بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دین اسلام کی امتیازی خصوصیات

دین اسلام کی امتیازی خصوصیات

    کون نہیں جانتا کہ اسلام میںغیبت گناہِ کبیرہ ہے اوریہ ایسا گناہ ہے جس کاذکرقرآنِ کریم نے کیاہے اورایک عجیب وغریب مثال سے اس کی قباحت وشناعت واضح فرمائی ہے۔ ظاہر ہے کہ غیبت میں کوئی خلاف واقعہ بات نہیں ہوتی ہے، بلکہ جو کمز وری کسی انسان میں ہو، اس کاذکراس کی غیرموجودگی میںکرناغیبت کہلاتا ہے۔ وہ بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ خود حق تعالیٰ قرآن کریم میں اس کا ذکرفرماتاہے اورمسلمانوں کو اس سے منع فرماتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جھوٹ گناہِ کبیرہ ہے اورجھوٹی بات کہنا منافقت کی علامت بتلائی گئی ہے۔     منافق وہ شخص ہے جس کی زبان پر اسلام کا دعویٰ ہو اور دل میں کفر چھپا ہوا ہو، کون نہیں جانتا کہ ’’افترائ‘‘ یعنی کسی پر جھوٹی بات لگاناجھوٹا الزام لگادینا گناہ کبیرہ ہے اور یہی افتراء اگر حد سے بڑھ جائے کہ لوگ سن کر مبہوت ہوجائیں تو ’’بہتان‘‘ کہلاتا ہے اور وہ گناہ کبیرہ ہے۔ غرض غیبت، کذب، افترائ، بہتان، تمام کے تمام معاصی کبیرہ ہیں اور ان کے مرتکب کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ اسلام نے مسلمانوں میں عالمگیر اُخوت قائم کی ہے: ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ ۔‘‘(الحجرات:۱۰) ’’ مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ اور اسلامی اُخوت کے بارے میں احادیثِ نبویہ میں عجیب عجیب حقائق بیان فرمائے گئے ہیں، ایک مسلمان کے د وسرے مسلمان پر کیا حقوق ہیں؟ فرمایا ہے نبی کریم a نے کہ:  ’’مسلمان مسلمان کابھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے، نہ اسے دشمن کے حوالے کرے، بوقت ِحاجت اس کی امداد کرے، اگر کوئی گناہ کرے تو اس کی پردہ پوشی کرے اور جو مسلمان، مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا حق تعالیٰ شانہ‘ دنیا وآخرت دونوں میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘ (الصحیح لمسلم،کتاب البروالصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ج:۲، ص:۳۲۰، ط:قدیمی)     اور فرمایاکہ: ’’ مسلمانوں کی مثال ہمدردی وغم خواری میں ایک جسد کے اعضاء کی طرح ہے، اگر ایک عضو درد میں مبتلا ہو تو تمام بدنِ انسانی بے چین رہتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الآداب،باب رحمۃ الناس والبھائم، ج:۲، ص:۸۸۹،ط:قدیمی)     اور فرمایا کہ: ’’ مسلمان تب مسلمان ہوگاکہ جو چیز خود اپنے لیے پسند کرے وہی مسلمان بھائی کے لیے پسند کرے۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحب لاخیہ مایحب لنفسہ، ج:۱، ص:۶،ط:قدیمی)     اور فرمایاکہ:’’مسلمان وہ ہے کہ مسلمان اس کی ایذاء رسانی سے محفوظ رہیں۔‘‘ (صحیح البخاری،کتاب الایمان، باب أی الاسلام أفضل، ج:۱،ص:۶،ط:قدیمی)     کہاں تک بیان کیا جائے، مسلمان جب مسلمان سے ملے تو ’’السلام علیکم‘‘ کہے۔ اور مسلمان کو چھینک آئے تو فوراً ’’یرحمک اللّٰہ‘‘ کہے کہ اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمت ہو۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ غرض قرآن، احادیث نبویہ میں اتنی تفصیلات ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔     یہ ہیں دینِ اسلام کی وہ امتیازی خصوصیات کہ کوئی دین ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مسلمان کااکرام واعزاز کرنا اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ہے۔ مسلمان کی خیر خواہی، اس کی نصرت، اس کی ہمدردی، اس پر نیک گمان کرنا، وغیرہ وغیرہ، یہ دینِ اسلام کی وہ باتیں ہیں کہ تہذیب کی مدعی قومیں اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔  جدید تہذیب کی برکات     افسوس کہ آج کل بالخصوص پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اسلامی اخوت اورمسلمانی کی وہ دھجیاں بکھیری جارہی ہیںکہ سن کر عقل حیران ہے۔ جھوٹ، غیبت، بہتان طرازی، افتراء پردازی کون ساوہ گناہ ہے جو برسر بازار بڑے بڑے عظیم الشان اجتماعات میں نہیں کیا جاتا۔ ایک طوفان بدتمیزی ہر محفل میں برپاہے، نہ کسی کی آبرو محفوظ ہے،نہ کسی کی جان محفوظ، مال ودولت کو بری طرح سے بہایا جارہا ہے، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے، غرض کون سی بد تہذیبی ہے جس کامظاہرہ نہ ہورہا ہو۔     یہ ہے یو رپ کی تہذیب، یہ ہے مغرب کا تحفہ، یہ ہیں مغرب زدگی کے کارنامے۔ پھر ہر شخص ہر فریق کی زبان پر یہ دعویٰ کہ ہماری جماعت کی کامیابی سے اسلام کا یہ فائدہ ہوگا، مسلمانوں کو یہ نفع پہنچے گا، آئندہ ہم اگر کامیاب ہوئے تو یہ کریں گے اور وہ کریں گے،حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یَا أَیُّھَاالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَاتَفْعَلُوْنَ ،کَبُرَمَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ۔‘‘                                                  (الصف:۲،۳) ’’اے ایمان والو! ایسی بات تم کیوں کہتے ہو جو نہیں کرتے؟ حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی ہے یہ بات کہ جو کہتے ہو کرتے نہیں۔‘‘     یہ ہے تہذیب جدید کی پیداوار اور اس قسم کے انتخابات سے یورپ کی جمہوریت جنم لیتی ہے، جس کا حشر ملک ۳۰ برس سے دیکھ رہا ہے کہ ان دعویداروں نے اسلا م کی کیا خدمت انجام دی اور کسی خدمت کی ابتداء کی بھی تو انجام کی خدا کو خبر۔ کیا اس ملک میں ایسا قانون بنا جس سے انسان کی شرافت محفوظ ہو، آبرو محفوظ ہو، مال محفوظ ہو، جان محفوظ ہو؟ کیا اللہ تعالیٰ کا قانونِ عدل نافذ کیا؟ کیا شراب کو بند کیا گیا؟ کیا زنا پر اسلامی سز اجاری کی گئی؟ کیا چور کے ہاتھ کاٹے گئے؟ کیا چکلے بند کر دیئے گئے؟ کیا شراب خانے ختم کر دیئے گئے؟ کیا قصاص جاری کیا گیا؟ نہیں! بلکہ بے حیائی، شراب خوری، آبرو ریزی کو دورِحاضر کے ہر ذریعے سے اتنا اچھا لاگیا کہ عقل دنگ رہ گئی۔     کیا مسلمانوں کی املاک محفوظ ہیں؟ کیا کارخانے محفوظ ہیں؟ کیا انڈسٹری محفوظ ہے؟ کیا اس قریبی دور میں ۲۲؍ سو فیکٹریاں قومیائی نہیں گئیں؟ جن کی کم از کم تین ارب کی کمائی سے قوم محروم ہوگئی اور نا اہلوں کے سپرد کر کے معیشت تباہ ہوگئی، خسارے میں چل رہی ہیں،یا دکھلایا جارہا ہے کہ خسارہ ہے، تاکہ حکومت کے خزانے میں ٹیکس نہ ادا کرنا پڑے، حکومت کا خزانہ بھی خالی ہوگیا، قوم بھی فقرو فاقے میں مبتلا ہوگئی۔      یہ داستان نہ ہمارا موضوع ہے ،نہ ہمارا مزاج، ورنہ بتلاتے کہ ان دعویداروں نے اس ملک اور ذرائع آمدنی کی کیا گت بنائی ہے۔ غرض نہ دین کی ترقی، نہ دنیا کا سکون ’’خَسِرَ الدُّنْیـَا وَالْأٰخِرَۃَ، ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِـیْنُ۔‘‘ (الحج:۱۱)     دنیا تباہ، دین تباہ، اخلاق تباہ، انسانیت ختم، حیا کا جنازہ نکالا گیا۔ یہ ہیں جدید تہذیب کی برکات، یہ ہیں جمہوریت کے ثمرات اور یہ ہے خدا فراموشی کی سزا، إناللّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ حق تعالیٰ اس ملک خدادادپررحم فرمائے اور صالح ہاتھوںمیں حکومت آئے، تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو اور قوم بھی خوش ہو، دل کو بھی سکون ملے، جان بھی محفوظ ہو۔ أللّٰہم لاتُسلط علینا من لایرحمنا أللّٰھم وَلِّ أمورَنا خیارَنا ولاتُوَلِّ أمورَنا شرارَنا واغفرلنا وارحمنا وأنت خیر الراحمین، آمین یارب العالمین !

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین