بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شبِ براء ت کے فضائل اور اس رات کی بدعات و رسومات 

شبِ براء ت کے فضائل 

اور اس رات کی بدعات و رسومات 

 


کچھ عرصہ بعدرمضان المبارک کی آمد ہو گی ،اس برکتوں والے ماہِ مبارک کے آنے سے قبل ’’شعبان المعظم‘‘میں ہی سرکارِ دو عالم a اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے، آپ a کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا۔ آپ a نے ’’رمضان المبارک ‘‘کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لیے ’’شعبان المعظم ‘‘کی پندرہویں رات اور اس دن کے روزے کی ترغیب دی ہے اوراس بارے میں صرف زبانی ترغیب پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ آپ a عملی طور پر خود اس میدان میں سب سے آگے نظرآتے ہیں، چنانچہ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی آپ a کی عبادات میں غیر معمولی تبدیلی نظر آتی، جس کا اندازہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ t کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپؓ فرماتی ہیں: ’’ما رأیتہٗ فی شھرٍ أکثر صیامًا منہ فی شعبان۔‘‘ کہ ’’میں نے آپ a کو شعبان کے علاوہ اور کسی مہینے میںکثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘ (صحیح مسلم ،رقم الحدیث:۲۷۷۷)
حضور پاک a کے ’’شعبان المعظم ‘‘میں بکثرت روزے رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزے رکھنے کو علامہ نووی v نے مسنون قرار دیا ہے،فرماتے ہیں: ’’ومن المسنون صوم شعبان۔‘‘ (المجموع شرح المہذب،ج:۶،ص:۳۸۶)
اس ماہ ِ مبارک کی پندرہویں شب کے بارے میں بہت کچھ احادیث میں مذکور ہے۔ زمانۂ ماضی اور موجودہ زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس رات کے بارے میں لوگ اِفراط وتفریط کا شکار نظر آتے ہیں، اس لیے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس رات کے فضائل، اس رات کے فضائل سے محروم ہونے والے افراداور اس رات کوہونے والی مروجہ بدعات ورسومات پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔سب سے پہلے اس رات کے بارے میں جناب ِرسول اللہa کے مبارک فرمودات ذکر کیے جائیں گے، اس کے بعد جمہور اسلاف وفقہائے اُمت، اہل سنت والجماعت کے نظریات واقوال ذکر کیے جائیں گے، تاکہ اس رات کے بارے میں شریعت کا صحیح مؤقف سامنے آجائے۔
شبِ براء ت کے بارے میں نبی اکرم a کے فرامین
۱:-’’عن أبی بکر الصّدیق رضي اللّٰہ عنہ عن النبي a قال: ینزل اللّٰہ إلی السماء الدنیا النصف من شعبان، فیغفر لکل شيء إلا رجل مشرک أو رجل في قلبہٖ شحناء۔‘‘           (شعب الایمان للبیہقی،رقم الحدیث:۳۵۴۶،ج:۵،ص:۳۵۷،مکتبۃ الرشد)
’’حضرت ابو بکر صدیقq نبی اکرم a سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’آپ a نے فرمایا کہ: اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمانِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نزولِ اجلال فرماتے ہیںاور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔‘‘
۲:-’’۔۔۔۔۔فقال رسول اللّٰہ a: أتدرین أي لیلۃ ھٰذہٖ؟ قلت: اللّٰہ ورسولہٗ أعلم، قال: ھٰذہ لیلۃ النصف من شعبان، إن اللّٰہ عزوجل یطلع علی عبادہٖ فی لیلۃ النصف من شعبان، فیغفر للمستغفرین ویرحم المسترحمین ویؤخر أھل الحقد کما ھم۔‘‘               (شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث:۳۵۵۴،ج:۵، ص:۳۶۱،مکتبۃ الرشد)
’’آپ a نے ارشاد فرمایا: (اے عائشہ!) جانتی بھی ہو یہ کونسی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ: اللہ اور اس کے رسول(a) ہی زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا: یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظرِ رحمت فرماتے ہیں ، اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں، اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر ہی چھوڑدیتے ہیں۔‘‘
۳:-’’عن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ a قال:إن اللّٰہ لیطلع فی لیلۃ النصف من شعبان، فیغفر لجمیع خلقہٖ إلا لمشرک أو مشاحن۔‘‘ 
                                          (سنن ابن ماجۃ،رقم الحدیث:۱۳۹۰،مکتبہ أبی المعاطی)
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری q رسول اللہ a سے روایت فرماتے ہیںکہ: ’’آپ a نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے۔‘‘
۴:-’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ a قال: یطلع اللّٰہ عزوجل إلٰی خلقہٖ لیلۃ النصف من شعبان، فیغفر لعبادہٖ إلا لاثنین: مشاحن وقاتل نفس۔‘‘                (مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:۶۶۴۲، ج:۲،ص:۱۷۶،عالم الکتب)
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصq سے روایت ہے کہ: ’’ رسول اکرم a نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں: ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا۔‘‘
مذکورہ ارشادات کے علاوہ اور بہت سی روایات میں اس رات کے فضائل وارد ہوئے ہیں، اس وقت ان سب کا جمع کرنا مقصود نہیں ،بس ایک خاص جہت سے ایک نمونہ سامنے لانا مقصود ہے۔ وہ خاص پہلو یہ ہے کہ مذکورہ احادیث میں جہاں عظیم الشان فضائل مذکور ہیں، وہاں بہت سے ایسے بدقسمت افراد کا تذکرہ ہے، جو اس مبارک رات میں بھی رب عزوجل کی رحمتوں اور بخششوں سے محروم رہتے ہیں۔ ذیل میں ان گناہوں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے، جو شبِ براء ت سے متعلق احادیث میں ذکر ہوئے ہیں:
۱:…مسلمانوں سے کینہ، بغض رکھنے والا۔ ۲:…شرک کرنے والا۔ ۳:…ناحق قتل کرنے والا۔ ۴:…بدکار ’’زنا کرنے والی‘‘ عورت۔ ۵:… قطع تعلقی کرنے والا۔ ۶:… ازار (شلوار، تہبند وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔ ۷:…والدین کا نافرمان۔ ۸:… شراب پینے والا۔
اللہ نہ کرے کہ ہمارے اندر اِن میں سے کچھ ہو، اور اگر کچھ ہو تو اس سے بروقت چھٹکارا حاصل کر لیں، جتنا جلد ہو سکے اور کم از کم شعبان کی پندرہویں رات سے پہلے پہلے توبہ کر کے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اکابرینِ اُمت کے اقوال
امام شافعیv فرماتے ہیں کہ: 
’’ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعاؤں کو قبول کیا جاتا ہے: جمعہ کی رات، عید الاضحی کی رات ، عید الفطر کی رات،رجب کی پہلی رات،اور شعبان کی پندرہویں رات۔‘‘                (شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث: ۳۴۳۸، ج:۵، ص:۲۸۷، مکتبۃ الرشد)
علامہ ابن الحاج مالکی v فرماتے ہیں کہ:
’’بڑی خیر والی رات ہے، اورہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے۔‘‘           (المدخل لابن الحاج، ج:۱، ص:۲۹۹)
علامہ ابن تیمیہ v کے شاگردابن رجب حنبلیv فرماتے ہیں کہ:
’’ شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان ؒوغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے،اوراس رات میں خوب عبادت کرتے۔‘‘                                      (لطائف المعارف:۱۴۴) 
علامہ ابن نجیمv فرماتے ہیں کہ:
’’اور مستحب ہے شعبان کی پندرہویں رات بیداری کرنا۔‘‘     (البحر الرائق، ج:۲،ص: ۵۲)
علامہ حصکفیv فرماتے ہیں کہ:
 ’’مستحب ہے شعبان کی پندرہویں رات عبادت کرنا۔‘‘     (الدر مع الرد، ج:۲، ص:۲۴،۲۵)
علامہ انور شاہ کشمیریv لکھتے ہیں کہ:
 ’’بے شک یہ رات شبِ براء ت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں۔‘‘                                                      (العرف الشذی، ص:۱۵۶)
شیخ عبد الحق محدث دہلویv لکھتے ہیں کہ:
’’اس رات بیداری کرنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے، یہی امام اوزاعیv کا قول ہے‘‘۔                             (ما ثبت بالسنۃ،ص:۳۶۰)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویv فرماتے ہیں کہ:
’’شبِ براء ت کی اتنی اصل ہے کہ پندرہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بزرگی اور برکت والا ہے۔‘‘                                      (بہشتی زیور،چھٹا حصہ،ص:۶۰)
کفایت المفتی میں ہے کہ:
’’شعبان کی پندرہویں شب ایک افضل رات ہے۔‘‘               (ج:۱، ص:۲۲۵،۲۲۶)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے کہ:
’’شبِ قدر و شبِ براء ت کے لیے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت، ذکر، تسبیح، دعاء و استغفار کی ترغیب دی ہے۔‘‘                         (ج:۳، ص:۲۶۳، جامعہ فاروقیہ کراچی)
شبِ براء ت کی رسومات اور بدعات
مسجدوں میں اجتماعی شب بیداری کرنا، مخصوص قسم کے مختلف طریقوں سے نوافل پڑھنا جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ نوافل وتسبیح کی جماعت کروانا، اسپیکر پر نعت خوانی وغیرہ کرنا، ہوٹلوں اور بازاروں میں گھومنا، حلوہ پکانے کو ضروری سمجھنا، خاص اس رات میں ایصالِ ثواب کو ضروری سمجھنا، قبرستان میں چراغ جلانا، اس رات سے ایک دن پہلے عرفہ کے نام سے ایک رسم، اس رات میں گھروں میں روحوں کے آنے کا عقیدہ، فوت شدہ شخص کے گھر جانے کو ضروری سمجھنا،کپڑوں کا لین دین، بیری کے پتوں سے غسل کرنا، گھروں میں چراغاں کرنا، گھروں اور مساجد کو سجانا، اور ان سب سے بڑھ کر اس رات میں آتش بازی کرنا۔ 
مذکورہ تمام اُمور شریعت کے خلاف ہیں، ان کا کوئی ثبوت نبی اکرم a ،صحابہ کرام ؓ اورسلف صالحینؒ سے نہیں ملتا، اس لیے ان تمام بدعات ورسومات کا ترک اور معاشرے سے اُن کو مٹانے کے لیے کوشش کرنا ہر ہر مسلمان پر بقدرِ وسعت فرض ہے۔ 
شبِ براء ت میں کرنے کے کام
آخر میںاس مبارک رات میں کرنے والے کیا کیا کام ہیں؟ ان کا ذکر کیا جاتا ہے، تاکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جا سکے:
۱:-نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔
۲:-اس رات میں عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو،گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا، بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔
۳:-اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنا اور ہر قسم کی رسومات اور بدعات سے اجتناب کرنا۔
۴:-اپنے لیے اور پوری اُمت کے لیے ہر قسم کی خیرکے حصول کی دعا کرنا۔
۵:-بقدرِ وسعت ذکر واذکار ،نوافل اور تلاوتِ قرآن پاک کا اہتمام کرنا۔
۶:-اگر بآسانی ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا۔
واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شبِ براء ت کا لازمی حصہ نہیں ،بلکہ ان کا ذکر محض اس لیے ہے کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے اس رات کی منکرات سے بچا جا سکے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین