بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الہندؒ کا احسانی وعرفانی مقام (پہلی قسط)

شیخ الہند v کا احسانی وعرفانی مقام

                   (پہلی قسط)

    شیخ الہند مولانا محمود حسنv کی زندگی اتنی ہمہ جہات اور متنوع اوصاف و کمالات سے مملو ہے کہ اگر ان کی بابرکت زندگی کے کسی ایک ہی گوشے کو موضوع بنا کر اس پر لکھا جائے تو مختلف عنوانات پر ایک ایک بسیط مقالہ تیار ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت کے برعکس یہ بات بھی بہت قابل مشاہدہ ہے کہ آزادیٔ ہند کی مختلف تحریکات میں قائدانہ اور جاں فروشانہ شمولیت نے شیخ الہندv کی عظیم شخصیت کو جہاد، سیاسیات اور تحریکات میں قیادت کا استعارہ بنادیا ہے۔ بلاشبہہ شیخ الہندv کی میدانِ جہاد و تحریکات میں خدمات اس لائق ہیں کہ منصب امامت اور نقش ہدایت کے لیے برعظیم میں سید احمد شہیدv کے بعد اگر کسی شخصیت کا نام لیا جاسکتا ہے تو وہ بجا طو رپر صرف شیخ الہند محمود حسنv ہیں۔ جہاں اس تکرار و گردان اور تحقیق و تفتیش نے میدان جہاد، تحریکات، زندان و اسیری کے ایام میں شیخ الہندv کی حیات کے تقریباً ہر گوشے کو منظر عام پر لاکر اس باب میں اتباع کی بڑی راہ فراہم کی ہے اور اخلاف کو سلف کے طریق جہاد و سیاست کی ایک محفوظ راہ دکھائی ہے، وہیں اس عمل اور رویّے سے لاشعوری طور پر ہی سہی لیکن شیخ الہند vکی زندگی کے بہت سے باطنی، احسانی، عرفانی، اخلاقی، سماجی اور تعلیمی پہلو نظر انداز ہوگئے ہیں، یا اس طرح واضح ہوکر منصہ شہود پر نہیں آسکے کہ ان سے بلا تحقیق و تفحص رہ نمائی لی جاسکے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اگر شیخ الہندؒ کی زندگی کا بہ نظرِ اِمعان مطالعہ کیا جائے تو آپؒ کی شخصیت علم و فضل، درس و تدریس، افتاو تصنیف، مناظرے و وعظ اور سلوک و عرفان میں بھی جہادی اور تحریکی سرگرمیوں ہی کی طرح جامع اور منصب امامت پر فائز نظر آئے گی ۔ استحضارِ الٰہی اور جذبۂ عبودیت: لازمۂ احسان     زیر ِنظر تحریر میں شیخ الہندvکے احسانی و عرفانی مقام کا ایک اجمالی جائزہ مقصود ہے۔ احسان و عرفان سے مراد وہ مواجید و احوال نہیں جنہیں فی زمانہ عرفان و احسان کا لازمہ باور کیا جاتا ہے، اگرچہ وسائل اور ذرائع کے درجے میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن یہاں احسان سے مراد بندگی کی وہ خاص اور متعین صور ت ہے جو انسان کی کل زندگی کا احاطہ کرکے اس میں استحضارِ خداوندی اور جذبۂ عبودیت کو پیدا کردیتی ہے۔ یہی عبودیت یا بندگی تمام تر فضائل و احسان کی بنیادی صفت ہے۔ غور کیا جائے کہ رسول اللہ a کے القاب میں سب سے بڑا لقب ’’عبد‘‘ ہے اور عارفین نے سب سے بڑا مقام ’’عبدیت‘‘ ہی کا بتلایا ہے۔ امام رازیv اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ شب معراج اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ a سے پوچھا کہ آپ کو کون سا لقب و وصف سب سے زیادہ پسند ہے؟ تو آپ aنے فرمایا: ’’عبدیت‘‘، اسی لیے سورۂ اسراء میں آپ aکا یہی پسندکردہ لقب نازل ہوا ۔(۱)     بندگی کا جذبہ اگر ذہن، ارادے اور طبیعت میں راسخ ہوجائے تو زندگی کا ہر میلان، ہر فعل اور ہر تأثر بندگی کی کیفیت سے معمور ہوجاتا ہے اور عبودیت اور استحضارِ الٰہی انسان کا ’’حال‘‘ بن جاتی ہے۔ انسان نیت، ارادے، شعور اور عمل ہر سطح پر تفویض اور سپردگی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اسی استحضارِ الٰہی کے مراقبے اور خوشنودیٔ رب کی جستجو کو عارفین ’’اخلاص‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، جس سے انسان کے ذاتی اوصاف میں اگر ایک طرف خاک ساری و خود احتسابی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو دوسری جانب اس کے اعمال و احوال میں برکت اور تھوڑے عمل کی بڑی جزا مرتب ہوتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ a کا ارشاد ہے: ’’رب اشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم علٰی اللّٰہ لأبرہٗ۔‘‘(۲) ’’بہت سارے پریشان حال، پراگندہ حال، گرد و غبار سے اَٹے ہوئے بالوں والے ایسے ہیں جنہیں دروازوں پر دھکیلا جائے، مگر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اعتماد پر اگر وہ قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم کو سچا کر دکھائے۔‘‘ شیخ الہندv: ذات اور علم کی عینیت     شیخ الہندv کا درسِ حدیث ہندوستان میں معروف تھا، چالیس سال تک آپ نے دارالعلوم دیوبند کی مسندِ تدریس سے ’’قال اللّٰہ وقال الرسولؐ‘‘ کی صدائے دل نواز لگائی۔ آپ کی زبردست شخصیت کے باعث دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کے طلبہ کی تعداد ۲۰۰؍ تک پہنچ گئی۔ آپ کے زمانے میں ۸۶۰؍ طلبہ نے حدیث نبویؐ سے فراغت حاصل کی۔ شیخ الہندv کے تذکرہ نگار آپ کے درس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حلقۂ درس دیکھ کر سلف صالحین و اکابر محدثین کے حلقۂ حدیث کا نقشہ نظروں میں پھر جاتا تھا۔ قرآن و حدیث حضرت کو اَزبر تھے اور ائمہ اربعہ کے مذاہب زبان پر۔ صحابہؓ و تابعین، فقہاء و مجتہدین کے اقوال محفوظ۔ تقریر میں نہ گردن کی رگیں پھولتی تھیں، نہ منھ میں کف آتاتھا، نہ مغلق الفاظ سے تقریر کو ادق اور بھدی بناتے تھے۔ نہایت سبک اور سہل الفاظ بامحاورہ اردو میں اس روانی اور تسلسل سے تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتاتھا دریا اُمنڈ رہا ہے۔ یہ کچھ مبالغہ نہیں ہے۔ اب بھی کئی دیکھنے والے موجود ہوں گے کہ وہی منحنی جسم اور منکسر المزاج ایک مشت استخوان، ضعیف الجثہ مرد خداجو نماز کی صفوں میں ایک معمولی مسکین طالب علم معلوم ہوتا تھا اور بارہا مسجد کے فرش پر بلا کسی بستر کے لیٹا ہوا نظر آتا تھا، مسند درس پر تقریر کے وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک شیر خدا ہے، جو قوت و شوکت کے ساتھ حق کا اعلان کر رہا ہے۔‘‘  (۳)     معروف مستشرقہ باربرا مٹکاف[Barbara Metcalf]آپ کی تدریسی خصوصیات کے متعلق لکھتی ہیں: "He was a man of extraordinary energy, teaching ten lessons each day, writing, caring for Muhammad Qasim in his final illness. He was devoted to the school and resisted all invitations to leave it. His fame was especially great in hadith; and his biographer notes, in the course of his career he taught over a thousand students from such distant places as Kabul, Qandahar, Balkh, Bukhara, Mecca, Medina and Yeman. Among them were Anwar Shah Kashmiri, Shabir Ahmed Osmani and Hafiz Muhammad Ahmad, the Leaders of the third generation of ulama at the school." (4)     حافظے اور استحضار کا یہ عالم تھا کہ: ’’شیخ الہندv نے ایک مرتبہ کتابیں دھوپ میں رکھنے کے لیے باہر نکالیں، اتفاق سے میبذی کے کچھ ورق پھٹ گئے، حضرت نے ایک طالب علم سے کہا: اس کو لکھ لو، اس نے کہا: کیسے لکھوں؟ میرے پاس وہ کتاب ہی نہیں۔ فرمایا، اچھا! سال گزشتہ پڑھی، امسال بھول گئے؟ پھر فرمایا: اچھا لکھو، میں بولتا ہوں، چنانچہ زبانی لکھوادیا‘‘۔(۵)     اس مقام پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حافظے اور استحضار کی لیاقت عارفین کی تصریحات کے مطابق حلال رزق اور نظروں کی حفاظت سے مشروط ہے، جس سے شیخ الہندv پوری طرح بہریاب تھے۔ علم اور شیخ الہندv میں اسی عینیت کو آپ کے شیخ و مربی مولانا رشید احمد گنگوہی v نے ایک مختصر سے فقرے میں سمیٹ کر بیان کردیا ہے کہ: ’’محمود علم کا کٹھلا ہے‘‘۔(۶)     علم وفضل کی یہ لیاقت اور درس و تدریس کی اس شان کے باوجود شیخ الہندv کی بے نفسی اور فنائیت ایسی تھی کہ خود فرماتے ہیں:     ’’میں بارہا گنگوہ حاضر ہوااور جی میں بھی آیا کہ حضرت مولانا [گنگوہیv] سے عرض کردوں کہ مجھے بھی حدیث کی سند دے دیجیے، لیکن کبھی اس درخواست کی ہمت نہ پڑی۔ جب اس نیت سے گیا تو یہی خیال ہو اکہ تو یہ تمنا لے کر تو جاتاہے، لیکن تجھے کچھ آتا جاتا بھی ہے؟ بارہا خیال ہوا کہ عرض کروں کہ سب کو حضرت سنددیتے ہیں، مجھے بھی سند دیجیے، مگر پھر خیال ہوا کہ مولانا پوچھ بیٹھیں کہ تجھے کچھ آتا بھی ہے، جو سند لیتا ہے؟ تو کیا جواب دوں گا! اس لیے کبھی درخواست کی ہمت نہ ہوئی‘‘۔(۷)     چلیے تھوڑی دیر کے لیے استاذ اور شیخ کے سامنے، اور وہ بھی مولانا گنگوہیv جیسے استاذ و شیخ کے رو بہ رو اس خاک ساری کی توجیہ کی جاسکتی ہے، لیکن مولانا محمد شاہ رام پوریv تو معاصر تھے، ان کے سامنے خاکساری کا اظہار! واقعہ ملاحظہ فرمائیے! یہ وہی شخص کر سکتا ہے جس کا نفس مزکی ہوچکا ہو۔ مولانا اشرف علی تھانویv لکھتے ہیں: ’’ثقات سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ مراد آباد میں وعظ کی درخواست کی گئی، بہت کچھ عذر کے بعد منظور فرمایا اور بیان شروع ہوا۔ حدیث یہ تھی:’’فقیہ واحد أشد علی الشیطٰن من ألف عابد‘‘ کے ترجمے کا حاصل ’’بھاری‘‘ لفظ سے فرمایا (کہ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے) مجلس میں ایک پرانے عالم تھے جو محدث کے لقب سے معروف تھے، انہوں نے کھڑے ہوکر فرمایا کہ: ’’أشد‘‘ کا ترجمہ غلط کیا گیا، ایسے شخص کو وعظ کہنا جائز نہیں۔تو مولانا ؒبے ساختہ کیا فرماتے ہیں کہ حضرت! مجھ کو تو پہلے سے معلوم ہے کہ مجھ جیسے شخص کو وعظ کہنا جائز نہیں اور میں نے ان صاحبوں سے اسی واسطے عذر بھی کیا تھا، مگر انہوں نے مانا نہیں، اب بہت اچھا ہوا حضرت کے ارشاد سے بھی میرے عذر کی تائید ہوگئی اور بیان سے بچ گیا۔ حاضرین کو تو جس قدر ناگواری ہوئی اس کا کچھ پوچھنا نہیں، دانت پیستے تھے کہ یہ کیا لغو حرکت تھی۔ گو مولاناؒنے بجائے ناگوار سمجھنے کے یہ کمال کیا کہ نہایت سکون کے ساتھ ان کے پاس جاکر ان کے سامنے ادب سے بیٹھ کر نہایت نیاز مندی کے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ: حضرت! غلطی کی وجہ معلوم ہوجائے تو آئندہ احتیاط رکھوں۔ انہوں نے کڑک کرفرمایا کہ: ’’أشد‘‘ کا ترجمہ آپ نے ’’ أثقل‘‘ سے کیا یہ کہیں منقول نہیں، ’’أضر‘‘ سے کرنا چاہیے۔ مولاناؒ نے فرمایا: اگر کہیں منقول ہو تو؟ انہوں نے کہا: کہاں ہے؟ مولاناؒ نے فرمایا: حدیثِ وحی میں ہے، کسی نے پوچھا: ’’کیف یأتیک الوحی؟‘‘ (آپa پر نزولِ وحی کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟) جواب میں ارشاد ہوا :’’ یأتینی أحیانا مثل سلسلۃ الجرس وھو أشدہٗ عَلیَّ‘‘(کبھی وحی مجھ پر گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) اور ظاہر ہے کہ یہاں ’’أضر‘‘(زیادہ نقصان دہ)کے معنی ممکن نہیں، ’’ أثقل‘‘ (زیادہ بھاری) ہی کے معنی صحیح ہوسکتے ہیں۔ بس! یہ سن کر ان کا تو رنگ فق ہوگیا، مگر مولاناؒ نے نہ کچھ اس پر فخر کیا، نہ دوبارہ بیان شروع فرمایا‘‘۔(۸) شیخ الہندؒ: فیض قاسمی کا شجرۂ طوبیٰ، خاکساری کا نتیجہ     لِلّٰہیت اور خاکساری کے یہی وہ اوصاف تھے جنہوں نے شیخ الہندؒ کو ترکِ ذات کے مقام علیا تک پہنچا دیا تھا، اس لیے کہ خدا کا وعدہ ہے کہ جو تواضع اختیار کرے گا ہم اسے رفعت عطا کریں گے۔ مولانا سید حسین احمد مدنیv شیخ الہندv کے اسی وصف پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا قاری محمد طیبv  کے نام‘ گرامی نامے میں لکھتے ہیں:     ’’اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے تو تنکے سے کام لیتا ہے اور پہاڑ رہ جاتا ہے۔ حضرت مولانا فخر الحسن صاحب ؒاور مولانا عبد العدل صاحبؒ، حضرت مولانا نانوتوی قدس سرہٗ العزیز کے شاگردوں میں سب سے زیادہ ذکی حفظ اور ذہن وغیرہ میں اعلیٰ درجہ رکھنے والے تھے۔ مولانا احمد حسن امروہوی v دوسرے درجے میں تھے اور حضرت v کی عنایت بھی ان پر سب سے زیادہ تھی۔ ہمارے آقاحضرت شیخ الہند v ان سب میں گرے ہوئے شمار کیے جاتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے جوکام لیا وہ ان میں سے کسی سے نہیں ہوا اور نہ ہوسکا۔ آج فیض قاسمی عالم میں میزابِ محمودی سے جاری ہے‘‘۔(۹)     شیخ الہندv کے مزاج و طبیعت میں اخفاء کا بھی غلبہ تھا، اپنے علم و فضل کے اخفاء کے حوالے سے آپ ہو بہ ہو اپنے استاذ مولانا محمد قاسم نانوتویv کے ہم رنگ و آہنگ تھے۔ مولانا نانوتویv کا یہ مقولہ بہت ہی معروف ہے کہ:     ’’اس علم نے خراب کیا، ورنہ اپنی وضع کو ایسا خاک میں ملاتا کہ کوئی بھی نہ جانتا‘‘ (۱۰)     یہی فقرہ شیخ الہندv سے اپنے متعلق منقول ہے:     ’’اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم سے نہ نوازا ہوتا تو اپنے کو اس قدر مٹاتے کہ محمود نام کاکوئی رہ نہ جاتا‘‘۔(۱۱)     لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی تواضع کی برکت سے آپؒ کے نام کو رہتی دنیا تک کے لیے علم و فضل سے لے کر حریت اور جہاد تک ہر جگہ نمایاں فرمادیا۔ ذوقِ عبادت اور حسن معاشرت: اساسِ بندگی     عبودیت اور بندگی کو دوبنیادی اوصاف: ذوقِ عبادت اور حسن معاشرت کے بلیغ عنوانات میں سمویا جاسکتا ہے۔ عبادت‘ بندگی کالازمہ اور تخلیق کی وجہ اصل ہے۔ لیکن ضابطے کی عبادت اور ذوقی عبادت میں بہت فرق ہے۔ عبادت کا ذوق اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جس کے لیے عبادت دل کا سکون اور لذت و فرحت کا سامان بن جائے۔ عبادت کے دو بنیادی مظاہر ہیں: تلاوت اور نماز ۔ ـــــ ایسا شخص جسے ذوقِ عبادت حاصل ہو تلاوت اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور نماز مخاطبت کا۔ اذکار و اوراد کی کثرت اور اس پر استمرار سے مقام عبودیت کو رسوخ کامل حاصل ہوتا چلا جاتا ہے ۔ شیخ الہندv: باجماعت نماز اور نوافل کا غیر معمولی اہتمام     واقفین حال شہادت دیتے ہیں کہ شیخ الہندv کے لیے ذکر، تلاوت اورنماز طبیعت ثانیہ بن گئی تھیں ۔ ـــــ عبادت کی خشت ِاول نماز باجماعت کی پابندی ہے جس کی عادت رفتہ رفتہ عبادت بن جاتی ہے۔ مولانا عزیز الرحمن بجنوریv لکھتے ہیں: ’’صلوٰۃ باجماعت کا تو اس قدر اہتمام تھا کہ تکبیر اولیٰ تک فوت نہ ہوتی‘‘۔(۱۲)     ذوقِ عبادت کا یہ وافر حصہ شیخ الہندvکو زمانۂ طالب العلمی ہی میں عطا ہوا تھا۔ باجماعت نماز کے علاوہ صلوٰۃ اللیل اور دیگر اوراد و وظائف سے متعلق مولانا میاں سید اصغر حسینv لکھتے ہیں: ’’حضرت مولانا(محمود حسنؒ) ایام طالب علمی ہی سے قیام لیل کے پابند تھے ۔۔۔۔۔۔ دن کو تعلیم و تعلّم کا شغل رہتا تھا، رات کو ادائے اَوراد و اذکار معمولۂ مشائخ اور تعلیم فرمودۂ حضرت استاذ کا۔ شب کو دس گیارہ بجے تک حضرت استاذ (مولانا محمد قاسم نانوتویv) کی خدمت میں رہتے اور اس کے بعد گاہ گاہ رات کو مطالعہ و سبق دیکھتے۔ ذرا آرام کر کے نوافل اور ذکر اللہ میں مصروف ہوجاتے‘‘۔(۱۳)     عبادات و معمولات میں تستّر و اِخفاء کا عالم یہ تھا کہ پوری کوشش فرماتے کہ کسی کو آپ کے معمولات کی خبر نہ ہو۔ مولانا عزیز الرحمن بجنوریv لکھتے ہیں: ’’صلوٰۃ اللیل سے تو گویا آپؒ کو عشق تھا۔ جب دیکھا کہ سب سوچکے ہیں، چپکے سے اُٹھے اور نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ طویل طویل رکوع اور قیام میں پوری پوری رات گزاردیتے، لیکن جہاں کہیں بھی ذرا سی آہٹ محسوس کرتے کہ کوئی جاگ رہا ہے، فوراً ہی لیٹ جاتے، تاکہ دیکھنے والے کو یہ احساس ہو جائے کہ حضرت سو رہے ہیں‘‘۔(۱۴)     کسی بے تکلف نے ایک مرتبہ شیخ الہندv سے یہ دریافت کرلیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ لوگوں کے جاگ جانے کے خیال سے نماز کیوں توڑ دیتے ہیں؟ فرمایا:ـ ’’بھائی! نفلی نماز کو توڑ نے کے بعد دوسرے وقت ان کی قضا میرے لیے زیادہ سہل ہے اور بہتر ہے اس سے کہ لوگ میرے بارے میں حسن ظن رکھیں اور واقع میں میںایسا نہ ہوں‘‘۔(۱۵) شیخ الہندv: کثرت عبادت کے باعث پاؤں کے ورم پر خوشی     ایک مرتبہ کثرتِ عبادت کی بنا پر پاؤں ورم کر گئے تو اس پر خوش ہو کر فرمایا: ’’ آج ایک سنّت-’’حتی تورمت قدماہ ’’حضوراقدس a کے قدم ہائے مبارک کثرتِ قیام کی بنا پر ورم کر جاتے تھے‘‘- پر آج اتباع نصیب ہوا‘‘۔(۱۶) اتباعِ سنت: مجاہداتِ سلوک کا نقطۂ منتہا و مقصود     اتباعِ سنت تمام تر مجاہدات اور سلوک و عرفان کا پھل ہے۔ شیخ الہندv کی اتباعِ سنت کا یہ عالم تھا کہ: ’’قیام دیوبند کے دوران جمعے کے روز دیوبند سے باہر نہر پر تشریف لے جاتے، کپڑے دھوتے، پھر غسل فرماتے، یہاں تک کہ کپڑے پھریرے اور پہننے کے قابل ہوجاتے تو پہن کر ایسے وقت چلتے کہ جمعے کی اذان ہونے لگتی اور اذان سنتے ہی ایک دوڑ لگاتے کہ آیت کریمہ : ’’إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ‘‘۔۔۔۔۔’’جب نماز جمعہ کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف سعی کرو‘‘ پر عمل ہوسکے‘‘۔ (۱۷) شیخ الہندv: عبادت او ر اطاعت کا مظہر کامل     رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا: ’’رأس الأمر فالإسلام وأما عمودہٗ فالصلٰوۃ وأما ذروۃ سنامہٖ فالجھاد۔‘‘(۱۸) ’’اس چیز(دین) کا سر اسلام ہے، اس کا ستون نماز اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد ہے۔‘‘     بندگی کی غایت اصلی کے دو بڑے مظاہر ہیں: نماز اور جہاد۔ بندگی کے تشکیلی عناصر کا دائرہ ان ہی دو قوسوں سے مکمل ہوتا ہے۔ یہ دونوں مظاہر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہی نہیں، عین یک دیگر ہیں اور غایت ان کی ایک ہے: بندگی۔ ـــــ نماز عبادتِ الٰہی کا مظہر کامل ہے اور جہاد نیابتِ الٰہی کا۔شیخ الہند v کی زندگی میں بندگی کے یہ دونوں مظاہر پوری شان سے جلوہ گر تھے۔ جہاد سے وابستگی ہی نے انہیں ’’اسیر مالٹا‘‘ بنایا تھا۔ اور نماز جسے متذکرہ حدیث میں عبادت کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اس میں انہماک کا عالم یہ تھا کہ فرائض تو فرائض ہی تھے، شیخ الہند v کے معمولہ نوافل، اَوراد و اذکار اور معمولات کی اس پابندی میں نہ درس و تدریس کی مشغولیت رکاوٹ بنتی تھی نہ ہی تحریک و جہاد کی مصروفیت، ـــــ حتیٰ کہ ایام اسیری میں بھی شیخ الہندv معمولات اپنی ترتیب کے مطابق انجام دیتے رہے۔ مولانا سید حسین احمد مدنی v لکھتے ہیں: ’’مولانا عشاء کی نماز کے بعد بہت تھوڑی دیر جاگتے تھے، کچھ اپنے اَوراد پڑھتے تھے اور پھر پیشاب وغیرہ سے فارغ ہو کر وضو فرماتے۔ کبھی کبھی باتیں بھی کرتے تھے اور پھر سوجاتے تھے، کیوں کہ دس بجے کے بعد حکماً روشنیاں بجھادی جاتی تھیں۔ جہاں دس بجے اسی وقت سپاہی آواز دیتا تھا، سب چراغ اور موم بتیاں بجھانی پڑتی تھیں اور پھر تمام شب جلانے کی اجازت نہ تھی۔ جہاں جہاںکمروں میں برقی روشنیاں تھیں وہاں خود ہی بجھ جاتی تھیں۔ البتہ پھر وہ برقی روشنیاں جو کیمپ اور راستوں کی روشنی کے لیے تھیں وہ تمام رات جلا کرتی تھیں، ان کا تار برقی کمروں کی روشنی کے تار سے علاحدہ تھا۔ الغرض دس بجے سے سب لوگ سوجاتے تھے۔ مولانا v تقریباً ایک بجے یا ڈیڑھ بجے شب کو اُٹھتے اور نہایت دبے دبے پیروں سے نکلتے دروازے سے باہر تشریف لاتے، پیشاب سے فارغ ہو کر وضو فرماتے، گرمیوں میں تو گرم پانی کی ضرورت ہوتی ہی نہ تھی، نل کا پانی مناسب ہوتا تھا۔ سردی کے زمانے میں ہم نے یہ خاص اہتمام کیا تھا کہ چولہے پر کھانے کے بعد ایک بہت بڑے ٹین کے لوٹے میں جو کہ چائے کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے ملتا اور اس میں ٹینٹو پیچ دار لگی ہوئی تھی اور اس میں ہمارے معمولی دس بارہ لوٹے پانی آجاتا تھا‘ پانی خوب گرم کرلیا جاتا تھا اور پھر اسی پاس والے کمرے میں جہاں پر نل لگا ہوا تھا،  اس لکڑی کے تخت پر جس پر سب کپڑے دھوتے تھے ایک کمبل میں لپیٹ کر عشاء کے بعد رکھ دیتے تھے۔ یہ پانی صبح تک خوب گرم رہتا تھا، حال آں کہ سردی بہت ہی زیادہ پڑتی تھی، اندھیرے ہی میں جا کر اس میں نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔ جب اس سے فارغ ہوجاتے تو پھر چارپائی پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور صبح تک مراقبہ اور ذکرِ خفی میں مشغول رہتے تھے اور ہزار دانوں کی تسبیح ہمیشہ سرہانے رکھی رہتی تھی۔ اسمِ ذات کی کوئی مقدار معین کر رکھی تھی، اس کو ہمیشہ بالتزام پورا فرماتے۔ مراقبے کا اس قدر انہماک ہوگیا تھا کہ بعض اوقات میں دو دو تین تین مرتبہ باتیں دھراتے، مگر سمجھتے نہ تھے۔ صبح کی نماز سے پیشتر اکثر پیشاب کرتے اور وضو کی تجدید فرما کر نماز باجماعت ادا فرما کر وہیں مصلیٰ (سجادہ) پر آفتاب کے بلند ہونے تک مراقب رہتے تھے۔ اس کے بعد اشراق کی نماز ادا فرما کر اپنے کمرے میں تشریف لاتے۔ اس وقت مولانا کے لیے اُبلے ہوئے انڈے اور چائے تیار رہتی تھی‘ وہ پیش کردی جاتی تھی۔ اس کو نوش فرما کر دلائل الخیرات اور قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تھے۔ اس سے فارغ ہو کر کچھ ترجمۂ قرآن شریف تحریر فرماتے یا اس پر نظر ثانی کرتے یا اگر خط لکھنے کا دن ہوتا تو خط تحریر فرماتے یا وحید کو سبق پڑھاتے۔ اتنے میں کھانے کا وقت آجاتا، کھانا تناول فرما کر چائے نوش فرماتے تھے۔ اس کے بعد اگر کسی سے ملنے کے لیے وروالہ یا سینٹ کلیمت کیمپ یا بلغار کیمپ میں جانا ہوتا تو وہاں کا قصد فرماتے اور کپڑے پہن کر تیار ہوجاتے تھے اور اگر جانے کا قصد نہ ہوتا تو آرام فرماتے اور اگر کوئی ملنے کے لیے دوسرے کیمپ میں سے آتا تو اس سے باتیں کرتے۔ اگر تیز گرمی کا زمانہ ہوتا تھا تب تو وہیں چارپائی پر اور اگر کچھ بھی سردی ہوتی تو صحن میں دھوپ میں قیلولہ فرماتے تھے۔ وہاں پر ہم سب دو تین گدّے ڈال دیتے اور اس پر کمبل اور تکیہ بچھادیا جاتا تھا اور اگر کسی نے غفلت کی تو خود تکیہ لے جاتے اور ان گدّوں اور کمبل کو بچھا کر آرام فرماتے۔ دو تین گدّے ہم نے زائد اسی واسطے لے رکھے تھے جو کہ ہمیشہ علاحدہ رکھے رہتے تھے اور جب تک وہ حاصل نہ ہوئے تھے تو بعض چارپائیوں کے گدّے اٹھالیے جاتے تھے۔ تقریباً دو یا ڈیڑھ گھنٹے تک اسی طرح آرام فرماتے تھے۔ پھر قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے اور پھر وضو فرمانے کے بعد تلاوتِ قرآن شریف، دلائل الخیرات، حزب الاعظم وغیرہ میں مشغول ہوتے، مگر قرآن شریف بہت زیادہ پڑھتے تھے۔ غالباًروزانہ دس بارہ پارے پڑھتے تھے۔ ظہر کی اذان تک اسی حالت میں رہتے تھے، پھر مسجد میں تشریف لاتے اور نماز سے فارغ ہو کر اگر وحید کا سبق ہوتا تو کبھی اس وقت میں اور کبھی صبح کو اپنے اَوراد سے فارغ ہو کر کھانے کے وقت تک پڑھاتے تھے،بلکہ اکثر صبح ہی کو پڑھاتے تھے۔ عصر کی نماز کے بعد اکثرمولانا v ذکرِ خفی لسانی میں مشغول ہوتے تھے، وہ ایک ہزار دانے والی تسبیح چادر یا رومال کے نیچے چھپا کر بیٹھ جاتے اور ذکر کرتے تھے۔ مغرب کے بعد بھی ذکرِ خفی میں مشغول ہوجاتے تھے۔‘‘(۱۹) حوالہ جات ۱:…ادریس کاندھلویؒ، سیرۃ المصطفیٰ، کراچی: مکتبہ عمر فاروق، ۲۰۱۰ئ، جلد:۱، ص:۲۶۳۔ ۲:…مسلم بن الحجاج القشیریؒ، الصحیح المسلم، کتاب البر والصلۃ، رقم: ۱۲۸۱۔ ۳:…عبدالرشیدارشد، بیس بڑے مسلمان، لاہور: مکتبہ رشیدیہ، ۲۰۰۱ئ، ص:۲۳۶۔ 4:Barbara Metcalf, "The Madrasa at Deoband: A Model for Religious Education in Modern India", Modern Asian Studies, 12, I, [1978], p. 122. ۵:…محمود حسن گنگوہیؒ، ملفوظات فقیہہ الامت، لاہور: مکتبہ مدنیہ، ۱۹۹۲ئ، جلد:۲، قسط:۷، ص:۹۳۔ ۶:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، [مرتب:ـ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری]، کراچی: مجلس یادگار شیخ الاسلام، ۲۰۰۷ئ، ص:۱۴۳۔ ۷:…محمد زکریا سہارن پوریؒ، آپ بیتی، لاہور: مکتبہ الحرمین، [س-ن]، جلد:۲، ص:۷۶۰۔ ۸:…اشرف علی تھانویؒ، ’’ذکر محمودؒ‘‘، مشمولہ تذکرہ شیخ الہندؒ، ص:۵۳۰-۵۳۱۔ ۹:…حسین احمد مدنیؒ، مکتوبات شیخ الاسلام، کراچی: مجلس یادگار شیخ الاسلام، ۱۹۹۴ئ، جلد:۲، ص:۲۰۰-۲۰۱، مکتوب: ۶۲۔ ۱۰:…محمد یعقوب نانوتویؒ، ’’سوانح عمری مولانا محمد قاسم نانوتوی‘‘، مشمولہ نادر مجموعہ رسائل جناب مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ، کراچی: میر محمد کتب خانہ، [س-ن]، ص:۸۔ ۱۱:…میاں اصغر حسینؒ، حیات شیخ الہندؒ، لاہور: ادارۂ اسلامیات، ۱۹۷۷ئ، ص:۱۶۷۔ ۱۲:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، ص:۱۵۰۔            ۱۳:…میاں اصغر حسینؒ، حیات شیخ الہندؒ۔ ۱۴:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، ص:۱۵۰۔            ۱۵:…ایضاً، ص:۱۵۱۔ ۱۶:…محمود حسن گنگوہیؒ، ملفوظات فقیہہ الامت، لاہور: مکتبہ مدنیہ، ۱۹۸۶ئ، جلد:۱، ص:۱۰۶۔ ۱۷:…ایضاً۔        ۱۸:… المستدرک علی الصحیحین، بیروت: دار الکتب العلمیۃ، کتاب الجھاد، جلد۲، ص:۸۶، رقم:۲۴۰۸۔ ۱۹:…عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، ص:۱۵۱-۱۵۳۔                                         (جاری ہے)

 

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین