بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

رحمتوں اور برکتوں کا موسمِ بہار!


رحمتوں اور برکتوں کا موسمِ بہار!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو جسم اور روح دو چیزوں کا مرکب بنایا اور ہر ایک کی حیات و دوام کے لیے اس کے مناسب رزق اور غذا کا انتظام کیا۔ روح آسمان سے آئی، اس کی بقا، صحت، آبیاری اور تروتازگی کا سامان بھی اوپر سے آیا۔ جسم مٹی سے بنایا گیا، اس کی حفاظت، بود و باش، خوراک اور علاج کی تمام تر سہولیات اسی زمین میں ودیعت رکھی گئیں۔ دونوں کی مناسب دیکھ بھال، نشوونما اور حفاظت ہر انسان پر لازم اور ضروری ہے۔
جسم مٹی سے بنا ہے، اس نے ایک دن مٹی ہونا ہے۔ روح امرِ ربی ہے، اس نے ایک دن اپنے رب کی طرف لَوٹنا ہے۔ روح کے طاقت ور ہونے سے جسم بھی طاقت پکڑتا اور محفوظ ہوتا ہے، لیکن جسم کے طاقت ور اور قوی ہونے سے روح کبھی طاقت ور اور مضبوط نہیں ہوتی۔ 
اس دنیا میں ہمارا جسم غالب اور روح مغلوب نظر آتی ہے، لیکن آخرت میں روح غالب اور جسم مغلوب ہوگا۔ ایک مسلمان، مومن، فرماںبردار، صادق، صابر، اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کرنے والا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے والا، روزہ دار، عفت مآب اور اپنے رب کو یاد رکھنے والا وہ اس پر ایمان رکھتا ہے کہ یہ دنیا عارضی اور کھیل تماشا ہے، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ جو وہاں کامیاب ہوا‘ وہ حقیقی کامیاب ہے اور جو وہاں ناکام ہوا‘ وہی حقیقت میں ناکام و نامراد ہے۔
انسان کو ناکام و نامراد کرنے کے لیے ایک طرف شیاطین اور اس کے آلۂ کار ہمہ وقت اور ہمہ جہت مصروفِ عمل اور کارِ مسلسل میں ہیں۔ 
شیطان نے حضرت آدمk کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُسے راندۂ درگاہ کیا تو اس نے کہا تھا: 
’’لَأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَأٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَائِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ۔‘‘             (الاعراف:۱۶،۱۷)
’’میں بھی ضرور بیٹھوں گا ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر، پھر ان پر آؤں گا ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور نہ پائے گا تو اکثروں کو ان میں شکرگزار۔‘‘
اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ راہِ ہدایت اور صراطِ مستقیم کی طلب اور استقامت کا حکم دیا ہے: 
’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔‘‘ (الفاتحہ:۶،۷)
’’بتلا ہم کو راہ سیدھی، راہ ان لوگوں کی جن پر تونے فضل فرمایا۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو متنبہ اور خبردار کیا کہ: 
’’إِنَّ الشَّیْْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا إِنَّمَا یَدْعُوْ حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِیْرِ۔ ‘‘                                                              (الفاطر: ۶)
’’تحقیق شیطان تمہارا دشمن ہے، سو تم بھی سمجھ رکھو اس کو دشمن ، وہ توبلاتا ہے اپنے گروہ کو اسی واسطے کہ ہوں دوزخ والوں میں۔‘‘
انسان کو ورغلانے اور پھسلانے کے لیے شیطان کا ایک مؤثر ہتھیار اور اسلحہ‘ دنیا کی رنگینی دکھانا اور آخرت کے متعلق غفلت میں ڈالنا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ۔‘‘(فاطر:۵)
’’اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے، سو نہ بہکائے تم کو دنیا کی زندگانی اور نہ دغادے تم کو اللہ کے نام سے وہ دغاباز۔‘‘
اس شیطانی تأثر کی وجہ سے دنیا کی حقیقت اور بے ثباتی ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے، دلوں پر غفلت چھا جاتی ہے، صحیح اور غلط کا امتیاز مٹ جاتا ہے، ایمان کمزور ہوجاتا ہے، اعمالِ صالحہ کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے غفلت کو دور کرنے کے لیے بندوں کے ضعفِ ایمان اور ناکارہ اعمال کو از سرِ نو قوی اور کامل بنانے کے لیے رمضان المبارک کے چند گنتی کے دن عطا فرمائے، تاکہ انسان متقی اور فلاح یاب ہوجائے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: 
’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ۔‘‘                                        (البقرۃ:۱۸۳،۱۸۴)
’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے ۔‘‘
یعنی روزہ کا مقصودِ اصلی تقویٰ کا حصول ہے، جس کے سبب اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوتا ہے اور سب مادی و طاغوتی طاقتیں حق تعالیٰ کے سامنے پاش پاش ہوجاتی ہیں، تقویٰ کی وجہ سے ہر قسم کی فلاح بندہ کو نصیب ہوتی ہے۔ جس کے دل میں تقویٰ ہے، اس کے اوپر کسی کا تسلُّط نہیں چلتا، نہ نفس کا، نہ شیطان کا، نہ باغیوں کا۔ تقویٰ مؤمن کے لیے ڈھال ہے۔ عبادت کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے، اس کے ساتھ ایک تعلق قائم کرتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہروقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ قوت وطاقت کی اصل روح تعلق مع اللہ ہی ہے، جس کا تعلق رب العالمین اور احکم الحاکمین سے مضبوط ہو اس کی طاقت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس تعلق اور نسبت کو پیدا کرنے اور بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ظاہری اور باطنی تمام احکامات پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہے، جن میں سے ایک ذریعہ روزہ بھی ہے، جیسا کہ آپ a کا ارشاد ہے: ’’الصوم لی وأنا أجزی بہٖ‘‘۔۔۔ ’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اَجر اور جزا ء میں خود دوں گا۔‘‘ محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ لکھتے ہیں:
’’اس زمانہ کے نو تعلیم یافتہ لوگ کہتے ہیں کہ دین کو ظاہری ترقی سے کیا تعلق ہے؟! گویا بالفاظِ دیگر دین کی پابندی کو دنیاوی ترقیات میں حائل سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کی اس بے سروپا بات پر مجھ کو یہ واقعہ یاد آجاتا ہے کہ: ’’ایک طبیب نے بادشاہ کو امراضِ چشم کے لیے کفِ پا میں مہندی لگانے کو بتایا، اس پر خواجہ سرا صاحب سے صبر نہ ہوسکا اور ناقدانہ انداز میں بولے کہ: جناب حکیم صاحب! کفِ پا اور چشم میں کیا تعلق ہے؟ طبیب نے فوراً منہ توڑ جواب دیا کہ: کفِ پا اور چشم میں وہی تعلق ہے جو خصیتین اور داڑھی میں ہے، یعنی یہ تو تجھے بھی تسلیم بلکہ مشاہدہ ہے کہ اگر خصیے نکال دیئے جائیں تو داڑھی نہیں نکلتی ہے اور اس تعلق کو تو کھلی آنکھوں اپنی ہی ذات میں دیکھ رہا ہے تو کف پا و چشم کے تعلق پر کیوں اعتراض و تعجب ہے؟! تو جیسے خواجہ سرا صاحب کی سمجھ میں کفِ پا و چشم کا تعلق نہیں آیا تھا، ایسے ہی ہمارے جدید تعلیم یافتہ نوجوان کی سمجھ میں دین اور ترقی کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا، حالانکہ یہ تعلق اس تعلق سے بہت زیادہ ظاہر ہے۔ صدیوں تک مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ کفار نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ دین کی پابندی نے مسلمانوں پر ہر قسم کی ترقیات کے دروازے کھول دیئے ہیں، اور مسلمانوں نے (جب سے) دین کی پابندی چھوڑنا شروع کردی ادھر ترقی نے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘                       (بصائر و عبر، ج:۲، ص:۴۳۴،۴۳۵)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ویسے تو دنیا و آخرت کی صلاح وفلاح کے لیے ہمیں چند فرائض و حقوقِ واجبہ کا مکلف بنایا ہے، مگر اس ماہِ مبارک میں چند نوافل و مستحبات کے اضافہ کے ساتھ ہمیں زیادہ سے زیادہ حلاوتِ ایمانی، اعمال کی پاکیزگی اور اپنی حصولِ رضا کا موقع عطا فرمایا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے اُمتِ محمدیہ(l) پر اس لیے یہ احسان و انعام فرمایا کہ ان کے محبوب a اپنی امت کے فائز المرام ہونے پر خوش ہوجائیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس اعلان کا مصداق بنیں کہ :
’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔‘‘
’’اور آگے دے گا تجھ کو تیرا رب، پھر تو راضی ہوگا۔‘‘
اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس ماہِ مبارک کے تمام لمحات ایسے گزاریں جو اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول a کے نزدیک مقبول اور پسندیدہ ہیں، یعنی اس بات کا اہتمام کہ اعمالِ صالحہ کی کثرت کریں گے اور اس بات کی احتیاط کہ تمام ظاہری و باطنی گناہوں سے بچیں گے۔حضور اکرم a رجب کا چاند دیکھتے ہی ماہِ رمضان کی طلب اور تمنا میں لگ جاتے تھے، جیسا کہ آپ a کی ایک دعا ہے:
 ’’اللّٰہم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان۔‘‘
ترجمہ: ’’ اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچادیجیے۔‘‘
آپ a شعبان المعظم میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، پھر آپ a نے شعبان المعظم کے آخری دنوں میں رمضان کے متعلق ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں رمضان کی فضیلت، اہمیت کے ساتھ ساتھ چند اہم کاموں اور باتوں کا حکم دیا، فرمایا کہ: عظمت اور برکت والا مہینہ آرہا ہے، جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس ماہ میں ایک نفل فرض کے برابر اور ایک فرض ستر فرائض کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے۔ اس میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ روزہ افطار کرانے کا اجرو ثواب، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی اور روزہ دار کے برابر روزہ افطار کرانے والے کو ثواب کی صورت میں ملتا ہے۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت، تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ رمضان المبارک میں ملازم سے کام ہلکا لینے کی سفارش فرمائی ہے۔ آپ a نے رمضان میں چار کام کرنے کا حکم فرمایا ہے: ۱:- ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی کثرت، ۲:-استغفار کی کثرت، ۳:- جنت کا سوال، ۴:- جہنم سے پناہ۔ 
رمضان شریف میں دو عبادتیں سب سے بڑی ہیں: ۱:- کثرت سے نمازیں پڑھنا، اس میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے، اس کے علاوہ تہجد ، اشراق، چاشت اور اوابین کا خاص طور پر اہتمام ہونا چاہیے، حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی قدس سرہٗ فرماتے تھے کہ: یہ تراویح بڑی عجیب چیز ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو روزانہ عام دنوں کے مقابلہ میں زیادہ مقاماتِ قرب عطا فرمائے ہیں، اس لیے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں، جن میں چالیس سجدے کیے جاتے ہیں اور ہر سجدہ میں اللہ تعالیٰ کے قرب کا اعلیٰ ترین مقام ہے کہ اس سے زیادہ اعلیٰ کوئی اور مقام نہیں ہوسکتا۔ 
۲:- اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کی کثرت کرنا چاہیے اور یہ تلاوتِ قرآن کئی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ جب ایک آدمی دل میں عقیدت، عظمت و محبت اور یہ خیال کرکے تلاوت کرتا ہے کہ اللہ پاک سے ہم کلامی کی سعادت حاصل ہورہی ہے تو یہ دل کی عبادت ہے۔ زبان بھی تکلم کرتی ہے، یہ زبان کی عبادت ہے۔ کان سنتے جاتے ہیں، اور آنکھیں کلام الٰہی کی عبارت کے نقوش کی زیارت کرتی ہیں۔ تو گویا تلاوت کے وقت کئی اعضاء شریک ہوتے ہیں اور ان تمام اعضاء کو عبادات میں جداگانہ ثواب ملتا ہے، ان اعضاء کا اس سے زیادہ اور کیا صحیح مصرف ہوسکتا ہے اور یہ سعادتیں ہی نہیں، بلکہ ان میں تجلیاتِ الٰہی مضمر ہیں۔ نور حاصل ہوتا ہے اور نور کے معنی روشنی کے نہیں، بلکہ طمانیتِ قلب اور اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا کے ہیں۔
جب تلاوت سے تکان ہونے لگے تو قرآن کریم بند کردیں اور پھر چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے کلمہ طیبہ کا ورد رکھیں، دس پندرہ مرتبہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ تو ایک بار ’’محمد رسول اللّٰہ‘‘ پڑھتے رہیں۔ ان متبرک ایام میں اگر ذکر اللہ کی عادت ہوگئی تو پھر ان شاء اللہ! ہمیشہ اس میں آسانی ہوگی۔
اسی طرح حضور اکرم a پر درود شریف کی بھی کثرت رکھیں، جن کی بدولت ہمیں یہ سب دین و دنیا کی نعمتیں مل رہی ہیں۔ استغفار کی کثرت کریں، یعنی اللہ تعالیٰ کی طاعات وعبادات میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ اس طرح ایک مومن روزے دار کی ساری ساعتیں عبادت میں شمار کی جائیں گی۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی قدس سرہٗ کا ملفوظ ہے کہ اگر توفیق و فرصت مل جائے تو بڑے کام کی بات بتارہا ہوں، تجربہ کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ نمازِ عصر کے بعد مسجد میں بیٹھے رہیں اور اعتکاف کی نیت کرلیں، قرآن کریم پڑھیں، تسبیحات پڑھیں اور غروبِ آفتاب سے پہلے ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم ‘‘ اور کلمۂ تمجید ’’سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلٰہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر‘‘ پڑھتے رہیں اور قریب روزہ کھولنے کے خوب اللہ پاک سے مناجات کریں اور اپنے حالات و معاملات پیش کریں، دنیا کی دعائیں مانگیں۔ اس ماہِ مبارک میں ہر نیک عمل کا ستر گنا ثواب ملتا ہے، چنانچہ جہاں عبادات وغیرہ ہیں وہاں اس ماہِ مبارک میں صدقہ و خیرات اپنی حیثیت کے مطابق خوب کرنا چاہیے، اپنی حیثیت کے مطابق جس قدر ممکن ہو‘ یہ سعادت بھی حاصل کریں۔
اسی طرح اپنے مرحوم اعزہ و آباء و اجداد اور احباب کے لیے ایصالِ ثواب کرنا بھی بڑے ثواب کا کام اور بہترین صدقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے بعد والدین کے حقوق ہم پر واجب فرمائے ہیں، انہوں نے ہمیں پالا، ہماری پرورش کی، دعائیں کیں، راحت پہنچائی ،ان کا بہت بڑا حق ہے، کیونکہ والدین کو اللہ تعالیٰ نے مظہرِ ربوبیت بنایا ہے، اس عملِ خیر کا ثواب ہمیں بھی اتنا ہی ملے گا جتنا ہم اُنہیں ہدیہ کررہے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ ملے گا، کیونکہ یہ ہمارا ایثار ہے اور اس کا بہت بڑا اجرو ثواب ہے۔
اس رمضان المبارک میں ہمیں اس بات کی طرف بھی غور کرنا ہے کہ میں نے اپنا ایمان اور اسلام ٹھیک کرنا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارے ایمان کا، ہمارے دین کا، ہمارے اسلام کا، ہمارے رب اور ہمارے نبی a کا ہم سے کیا مطالبہ ہے؟! ہم مسلمان ہیں تو کس صورت میں؟! اور مومن ہیں تو کیسے مومن ہیں؟! اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ a نے ہمیں کیا بتایا ہے؟! اس کی کیا تشریح کی ہے کہ ایمان والے کون ہوتے ہیں اور مسلم کیسے ہوتے ہیں؟! ورنہ دنیا اور آخرت کے بڑے خسارے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ آج ہم اپنی خواہشات کے بندے بنے ہوئے ہیں، نہ قرآن کو دیکھتے ہیں ، نہ اللہ کے رسولa کی تعلیمات کا خیال ہے۔ سب کے سب شعورِ ایمانی اور شعائرِاسلام سے بے گانہ ہوئے جارہے ہیں۔بھائی! آخرت کا معاملہ بڑا سنگین ہے، جہالت میں پڑکر مطمئن نہیں رہنا چاہیے۔ 
اب جائزہ لیجئے کہ دین کے ہر شعبے میں ہم کس قدر فرائض و واجبات ادا کررہے ہیں اور کس قدر گناہوں سے بچ رہے ہیں۔ دین کے پانچ اجزاء ہیں: عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات۔ انہیں پانچ شعبوں سے متعلق احکاماتِ الٰہیہ کا نام دین ہے، جس پر ہم سب کو عمل کرنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے انتہا فضل و کرم ہے کہ ہمیں نبیِ رحمت a کے توسل سے رمضان المبارک کی صورت میں وہ دولت گراں قدر حاصل ہے کہ عالمِ امکان میں کسی اُمت کو حاصل نہیں۔اس لیے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کی تمام ساعات اور لمحات کو قیمتی بنانا چاہیے۔

 وصلٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین