بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت تحقیق وترجیح(روایۃً ودرایۃً)

رسول اللہ a کی تاریخِ ولادت تحقیق وترجیح(روایۃً ودرایۃً)

محققین کے نزدیک آپ a نو(۹) ربیع الاول کی ابتدا میں پیدا ہوئے، جو شمسی لحاظ سے ۲۰؍ اپریل ۵۷۱ء کا دن تھا۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ a ربیع میں پیدا ہوئے اور موسمِ ربیع ایشیاء میں اپریل کے مہینہ میں آتاہے، اس سے ثابت ہواکہ اپریل کا مہینہ تھا۔ کسی نے آپ a کی ولادت کاربیع میں ہونا یوں بیان کیاہے : یقول لنا لسانُ الحال منہ

 وقول الحق یَعذُب للسمیع فوجہی والزمان وشہر وضعی

ربیع   فی   ربیع   فی   ربیع                                  ( شرح الزرقانی علی المواہب،ج: ۱،ص:۲۵۷۔ سبل الہدیٰ والرشاد،ج:۱،ص:۳۳۴) تحقیقِ تاریخِ ولادت سال: ۔۔۔۔۔ یہ بات مسلّم ہے کہ رسول اللہ a کی ولادت باسعادت عام الفیل میں ہوئی تھی، اس پر سب ہی مؤرخین وسیرت نگار متفق ہیں۔حافظ ابن کثیر v (متوفیٰ:۷۷۴ھ) فرماتے ہیں: ’’ قال ابن إسحاق: وکان مولدہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عام الفیل، وہذا ہو المشہور عند الجمہور۔‘‘                             (البدایۃ والنہایۃ،ج: ۲،ص:۳۲۱) علامہ ابن الجوزی v (متوفیٰ: ۵۹۷ھ) فرماتے ہیں: ’’واتفقوا علٰی أن رسول اللّٰہ - صلی اللّٰہ علیہ وسلم -  ولد یوم الإثنین فی شہر ربیع الأول عام الفیل۔‘‘   (صفۃ الصفوۃ،ج: ۱،ص:۵۱ ۔ وینظر: الروض الأنف ،ج:۱،ص:۲۷۶) واقعۂ فیل کے کتنے دنوں بعد آپ aکی ولادت ہوئی؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں،مگر مشہور قول ۵۰؍دن کا ہے: ’’ولد عام الفیل ۔۔۔ فقیل: بعدہٗ بشہر ۔۔۔ وقیل: بخمسین یوما، وہو أشہر۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ ۲/۳۲۱) مہینہ:۔۔۔۔۔ اس سلسلہ میں علامہ قسطلانی v (متوفیٰ:۹۲۳ھ) نے چھ اقوال نقل فرمائے ہیں: ۱:۔۔۔۔ محرم، ۲:۔۔۔۔ صفر، ۳:۔۔۔۔ربیع الاول، ۴:۔۔۔۔ ربیع الآخر، ۵:۔۔۔۔ رجب، ۶:۔۔۔۔۔ رمضان، مگر جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ a کی ولادت ماہ ِربیع الاول میں ہوئی۔حافظ ابن کثیر v فرماتے ہیں: ’’ ثم الجمہور علی أنہ کان فی شہر ربیع الأول۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ،ج: ۲،ص:۳۲۰) ابھی ابن الجوزی v کی عبارت گزری، اس میں بھی ربیع الاول کی تعیین پر اتفاق نقل کیا گیا ہے۔  مشہورمحقق عالم علامہ محمد زاہد کوثری v نے تاریخ ولادت پر اچھی تحقیق فرمائی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ربیع الاول کے علاوہ کسی اور مہینہ کا قول علمائے ناقدین کے نزدیک سبقتِ ِقلم کی قبیل سے ہے: ’’وقد اتفق جمہرۃ النقلۃ علی أن مولدہٗ کان عام الفیل، وأنہٗ کان یوم الإثنین، وأن شہر مولدہٖ ہو شہر ربیع الأول، وذکرُ شہرٍ سواہ لمولدہٖ علیہ السلام لیس إلا من قبیل سبق القلم عند النقاد۔‘‘                 (مقالات الکوثری،ص:۴۰۵) دن:۔۔۔۔۔ اس بات پر بھی ارباب ِسیر وتاریخ کا اتفاق ہے کہ آپa کی ولادت پیر کے دن ہوئی۔ ’’ وفي الحدیث: وسئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن یوم الاثنین؟ قال: ذاک یوم ولدت فیہ، ویوم بعثت۔۔۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم:۱۱۶۲، باب استحباب ثلاثۃ أیام من کل شہر) ’’وقال ابن کثیر رحمہ اللّٰہ تعالٰی: وہذا ما لا خلاف فیہ أنہٗ ولد صلی اللّٰہ علیہ وسلم یومَ الإثنین۔‘‘                                                          (البدایۃ والنہایۃ،ج: ۲،ص:۳۱۹) تاریخ:۔۔۔۔۔ ماہِ ربیع الاول کی کونسی تاریخ میں آپ a کی پیدائش ہوئی تھی؟ اس کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی، مگر تاریخ کا تعین نہ ہوسکا، جب کہ جمہور فرماتے ہیںکہ تاریخ متعین ہے، پھر وہ کونسی تاریخ تھی؟ علامہ قسطلانی v (متوفیٰ:۹۲۳ھ) نے اس سلسلہ میں کل سات اقوال نقل فرمائے ہیں: ۱:۔۔۔۔۔ ربیع الاول کی دوسری،۲:۔۔۔۔۔ آٹھویں، ۳:۔۔۔۔۔ دسویں، ۴:۔۔۔۔۔ بارھویں، ۵:۔۔۔۔۔ سترھویں، ۶:۔۔۔۔۔اٹھارھویں، ۷:۔۔۔۔۔ بائیسویں ۔                            (المواہب اللَّدُنِّیَّۃ،ج:۱،ص:۱۴۰-۱۴۲) علامہ کوثریv فرماتے ہیں کہ:۱:۔۔۔۔آٹھویں تاریخ ختم ہونے کے بعد یعنی نویںتاریخ، ۲:۔۔۔۔۔ دسویںتاریخ،۳:۔۔۔۔۔ بارھویں تاریخ۔ ان تین اقوال کے علاوہ دیگر چار اقوال‘ مستند اور قوی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے قابل التفات نہیں۔ تواب کل بحث کامحور انہی تین روایات میں سے راجح کی ترجیح ہے۔ دسویں تاریخ کی روایت اس روایت کو ابن سعدv (متوفیٰ:۱۶۸ھ)نے محمد باقرv (متوفیٰ:۱۱۴ھ)کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن اس کی سند میں تین روات متکلم فیہ ہیں، اس لیے دس تاریخ والی روایت قابلِ ترجیح نہیں ہے۔ اس روایت کی طرف علامہ کوثری v نے اشارہ فرمایا ہے، وہ روایت طبقات سے نقل کی جاتی ہے: ’’قال ابن سعد : أنا محمد بن عمر بن واقد الأسلمی قال: ثني أبو بکر بن عبد اللّٰہ بن أبي سبرۃ عن إسحاق بن عبد اللّٰہ بن أبي فروۃ عن أبی جعفر محمد بن علی (ویعرف بمحمد الباقر) قال: ولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لِعشرٍ خَلَون من شہر ربیع الأول۔۔۔، فبین الفیل وبین مولد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خمس وخمسون لیلۃ۔‘‘             (الطبقات الکبریٰ لابن سعدؒ، ج: ۱، ص:۱۰۰، ذکر مولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) بارہویں تاریخ کی روایت اس قول کو محمد بن اسحاقv (متوفیٰ:۱۵۱ھ)نے نقل کیا ہے، مگراس کی کوئی سند نہیں بیان کی ، اگرچہ یہ قول سب سے زیادہ مشہور ہے اور دنیا بھر میں محافل ِمولود اور جلسے اسی دن کیے جاتے ہیں، مگرروایت سے اس دن ولادت ہونے کا ثبوت نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: مستدرک ِ حاکم (متوفیٰ:۴۰۵ھ) میں ہے: ’’أخبرنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن شبویہ بمرو، ثنا جعفر بن محمد النیسابوری، ثنا علی بن مہران، ثنا سلمۃ بن الفضل عن محمد بن إسحاق قال: ولد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شہر ربیع الأول۔‘‘                                 (المستدرک علی الصحیحین  للحاکم، رقم الحدیث: ۴۱۸۳)  یہ روایت بھی سند ِ متصل نہ ہونے کی وجہ سے قابل ِالتفات نہیں اور اس کا حال بھی ان روایات کی طرح ہے جن کی سند نہ ہو۔ نویں تاریخ کے قول کی ترجیح عقلاً اور نقلا ًاس بات کو ترجیح حاصل ہے کہ آپ aکی ولادت آٹھویں تاریخ کے ختم پر نویں تاریخ کو ہوئی۔ روایتاًترجیح ۱:۔۔۔۔۔ علامہ ابن عبد البرv (متوفیٰ:۴۶۳ھ) نے اس بارے میں اختلاف نقل کرتے ہوئے اس قول کو سب سے پہلے ذکرکیا ہے: ’’قال أبو عمر: وقد قیل: لثمانٍ خلون منہ ، وقیل ۔۔۔، وقیل۔۔۔‘‘ (الاستیعاب لابن عبد البر: ۱/۳۰)   ۲:۔۔۔۔۔ حافظ ابنِ کثیرvفرماتے ہیں : ’’ وقیل : لثمانٍ خلون منہ، حکاہ الحمیدي عن ابن حزم، ورواہ مالک وعقیل ویونس بن یزید وغیرہم عن الزہری عن محمد بن جبیر بن مطعم، ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاریخ أنہم صحَّحوہ، وقطع بہ الحافظ الکبیر محمد بن موسی الخوارزمی، ورجَّحہ الحافظُ أبو الخطاب بن دحیۃ فی کتابہ ’’التنویر فی مولد البشیر النذیرa۔‘‘                             (البدایۃ والنہایۃ ،ج:۲،ص:۳۲۰) ۳:۔۔۔۔۔ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحبv(متوفیٰ:۱۳۸۲ھ) تحریر فرماتے ہیں: عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول تھی، اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں، اور اکثر علماء ۸؍ ربیع الاول کہتے ہیں۔ لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ ۹؍ربیع الاول تاریخ ِولادت ہے، اور مشاہیر علمائے تاریخ اور حدیث اور جلیل المرتبت ائمۂ دین اسی تاریخ کو صحیح اور اثبت کہتے ہیں، چنانچہ حمیدی ، عقیل، یونس بن یزید، ابن عبد اللہ، ابن حزم، محمد بن موسی خوارزمی، ابو الخطاب ابن دحیہ، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ابن حجرعسقلانی، شیخ بدر الدین عینی (رحمہم اللہ اجمعین) جیسے مقتدرعلماء کی یہی رائے ہے۔                                       (قصص القرآن،ج: ۴،ص:۲۵۳) ۴:۔۔۔۔۔ علامہ سید سلیمان ندویv نے بھی نو(۹) تاریخ کو ولادت ہوناراجح قراردیا ہے۔ (رحمت للعالمین،ج:۱،ص:۳۸-۳۹) درایتاً /عقلاً ترجیح  ۱:۔۔۔۔۔ محمد بن موسی خوارزمیv (متوفیٰ:۲۳۵ھ) فلکیات کے بہت بڑے امام ہیں، ان کا حوالہ ابھی اوپر کی عبارت میںذکر کیا گیا۔ ۲:۔۔۔۔۔ فن ریاضی کے بہت بڑے عالم علامہ محمود پاشا فلکی مصریv (متوفیٰ:۱۳۰۲ھ) نے فرانسیسی زبان میں’’ تقویم العرب قبل الإسلام ‘‘کے موضوع پر ایک بے مثال کتاب تالیف فرمائی ہے، اور علامہ احمد ذکی پاشاv (متوفیٰ:۱۳۵۳ھ)نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے ،جس کانام ’’نتائج الأفہام فی تقویم العرب قبل الإسلام وفی تحقیق مولد النبی وعمرہٖ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ ہے۔ اس کتاب میں مشرق اورمغرب کے کئی ایک فلکی ماہرین کے اقوال کو مد نظر رکھ کر کی گئی تحقیق سے بھی نو (۹) تاریخ ہونا واضح ہے۔ (نتائج الأفہام، ص:۲۸-۳۵) ان کی بیان کردہ وجوہات میں سے ایک وجہ کچھ اس طرح ہے کہ: رسول اللہ a کے عہد ِمبارک میں سنہ۱۰ھ ماہ ِشوال کی آخری تاریخ کو سورج گہن ہواتھا، اُسی دن آپ aکے صاحبزادہ حضرت ابراہیم q کا انتقال ہواتھا: ’’قال الحافظؒ (م:۸۵۲ ھ) : یوم مات إبراہیمؓ یعنی ابنَ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقد ذکر جمہور أہل السیر أنہ مات فی السنۃ العاشرۃ من الہجرۃ، فقیل: ۔۔۔ والأکثر علٰی أنہا وقعت فی عاشر الشہر۔‘‘     (فتح الباری،ج: ۲،ص:۵۲۹) اس حساب سے اگر پیچھے شمار کیا جائے تو ربیع الاول کی نویں تاریخ کوآپ a کی ولادت بابرکت ہونا ثابت ہوگا، اس لیے کہ پیر کا دن یومِ پیدائش ہونا تو متفق علیہ ہے،اور وہ عام الفیل کے ربیع الاول میں نو (۹)تاریخ ہی کوآتا ہے۔ علامہ محمود پاشا v فرماتے ہیں: ’’وقد اتفقوا جمیعا علی أن الولادۃ کانت فی یوم الإثنین، وحیث إنہ لا یوجد بین الثامن والثانی عشر من ہذا الشہر یوم إثنین سوی الیوم التاسع منہ، فلا یمکن أن نعتبر یوم الولادۃ خلاف ہذا الیوم۔‘‘ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحبv تحریر فرماتے ہیں: ’’محمود پاشا فلکیؒ نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گزراہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد a کے زمانے سے اپنے زمانے تک کے کسوف اور خسوف کا صحیح حساب معلوم کرے، پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیاہے کہ سن ِولادت باسعادت میں کسی حساب سے بھی دو شنبہ کا دن ۱۲؍ ربیع الاول کو نہیں آتا، بلکہ ۹ ربیع الاول ہی کو آتاہے، اس لیے بلحاظِ قوت وصحت ِروایات اور باعتبار ِحساب ِہیئت ونجوم ولادت مبارکہ کی مستند تاریخ ۹ ؍ربیع الاول ہے۔                    (قصص القرآن،ج: ۴،ص:۲۵۳) ۳:۔۔۔۔۔ مذکورہ بالا کتاب ’’نتائج الأفہام فی تقویم العرب قبل الإسلام وفی تحقیق مولد النبي وعمرہٖ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ کے ایک ایڈیشن پراپنے زمانے کے عظیم ونامور مؤرخ وادیب شیخ علی طنطاوی ؒ(متوفیٰ:۱۴۲۰ھ) نے مقدمہ لکھا ہے، جس میں آپ نے نو(۹) ربیع الاول کوولادت با سعادت کادن قراردینے پر مؤلف ِکتاب کی پرزور تائید فرمائی ہے۔ (مقدمات الطنطاوی،ص: ۸۳) ۴:۔۔۔۔۔ محدث ِعظیم ومحققِ بے نظیر شیخ احمد شاکر ( احمد بن محمد عبدالقادر،متوفی: ۱۳۷۷ھ) نے بھی شیخ محمود پاشا فلکی کی تحقیق کواختیار کرکے اس سے کسوف ِشمس کی تعیین میں مدد لی ہے۔ (حاشیۃ الشیخ احمد شاکر علی ’’المحلّٰی بالآثار‘‘ ج:۵، ص:۱۱۴-۱۱۵ ، لابن حزم الظاہری، متوفی: ۴۵۶ھ) ۵:۔۔۔۔۔سعودی عرب کے ایک محقق وماہرِ فلکیات عالم عبد اللہ بن محمد بن ابراہیمv (متوفیٰ:۱۴۱۶ھ) اپنی کتاب ’’تقویم الأزمان‘‘میںتحریرفرماتے ہیں: ’’وقد ثبت بما لا یحتمل الشک من النقل الصحیح أن ولادتہٗ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- کانت فی ۲۰؍ نیسان ابریل سنۃ ۵۷۱ء عام الفیل ۔۔۔ فبالإمکان معرفۃ یوم ولادتہٖ ویوم وفاتہٖ بالدقۃ ۔۔۔ وعلٰی ہذا فتکون ولادتہٗ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یوم الإثنین، الموافق ۹ ربیع الأول سنۃ ۵۳ قبل الہجرۃ ویوافق ۲۰ ؍ نیسان ابریل سنۃ ۵۷۱ء نقلا وحساباً۔‘‘ (تقویم الأزمان لإرشاد ذوی الألباب لمعرفۃ مبادئ السنین والشہور من طریق الحساب، ص: ۱۴۳، الطبعۃ الأولی) مزید دیکھئے!۱:۔۔۔۔۔ ایک مفصل مضمون بعنوان ’’تحدید میلادہٖ الشریف‘‘ ہمارے یہاں موجود کتاب ’’ماشاع ولم یثبت فی السیرۃ النبویۃ‘‘ تألیف: محمد بن عبد اللہ العوشن، ط : دار طیبۃ، الریاض میں بھی مذکور ہے، جس میں شیخ عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم کی مذکورہ عبارت کے علاوہ دیگر علمائے کرام کے اقوال کی روشنی میں ۹؍تاریخ ہونا راجح قراردیا ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔ علامہ محمد زاہد کوثری v (متوفیٰ:۱۳۷۱ھ)کا ایک مختصر اورمحقق مقالہ بعنوان ’’المولد الشریف النبوی‘‘  اس موضوع پر شائع ہوا ہے۔ انہوں نے بھی محمود پاشا فلکیؒ کی مذکورہ کتاب سے استفادہ کیا ہے اور مؤلف کے بارے میں اونچے کلمات تحریر فرمائے ہیں۔ (دیکھئے:مقالات الکوثری، ص:۴۰۵ تا ۴۰۸، ط: مطبعۃ الأنوار بالقاہرۃ) ۳:۔۔۔۔۔ حضرت مولانا مفتی عمر فاروق لوہاروی دامت برکاتہم، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یو -کے) کاایک مضمون بعنوان ’’رسول اللہ a کی تاریخِ ولادت‘‘ ان کے بیش قیمت محقق ومدلل رسائل ’’فقہی جواہر‘‘ (ج: ۱،ص:۶۸تا۷۱) میں موجودہے۔ ان رسائل پراکابر علماء کی تقریظات ہیں، جن میں ایک حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم بھی ہیں۔ تنبیہ: ۔۔۔۔۔ بعض علماء نے آٹھویں تاریخ کا قول اختیار کیا ہے، تو یاد رہے کہ آٹھویں اور نویں تاریخ کے دو اقوال میں ترجیح دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تطبیق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب v کی ہے ،وہ یہ ہے کہ آٹھ(۸) اور نو (۹)ربیع الاول کا اختلاف حقیقی نہیں۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں: ’’۸ اور ۹ کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں، بلکہ مہینے کے ۲۹ ؍اور ۳۰ کے حساب پر مبنی ہے، اور جب کہ حساب سے ثابت ہوگیا کہ صحیح تاریخ ۲۱؍ اپریل تھی تو آٹھ(۸) کے متعلق تمام اقوال دراصل نو(۹) کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔‘‘              (قصص القرآن،ج: ۴،ص:۲۵۴) وقت:۔۔۔۔۔کتب ِسیرت میں اس بات کی صراحت ہے کہ آپ a کی ولادت صبح صادق کے وقت ہوئی، اور مکہ مکرمہ میں ۲۰؍ اپریل کو (۳۹:۴) پر صبح صادق ہوتی ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ آپ a  ۹؍ ربیع الاول عام الفیل، ۲۰؍ اپریل ۵۷۱ء بروز پیر ،بوقت صبح تقریباً ۴ بج کر ۴۰ منٹ پر اس دنیا میں تشریف لائے۔ مذکورہ بالا تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ نقلا ً و عقلاً آپ a کی ولادت کی معتمد تاریخ نو(۹) ربیع الاول ہے۔ ’’ویتلخص من ہذا أن سیدنا محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولد یوم الإثنین ۹؍ من ربیع الأول، الموافق العشرین من إبریل سنۃ ۵۷۱ مسیحیۃ، فاحرص علٰی ہذا التحقیق، ولا تکن أثیراً للتقلید۔‘‘     (نتائج الأفہام فی تقویم العرب قبل الإسلام، ص: ۳۵) مکان ِولادت جمہور کے نزدیک مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی۔پھر جگہ کی تعیین میں تین اقوال ہیں: مشہور قول یہ ہے کہ آپ aکی ولادت شعب ِبنی ہاشم میں ہوئی۔ یہ مشہور جگہ ہے اور چند سال پہلے تک لوگ اس کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ چند سال پہلے سعودی حکومت نے اسے بند کردیا اور اس کی جگہ مکتبہ بنادیا۔ ’’فی الدار التي فی الزقاق المعروف بزقاق المولد فی شعب مشہور بشعب بنی ہاشم۔‘‘                                         (سبل الہدی والرشاد ،ج:۱،ص:۳۳۸) ’’من الطرف الشرقی لمکۃ، تزار ویتبرک بہا إلی الآن۔‘‘                                            (تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس،ج: ۱، ص:۱۹۸) واللّٰہ تعالٰی أعلم وعلمہٗ أتم وأحکم، وصلی اللّٰہ علٰی النبی الأمی الکریم وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین