بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی ؒ کا وصال

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی  ؒ کا وصال

 

الحمد للّٰہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل وسابق استاذ، محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے تلمیذ وشاگرد رشید، تبلیغی جماعت کے امیر دوم حضرت جی حضرت مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ کے محب ومرید، قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہٗ کے مصاحب وخلیفہ مجاز، جامعہ معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کے بانی، رئیس ومہتمم، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے سرپرست وراہنما، ہزاروں متوسلین کے مرشد ومصلح، استاذ العلمائ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ ۳؍ ربیع الثانی ۱۴۳۴ھ مطابق ۱۴؍ فروری ۲۰۱۳ء بروز جمعرات گیارہ بجے دن اس دنیا فانی کی ۷۵؍ بہاریں گزار کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہٗ بأجل مسمیٰ۔ اہالیانِ پاکستان پر عجیب صدمات اور آزمائش کا وقت آن پڑا ہے کہ ایک طرف علمائ، طلبہ اورعوام کو آئے دن مظلومانہ، وحشیانہ اور سفاکانہ طریقے سے شہید کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اکابر، بزرگ، اولیاء اللہ جو مصیبت، غم اور پریشانی کے حالات میں ڈھارس اور امیدوں کا چراغ ثابت ہوتے ہیں، ایک ایک کرکے دنیا سے اُٹھتے چلے جارہے ہیں۔ ابھی حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ، حضرت مولانا مفتی صالح محمد کاروڑی شہیدؒ اور ان کے ساتھی طالب علم حسان علی شاہ شہیدؒ اور جامعہ کے شہید طلبہؒ کا غم تازہ ہی تھا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ رقم طراز ہیں:’’ہمارے شیخ قطب عالم برکۃ العصر حضرت مولانا محمد زکریا مدنی نوراللہ مرقدہٗ بڑے درد سے فرمایا کرتے تھے کہ: ’’افسوس! اب امت کے غم میں کوئی رونے والا بھی نہیں رہا‘‘ یہ ناکارہ روسیاہ تمام اہل قلوب اور مسلمان بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ ہمارے یہ تمام حالات حق تعالیٰ شانہ کی ذات عالی کے قہر و غضب کا مظہر ہیں۔ تمام حضرات متوجہ الی اللہ ہوکر بارگاہ الٰہی میں گڑ گڑائیں اور امت کے حق میں دعا و التجا کریں، کیونکہ امت پِس رہی ہے، اعدائے اسلام اس کی تکا بوٹی کررہے ہیں، درندوں کی فوج در فوج اس کو چیرنے پھاڑنے اور نوچنے میں مصروف ہے، لیکن امت کے حالِ زار پر سیلِ اشک بہانے والی آنکھیں بہت کم ہیں۔ اپنے فرقہ، اپنی جماعت، اپنے گروہ یا اپنے ذاتی غم میں گھلنے والے تو بہت ہیں، لیکن وہ قلوب ناپید ہوتے جارہے ہیں جو امت کے غم میں ایسے گڑ گڑائیں اور ایسا بلبلائیں کہ کریم آقا کو ان پر رحم آجائے۔ شاید کوئی زبان ایسی نہیں رہی جو امت کی حالتِ زار پر بارگاہِ الٰہی میں دعا و التجا اور آہ و فغاں سے شورِ محشر برپا کردے۔ آہ! یہ امت جس کے سر پر ’’خیر امت‘‘ کا تاج رکھا گیا تھا، آج اپنی جگہ طعمۂ اغیار بنی ہوئی ہے۔ اس کی حالت اس گلے کی سی ہے جس کو بھیڑیئے چیر پھاڑ کررہے ہوں، لیکن اس کا کوئی گلہ بان اور پاسبان نہ ہو: تیرے محبوب کی ہے یہ نشانی مرے مولا! نہ اتنی سخت سزا دے ایسے حالات اور ماحول میں قرآن کریم کی درج ذیل آیت انسان کی عارضی زندگی کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتی :  ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَّإِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ‘‘۔ (الأنبیائ: ۳۵) ’’ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، ہم تمہیں آزماتے ہیں برائی اور بھلائی کے ساتھ، تم سب کو ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے‘‘۔  یعنی اللہ تعالیٰ ہر حالت میں آزمائش کرتے ہیں، کبھی سختی کی حالت میں، کبھی نرمی کی صورت میں، کبھی تنگی کی حالت میں اور کبھی فراخی کی حالت میں، کبھی بیمار کرکے اور کبھی تندرستی دے کر، کبھی محتاجی دے کر اور کبھی دولت مندی دے کر۔ یہ آزمائش اس لئے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر ظاہر فرمادیں کہ سچے لوگ کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ اور خصوصاً اہل پاکستان کے ساتھ عافیت کا معاملہ فرمائیں اور ہمیں مزید صدمات اور سانحات سے محفوظ ومامون فرمائیں۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی اعلیٰ اور ہمہ جہت اوصاف سے متصف فرمایا تھا۔ آپؒ کے حالات اور آپؒ کی زندگی کے معمولات پڑھ اور دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؒ   کو اس دنیا میں بھیجا ہی اپنے دین متین کی خدمت اور اشاعت کے لئے تھا، اس لئے کہ جس بچہ نے اسکول اور کالج کے امتحانات میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی ہو، گھر میں مال ودولت کی ریل پیل ہو، افرادِ خانہ کاروبار میں لگے ہوئے ہوں، ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر اوائل عمری میں تبلیغ دین کے لئے نکل جانا، بزرگوں کی صحبت اور خدمت میں لگے رہنا اور اُن کے ذوق کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا اور زندگی بھر ان کے مسلک ومشرب سے سر مو انحراف نہ کرنا، یہ صرف آپ ہی کا خاصہ تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ کے اندر انابت، توکل، للّٰہیت، فنائیت، کسر نفسی، عاجزی، سخاوت، ہمدردی جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ دین اور اہل دین کے لئے کڑھنا، تڑپنا، ان کے لئے دعائیںکرنا، اسی طرح انہیں مفید مشوروں سے نوازنا آپ ؒکے معمولاتِ زندگی میں اہم معمول کے طور پر شامل تھا۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒکی پیدائش تقریباً ۱۹۳۸ء میں الحاج شیخ محمد یونس مرحوم کے ہاں لدھیانہ میں ہوئی۔ آپ کے دادا، تایا اور والد بسلسلۂ تجارت دہلی سے مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں آکر قیام پذیر ہوگئے۔ آپ کی برادری کا شعار:صوم وصلوٰۃ کی پابندی،فریضۂ حج وزکوٰۃ کی ادائیگی، علماء کے ساتھ محبت، ان کے درسِ قرآن کے حلقوں میں بیٹھنا اور ان کی خدمت ومدارات کرنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ پانچ چھ سال کی عمر میں ہی حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہٗ کی زیارت سے مشرف ہوگئے تھے۔  آپؒ کو پانچ سال کی عمر میں ایک استانی صاحبہ کے پاس ناظرہ قرآن کریم پڑھنے کے لئے بٹھادیا گیا، پھر اسکول میں داخل کرایا گیا، اسی اثناء میں ہندوستان تقسیم ہوگیا، آپ ؒکے والدین نے پہلے لاہور اور اس کے بعد مستقلاً کراچی کو اپنا مسکن بنالیا۔ کراچی آکر پڑھائی کا منقطع سلسلہ پھر شروع کیا، چوتھی جماعت میں داخلہ لیا، ۱۹۵۶ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسی دوران تبلیغی جماعت سے تعلق ہوگیا اور یہی تعلق آپ ؒ کو دین کی طرف راغب کرنے کا سبب بنا۔ کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ‘ تین دن، چلہ اور اس سے زیادہ وقت تبلیغ میں لگنے لگا،یہاں تک کہ ۱۹۵۹ء میں پاکستان کے تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں قیام کرلیا۔ آپؒ نے پہلی بیعت حضرت جی مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ سے تبلیغ کے دوران ہی کرلی تھی۔ آپؒ اکثر حضرت جیؒ کے ساتھ ہی رہتے تھے اور فرماتے تھے کہ: حضرت جیؒ مولانا محمد یوسفؒ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریانور اللہ مرقدہٗ کے عاشقِ صادق اور دل سے مطیع تھے۔ حضرت شیخؒ کو اپنا محسن اورتبلیغی کام کا سرپرست سمجھتے تھے۔ حضرت جیؒ حضرت شیخ قدس سرہٗ کے اعلیٰ مقام کی وجہ سے اپنے تبلیغی احباب، کام کرنے والوں،خاص کر پرانوں کے بارے میں دل سے چاہا کرتے تھے کہ وہ حضرت شیخ قدس سرہٗ کی صحبت میں وقت گزاریں۔ آپؒ نے انٹر سائنس تک کالج میں تعلیم حاصل کی اور ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۶ء تک تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک: ہندوستان، حجاز، اردن، شام، عراق، کویت،بحرین،سوڈان اور حبشہ میں جماعتوں کے ساتھ آناجانا رہا۔ حضرت جیؒ مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ کے وصال کے بعد حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہٗ سے آپؒ نے بیعت کی۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ اپنی بیعت کا واقعہ خود لکھتے ہیں: ۱۹۶۵ء میں حبشہ جماعت میں گیا، آخر میں حجاز واپسی ہوئی۔ ۱۹۶۶ء میں شام،اردن، پاکستان ہوتے ہوتے پھر حجاز مقدس واپسی ہوئی۔ حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب مدظلہ العالی مع حضرت قدس سرہٗ حجازِ مقدس تشریف لائے تو اس وقت بندہ نے حضرت کے ایک بہت ہی قریبی عزیز کے واسطے سے اپنے تعارف کے ساتھ کہ میں سہارن پور میں حاضر ہوتا رہا ہوں، بیعت کی درخواست کی، حضرت قدس اللہ سرہٗ نے جواباً کہلوایا کہ: ’’میں اُسے خوب جانتا ہوں، اُس سے کہہ دینا کہ یوسف کی بیعت میری ہی بیعت تھی کہ میں نے ہی اُسے بیعت پر کھڑا کیا تھا، اب اگر تمہاری طبیعت میری طرف ہے تو خدمت کے لئے میں بھی حاضر ہوں‘‘۔ پھر کیا تھا، دوسرے ہی دن بعد نمازِ فجر مدرسہ صولتیہ کے دیوان میں، جہاں حضرت شیخ کی مجلس ذکر ہوتی تھی، حضرت والا نے الفاظِ بیعت وتوبہ کہلوائے۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرلی تھی، اس لئے آپؒ کے نام کے ساتھ ’’مدنی‘‘لکھا جاتا ہے اور آپؒ مدینہ منورہ سے سہارن پور حضرت شیخ قدس سرہٗ کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضری دیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ بندہ نے حضرت قدس سرہٗ سے یکسو ہوکر صرف ذکر شغل کرنے کی اجازت چاہی تو فرمایا کہ: ’’معمولات کے اہتمام اور پابندی کے ساتھ تبلیغی کام میں بھی شرکت کرتے رہو‘‘۔     اور مزید لکھتے ہیں کہ :معاش کے سلسلہ میں مدینہ پاک میں دو ایک گھنٹے پارٹ ٹائم کے طور پر ٹائپ کا کام کرنے کی اجازت چاہی تو فرمایا:’’فی الحال تمہارے لئے کسی مشغلہ کی رائے نہیں،ہر شب جمعہ کو استخارہ اہتمام سے کرتے رہو‘‘۔ مزید فرمایا کہ:’’والدین سے جوکچھ ملتا ہے، اس میں تدبیر وانتظام کے ساتھ اپنی ضروریات پوری کرو، دوسروں کو جب تک عطایا وغیرہ نہ کرو جب تک اللہ کی طرف سے تم پر ہدایاکا دروازہ نہیںکھلے‘‘۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ اپنی خلافت کے احوال میں لکھتے ہیں: حسب معمول سحری شروع کی، سحر سے فراغ پر الحاج ابوالحسن آئے اور آواز دی کہ بھائی یحییٰ! حضرت یاد فرمارہے ہیں،بندہ معتکف میں حاضر ہوا، حضرت قدس سرہٗ سبز عمامہ باندھے ہوئے مراقب تھے، الحاج احمد ناخدا افریقی ثم مدنی مدظلہ العالی قریب میں بیٹھے ہوئے تھے اور دو زرد رنگ کے مصلے حضرت قدس سرہٗ کے سامنے رکھے ہوئے تھے، نیز پہنچنے پر حضرت قدس سرہٗ نے پوچھا کہ آگئے؟ اوراس کے بعد میرا اورالحاج احمد ناخدا صاحب کا ہاتھ پکڑا ، ارشاد فرمایا: ’’اللہ جل شانہٗ نے مجھے جو حسن ظن تم دونوں سے پیدا فرمادیا ہے، اس حسن ظن کے ساتھ تم دونوں کو بیعت کی اجازت دیتا ہوں‘‘۔ پھر ایک مصلی ہم دونوں کو عنایت فرمایااور یہ ارشاد فرمایاکہ: ’’یہ اس لئے تاکہ سلسلہ آگے چلے‘‘۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ فرماتے ہیں کہ :حضرت شیخ قدس سرہٗ جب طویل قیام کی نیت سے حجاز مقدس تشریف لائے تو دس ماہ آپ کا قیام رہا اور ان دس ماہ میں حضرت شیخ قدس سرہٗ کے ساتھ ہی رہنا ہوا۔ اس سفر میں حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ نے حضرت شیخ سے عرض کی کہ کالج کی تعلیم تو حاصل کی، اب علم دین پڑھنے کی خواہش ہے۔ آپ نے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی اور ایک روز اقدام عالیہ میں بسم اللہ کرائی۔ میں نے عرض کیا کہ سہولت سے تکمیل کی دعا بھی فرمادیں تو حضرت شیخ قدس سرہٗ نے فرمایا کہ: کردی۔ آپؒ نے ۱۹۷۰ء سے ۱۹۷۴ء تک جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہٗ کی شفقتیں اور عنایتیں خوب سمیٹیں۔ بخاری شریف حضرت بنوریؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ دینی تعلیم سے فراغ پر رمضان ۱۹۷۴ء میں مع اہل وعیال پھر مدینہ منورہ واپسی ہوئی اور حضرت شیخ قدس سرہٗ کی خدمت کے لئے ہر وقت کے حاضر باش ہوگئے۔ مجلس ذکر، مجلس عمومی، حرم شریف کی نشست اور خدمت میں شرکت روزانہ کا معمول بن گیا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تدریس کے بارہ میں لکھتے ہیں:’’افریقہ کے رمضان میں حضرت والا سے اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں کراچی قیام کے دوران جامعۃ العلوم الاسلامیہ میں تدریس کا مشورہ کیا، خوشی کا اظہار اوراجازت فرمائی۔ دوسال سے جامعہ میں ابتدائی مدرس کی خدمت پر مامور ہوا‘‘۔ اپنے ادارہ جامعہ معہد الخلیل الاسلامی کی ابتداء کا احوال کچھ یوںلکھتے ہیں: ’’کراچی میں اللہ تعالیٰ نے وسیع مکان عنایت فرمایا، جس میں انہی کے فضل اور توفیق سے ایک مدرسہ تحفیظ القرآن کھولا ہے، ان شاء اللہ! اس میں آگے ترقی ابتدائی کتب کی تدریس کرنے کا ہے، اللہ تعالیٰ آسان فرمائے‘‘۔(یہ معلومات ’’حضرت شیخ الحدیث اور ان کے خلفائے کرام ‘‘کتاب سے لی گئی ہیں) حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنیؒ نے اس ادارہ کی بنیاد، اخلاص، توکل اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے رکھی اور طے کیا کہ اس ادارہ میں شہری بچوں میں دین سے زیادہ دنیوی اور عصری تعلیم کی طرف رجحان ہوتا ہے، ان بچوں میں دین کا رجحان پیدا کرنے اور اُنہیں دین کی طرف راغب کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور ساتھ ہی طے فرمایا کہ اس دینی درس گاہ میں صرف دینی تعلیم ہی نہ ہوگی، بلکہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت، تزکیۂ نفس اور ذکر واذکار کی بھی عملی مشق ابتداء ہی سے کرائی جائے گی۔ الحمدللہ! حضرت نے اس پر عمل کرکے دکھایا۔اسی تعلیم وتربیت کا اثر ہے کہ حضرت کی تمام اولاد الحمد للہ! عالم باعمل اور حضرت کے لئے صدقۂ جاریہ ہے۔ آپؒ کے ادارہ میں اکثر اساتذہ آپ ہی کے تربیت یافتہ اور اس ادارہ سے فارغ التحصیل ہیں۔تحفیظ سے شروع ہونے والایہ مکتب اب جامعہ بن چکا ہے۔ طلبہ وطالبات ہر ایک کے لئے دورہ حدیث تک تعلیم کا انتظام ہے اور اسی کے ساتھ دارالافتاء کا بھی اجراء کیا گیا ہے، جس کے صدر حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے اس ادارہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائیں اور ہر قسم کے شرور وآفات اور بلیات سے اس کی حفاظت فرمائیں۔ حضرتؒ نے اپنے پسماندگان میں ۷؍بیٹے، ۵؍بیٹیاں جو ماشاء اللہ ایک کے علاوہ سب کے سب عالم وعالمات ہیں اور حضرتؒ کے خطوط پر دین کا کام کررہے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں ثابت قدمی عطا فرمائیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ دین کا کام لیں۔ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی حسنات کو قبول فرماکر آپ کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں، آپؒ کے تمام صدقاتِ جاریہ کو قبول فرمائیں، آپؒ کے اقربائ، اعزہ اور مسترشدین ومتوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ وصلی اللّٰہ علیٰ خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین