بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

خوانِ بنوری ؒ سے  مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی (چوتھی اور آخری قسط)

خوانِ بنوری ؒ سے  مولاناامین اورکزئی  ؒکی خوشہ چینی

(چوتھی اور آخری قسط)

 

٭:…انفاق اور اسراف کے درمیان حد یہ ہے کہ راہِ حق میں صرف ہو تو انفاق ہے، اگرچہ سب کچھ صرف کردے اور اگر غیر حق میں ہوتوا سراف ہے، اگر چہ شئے قلیل ہو۔ 
٭:… حدیث میں سات آدمیوں کا ذکر ہے، جن کو سایۂ عرش میں جگہ ملے گی، سات میں حصر مقصود نہیں۔ ان کے بغیراوروں کا بھی روایات میں ذکر آیا ہے، اور علماء نے ان پر اور بھی بڑھادیئے، حافظ ابن حجرv اور علامہ سیوطیv نے اور بھی کئی لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ عدد میں مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہواکرتا، حتیٰ کہ قائلین بالمفہوم کے نزدیک بھی۔ 
٭:… بخاریؒ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ید علیا‘‘سے مراد’’منفقہ‘‘ہے اور ’’سفلی‘‘ سے ’’اٰخذہ‘‘ مگرمؤطا وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ أٰخذۃ متعففۃ (غیر سائلہ ) علیا ہے اور سائلہ سفلی ہے، جمع یوں ہوسکتا ہے کہ علیا کے دودرجے ہیں: ایک تو منفقہ کا ہے اور دوسرا اٰخذہ متعففہ کا، واللہ تعالیٰ اعلم۔ 
٭:…اِقط، قرط (پشتو) کو کہتے ہیں، نہ کہ پنیر کو، جیسا کہ عام طورپرمشہور ہے۔ 
٭:…یہ میری قطعی رائے ہے کہ جدہ سے احرام نہیں باندھا جاسکتا، خلافاً للمفتی محمد شفیعؒ۔ ہماری اس پر اٹھارہ گھنٹے بحث ہوئی، لیکن مفتی صاحب کے دلائل سے اطمینان نہ ہوا، وہ دلائل کمزور ہیں۔ درحقیقت وہ اس شخص کے بارے میں ہیں جس کا میقات مجہول ہو اور محاذاتِ میقات بھی نامعلوم ہو، ایسا شخص حرم سے دو مرحلہ کے فاصلے سے احرام باندھے گا۔ اس مسئلہ میںمَیں، مفتی ولی حسن صاحب اور مفتی رشیداحمد متفق ہیں۔ 
٭:…ذاتِ عرق کی توقیت کے بارے میں علماء حیران ہیں کہ اس کی توقیت نبی کریم a نے کی یاحضرت عمرفاروقq نے کی ہے۔ غزالیؒ، نوویؒ اور ابن حجر ؒ سب حیران ہیں اورہر ایک نے دو قول پیش کیے ہیں، ایک کتاب میں ایک قول لکھا، دوسری میں دوسرا قول لکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کی حقیقت واضح فرمائی ہے، وہ یہ کہ توقیت ذاتِ عرق آپ a نے خود فرمائی تھی اہلِ عراق کے لیے۔ رہا یہ سوال کہ عراق توفتح نہیں ہوا تھا؟! تو یہ سوال وارد نہیں ہوتا، کیونکہ آپ a کے دور میں مصر وشام بھی فتح نہیں ہوئے تھے، حالانکہ ان کے لیے میقات متعین فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ a کو بذریعہ وحی معلوم تھا اور قرآن کریم کی آیت ’’یَأْتُوْکَ رِجَالاً وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ‘‘ سے بھی معلوم ہورہاتھا کہ یہ علاقے فتح ہوں گے، توآپ a نے ان سب کے لیے میقات کا تعین فرمایا تھا، مگر عراق کے بعض حصوں کے لوگ جو نجد کے ساتھ ملحق ہیں ان کو اشکال ہوا کہ چونکہ ہم نجد کے تابع ہیں، اس لیے ہمارا میقات قرن المنازل ہوناچاہیے، لیکن وہ ان لوگوں سے بہت دورتھا۔ اس اشکال کو انہوں نے حضرت عمرq کے سامنے پیش کیا تو آپ نے محاذات کا اعتبار کرتے ہوئے ان لوگوں کو ذاتِ عرق سے احرام باندھنے کا فتویٰ دیا، یعنی ذات عرق کی توقیت نبی کریم a نے کی تھی، مگر اس خاص خطہ کے لوگوں کے لیے اس کی تعیین حضرت عمرq نے کی۔ 
٭:…چھ گز کے فاصلے پر حطیم کعبہ کا جز ہے، باقی نہیں، علماء نے ایسا ہی لکھا ہے۔ البتہ نماز میں اس کی طرف استقبال ناکافی ہے، اس لیے کہ اس کی جزئیت خبر واحد سے ثابت ہے جو کہ مظنون ہے، لہٰذا اس سے فرضِ مقطوع ادا نہیں ہوسکتا۔ 
٭:…اما م ابویوسف ؒ کے پاس مرض الموت کی حالت میں ایک شخص آیا تو آپؒ نے پوچھا کہ رمی کے بعد وقوف مسنون ہے یا نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ مسنون ہے۔ آپ نے پوچھا کہ مطلقاً؟ کہا: ہاں۔ آپؒ نے فرمایا کہ: غلط۔ اس نے پھر کہا کہ: غیر مسنون ہے، تو آپ نے فرمایا کہ: غلط، پھر مسئلہ بتلایا کہ جس رمی کے بعد دعا ہو تو اس کے بعد وقوف مسنون ہے، اگردعا نہیں تو وقوف بھی مسنون نہیں، وہ شخص دروازہ تک پہنچا ہی تھا کہ آپؒ کا وصال ہوگیا۔ 
اس طرح حضرت عمرq کے پاس شہادت سے چند لمحے پہلے ایک اعرابی عیادت کے لیے آیا، جب واپس ہونے لگا تو آپؓ نے واپس بلایا اورفرمایا کہ: ’’ارفع إزارک فإنہٗ أتقی لربک وأنقی لثوبک‘‘  یہ شان ہوتی ہے اہلِ علم اور اہلِ دین حضرات کی کہ ہروقت دین کے لیے سوچتے ہیں۔ 
٭:…مدینہ منورہ کو چھوڑ کر دوسرے بلاد میں جانے پر آپ a نے اظہارِ ناراضگی فرمایا ہے، اور یہ اس صورت میں کہ جب اسلام اکنافِ ارض میں پھیلے گا اور عراق وشام کے متمدن علاقے زیر نگیں آئیں گے، چونکہ ان علاقوں کی بودوباش امیرانہ تھی اور زندگی راحت وآرام کی تھی، تو آپa نے پہلے سے ہدایت فرمائی کہ تنعم اور تعیش کی خاطر مدینہ منورہ کو لوگ چھوڑ جائیں گے، لیکن اگر وہ صحیح علم رکھتے تو ان کے لیے مدینہ بہتر تھا۔ اگرچہ وہاں ضیقِ معاش اور تنگی ہے اور دیگر بلاد میں آسائشیں میسر ہیں۔ رہا یہ کہ جہاد اور اشاعتِ اسلام کے لیے باہر جانا تو اس حدیث کے دائرہ سے باہر ہے، خود ارشادِ نبوی ہے: ’’لغدوۃ أوروحۃ في سبیل اللّٰہ خیر من الدنیا وما فیہا‘‘ آپa نے خود اور دیگر صحابہ ؓ نے مدینہ سے باہر جاکر اسفا رکیے۔ 
پہلے اہلِ حجا ز کے ہاں مشہور تھا کہ جس کو دین مطلوب ہو تو وہ مدینہ میں رہے اور جس کو خالص دنیا مطلوب ہو وہ جدہ میں رہے اور جس کو دین ودنیا دونو ں مطلوب ہوں وہ مکہ معظمہ میں رہے۔ حضرت شیخ  ؒ فرماتے ہیں کہ آج کل تو مدینہ میں بھی اتنی تجارت ہوتی ہے کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے، آج تومدینہ میں بھی دین ودنیا دونوں میسر ہیں۔ 
٭:… ’’روضۃ من ریاض الجنۃ ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ اس ٹکڑے میں پہنچ گیا، مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمادے گا، کیونکہ جنت میں جب آدمی داخل ہوجائے تو پھر اس کو نکالا نہیں جائے گا۔ یہ حضرت شیخ  ؒ کی توجیہ ہے[اور نفیس بھی ہے]۔
٭:… ’’الصیام جنۃ‘‘(روزہ ڈھال ہے) ڈھال چونکہ آدمی کے بائیں ہاتھ میں ہوتی ہے اور اس سے بچاؤ کا انتظام کرتی ہے، تو روزہ بھی انسان کے لیے قبر میں عذاب سے نجات کا باعث بنے گا، چنانچہ صحیح ابن حبان میں حدیث موجودہے کہ قبر میں انسان جب رکھا جائے گاتودائیں جانب سے نماز عذاب کو روکے گی اور بائیں جانب سے روزہ عذاب کوروگے گا۔ 
٭:… حضرت شیخ  ؒ فرماتے ہیں کہ: ہمارے شیخ [حضرت کشمیریؒ] رمضان شریف میں تلاوت فرمارہے تھے، ان کی عادت تھی کہ بہت غوروخوض سے تلاوت فرمایا کرتے تھے، بسااوقات فجر کی نماز کے بعد ایک پارہ شروع کیا تو عصرتک ختم ہوجاتا تھا۔ بہرحال آپؒ تلاوت فرمارہے تھے، میں قریب بیٹھا کام کررہا تھا۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ: سامنے الماری میں کتاب [فتح الباری، ج:۳] ہے، ایک دو کو چھوڑ کر تیسری لے آؤ۔ میں نے اُٹھالی، فرمایاکہ: کتاب الجنائز میں دیکھیں کہ یہ حدیث [کہ قبر میں نماز دائیں اورروزہ بائیں طرف سے عذاب کوروکیں گے] مسند احمد کے حوالہ سے ہے یاصحیح ابن حبان کے حوالہ سے؟ [سبحان اللہ !]
شربتُ الحب کأساً بعد کأس

فما نفد الشراب ومارویت
٭:… ’’ایلہ‘‘ وہی شہر ہے جسے آج کل ’’عقبہ‘ ‘کہتے ہیں، جس پر حال میں اسرائیل نے قبضہ کیا ہے۔ ایک ’’ابلہ‘ ‘ ہے، وہ بصرہ کے قریب واقع ہے۔ دونوں کی طرف رواۃ منسوب ہیں۔ ’’الایلي‘‘بھی ہیںاور ’’الابلي‘‘بھی۔ 
٭:…اپنے عزیز صاحب زادے محمد صاحبؒ   کو سبق پڑھاتے ہوئے فرمایا کہ: بقرۃ، لوذۃ، تمرۃ، دجاجۃ، حمامۃ میں تاء وحدت کے لیے ہے، تانیث کے لیے نہیں۔ 
٭:…حضرت شیخ  ؒ نے اپنے استاذ امام العصر حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ کا یہ مقولہ نقل فرمایا کہ: فلاسفہ اور حکماء کے علوم پھیلے ہوئے ہوتے ہیں، جتنا آپ ان میں غور کریں گے وہ سمٹتے چلے جائیں گے اور حضرات انبیاءo کے علوم مختصر ہوا کرتے ہیں، لیکن ان میں جتنا غورکیاجائے، وہ پھیلتے چلے جائیں گے۔ 
٭:… حضرتؒ نے فرمایا کہ: قرآن حکیم کی بعض بدیہیات بھی اتنی مشکل ہوتی ہیں کہ میں اُن کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ ’’إِنَّ ہٰذِہٖ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً ‘‘مختصرسی آیت ہے، جس میں بظاہر کوئی اشکال نہیں، لیکن مختلف تفاسیر کے مطالعہ اور کافی غور کے بعد بھی اطمینان نہیں ہوا۔ البتہ تفسیر مظہری میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے کچھ اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ 
٭:…مدرسہ عربیہ اسلامیہ کے دارالتصنیف میںاحقر اور برادرمکرم مولانامحمد حبیب اللہ صاحب مختارv کو مخاطب فرماتے ہوئے کہا کہ: مدینہ منورہ میں ’’مجمع البحار‘‘ کا ایک نسخہ ملا، قیمت تیس ریال تھی، میرے پاس رقم ناکافی تھی، صر ف خرچہ کی رقم تھی، پریشان تھا، چھوڑنے کا بھی جی نہیں چاہتا تھا، اس لیے کہ ہندوستا ن میں اس کی قیمت دوسو روپیہ تھی، اس حالت میں ایک شخص ملا، اس نے کہاکہ فلاںصاحب نے یہ دس پونڈ آپ کے لیے دیئے ہیں جس کے سو ریال بنتے تھے، اس طرح یہ کتاب میں نے لے لی۔ فرمایا: اس طرح محنت سے ہم نے یہ کتابیں جمع کی ہیںاور فرمایا کہ: یہ بائیس سال پہلے کاواقعہ ہے، جب کہ میں وہاں اس وقت کسی سے متعارف بھی نہیں تھا۔ 
٭:…حضرت مولانا شاہ عطاء اللہ بخاریؒ نے حضرت شاہ کشمیری صاحبؒ کے متعلق فرمایا کہ: ’’صحابہؓ کا قافلہ آگے بڑھا، یہ پیچھے رہ گئے‘‘اور فرمایا کہ: ’’حضرت شاہ انورشاہ صاحبؒ اگر گناہ کرناچاہیں تو کر نہیں سکتے، آپ کو گناہ کرنا آتا ہی نہیں۔ ‘‘
٭:…حضرت مولانا تھانوی صاحبؒ جب کہ وہ حکیم الامت بن چکے تھے، علمی مسائل میں حضر ت شاہ صاحبؒ سے مراجعت فرمایا کرتے تھے، جب کہ حضرت شاہ صاحبؒ اس وقت نوجوان اور مولوی انورشاہ تھے۔ حضرت تھانویؒ نے ایک خط میں استدعا کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’آپ اس مسئلہ میں روایت یادرایت کے لحاظ سے جو فیصلہ ہوکیجئے۔ ‘‘
٭:… حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے تھے کہ: دس جلدوں کے مطالعہ کے بعد صرف ایک نیا مسئلہ سامنے آجاتا ہے تو خوشی ہوتی ہے کہ محنت ضائع نہیں ہوئی۔ 
٭:…حضرت مولانا غلام نبی کامویؒ کا مقولہ حضرت الشیخ ؒ نے نقل فرمایا کہ: جتنے بڑے بڑے علماء ہم نے دیکھے ہیں، اگر چاہیں تو ہم ان جیسے عالم بن سکتے ہیں، الاانورشاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
نوٹ:        یہ چندچنیدہ افادات تھے جوحضرت الاستاذؒ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک رجسٹر سے نقل کیے گئے، اس رجسٹرمیں اوربھی جواہرپارے موجودہیں، لیکن ان میںسے زیادہ تر کاتعلق بخاری شریف کے متن کے حل سے ہے، ان شاء اللہ! جب حضرت الاستاذکے درسی افادات کی ترتیب وتدوین کی جائے گی تواس عجالہ کوبھی مکمل پیش کیاجائے گا۔                                  [انتہٰی]


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین