنا غم اور حضرتؒ کی رحلت کو امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم سانحہ قرار دیتے ہوئے حضرت رحمہ اللہ کے لئے ترقیٔ درجات کی دعا فرمائی۔آپؒ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی نماز جنازہ آپؒ کے بیٹے حکیم محمد مظہر صاحب نے پڑھائی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے حضرت مولانا امداداللہ صاحب، حضرت مولانا سعید عبدالرزاق اسکندرصاحب، حضرت مولانا مفتی محمد شفیق عارف صاحب، حضرت مولانا مفتی انعام الحق صاحب، حضرت مولانا فضل حق صاحب (ناظم ماہنامہ ’’بینات‘‘) اور راقم الحروف شریک ہوئے۔ بروز پیر صبح نوبجے آپؒ کی نماز جنازہ کا وقت مقرر کیا گیاتھا، لیکن آپؒ کے مریدین صبح کی نماز کے بعد سے ہی آپؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ وقت مقررہ سے پہلے جامعہ، خانقاہ اور سوسائٹی کی آس پاس کی گلیاں ہجوم سے بھرچکی تھیں اورمحتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد لوگ آپؒ کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، جبکہ کثرتِ ہجوم سے خانقاہ کی طرف آنے والے تمام روڈ کھچاکھچ بھرچکے تھے، اور راستہ نہ ملنے کی بنا پر بہت سارے حضرات آپؒ کی نمازِجنازہ میں شرکت سے محروم ہوگئے۔ نماز جنازہ کے بعد مقامی قبرستان میں آپؒ کی تدفین عمل میں آئی۔ رشد وہدایت کا یہ امام ربانی اور میدانِ تصوف کا یہ شہسوار اپنی زندگی بھر کی حسنات ساتھ لے کر اپنے مریدین، متوسلین اور معتقدین کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مرحوم کی جملہ حسنات کو قبول فرماکر جنت الفردوس کا مکین بنائیں اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین۔ آخر میں بینات کے باتوفیق قارئین سے التماس ہے کہ جہاں تک ہوسکے‘ حضرت کے لئے ایصالِ ثواب کا اہتمام فرمائیں کہ حضرت سے محبت وتعلق کا یہی تقاضا ہے۔

جامعہ کے استاذ مولانا محمد فاروق صاحب کو صدمہ 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ اور ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے کمپوزر حضرت مولانا محمد فاروق صاحب کے والد محترم جناب محمد صدیق الرحمن رحمہ اللہ تعالیٰ ۲۲؍ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ مطابق ۲؍ جون ۲۰۱۳ء بروز اتوار تقریباً اَسّی (۸۰ ) سال کی عمر میں بقضائے الٰہی فوت ہوگئے ہیں۔ باتوفیق قارئینِ ’’بینات‘‘ سے اُن کے لئے ایصالِ ثواب کی درخواست ہے۔

٭٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین