بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تصوف!  قرآن وسنت کی روشنی میں    (دوسری اور آخری قسط)

تصوف!


 قرآن وسنت کی روشنی میں    (دوسری اور آخری قسط)

 

۴:… برداشت اور رَواداری 
صوفیأ کرام کا یہ شیوہ رہا ہے کے وہ اپنے اور پرائے، مسلم اور غیر مسلم ، نیک اور بد ، موافق اور مخالف سب کے ساتھ برداشت، رَواداری اور حسن سلوک کا رویہ رکھتے ہیں اور اپنے معتقدین کو بھی اسی چیزکا درس دیتے ہیں، چنانچہ حضرت حسن بصری ؒ کے بارے میں منقول ہے کہ : ’’ اُنہیں کچھ لوگوں نے بتایاکہ فلاں شخص آپ کی عیب گوئی کر رہا ہے ،تو آپؒ نے بجائے اس پر غصہ کرنے یا انتقام لینے کے بطور تحفہ اس کو تازہ کھجوریں بھیج دیں ‘‘۔(۱)
بندۂ عشق از خدا گیرد طریق
می شود بر کافر و مؤمن شفیق(۲)
’’ جو بندہ عشقِ الٰہی میں سرشار ہوتا ہے وہ الٰہی راستے پر چلتاہے اور (برداشت اور رَواداری سے کام لیتے ہوئے )مؤمن و کافر سب پر مہربان ہوتاہے‘‘۔
ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس
’’ ہم نے سکندر ودارا کے قصے نہیں پڑھے ، ہم سے محبت اور وفاداری کے سوا اور کوئی بات مت پوچھ ‘‘ ۔
اس سلسلے میں شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ فرماتے ہیں :
هوچونئي تون م چئو واتان ورائي
اڳ اڳرائي جوڪري خطا سو کائي
پاند ۾ پائي ويو ڪيني وارو ڪين ڪي(۳) 
’’ اے دوست ! اگر کوئی تمہیں برا بھلا کہے تو پلٹ کر اسے جواب نہ دو ( بلکہ برداشت سے کام لو) ایسی باتوں میں جو پہل کرتا ہے وہی خطاکار ہوتاہے ، حسد اور کینہ اندر رکھنے والا کچھ حاصل نہیں کرپاتا‘‘۔
شاہ صاحبؒ کا یہ شعر صوفیانہ فلسفے اور رواداری کی کتنی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ اسی کو تو برداشت اور رَواداری کہا جاتا ہے کے دوسروں کی چِڑ دلانے والی باتوں کو برداشت کیا جائے اور بجائے انتقام لینے کے عفو و درگزر سے کام لیا جائے ۔
اسی تعلیم کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ‘‘۔(۴)
ترجمہ:’’ اور(جنت ایسے لوگوں کے لیے تیار ہے) جو غصے کو دباتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر تے ہیں ( اور لوگوں کے ساتھ احسان کا برتائو کرتے ہیں ) اور خدا  احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ‘‘ ۔
 مذہبی رَواداری کا حکم دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ ‘‘۔(۵)
ترجمہ: ’’ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔‘‘
کسی کے باطل مذہبی رہنمایا باطل خدا کو بھی برابھلا کہنے سے روکتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’  وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ‘‘۔(۶)
ترجمہ:’’ تم ان کو برا بھلا مت کہو ، جن کو لوگ پوجتے ہیں خدا کو چھوڑکر ، ورنہ وہ دشمنی اور نا دانی کی بنا پر اﷲ تعالیٰ کو برا بھلا کہنا شروع کریں گے۔ ‘‘ 
 مذہبی مخالفت کی بنا پر کسی سے بے انصافی کرنے سے روکتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ‘‘۔(۷)
ترجمہ: ’’ کسی قوم کی عداوت تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان کے ساتھ ناانصافی کرو ، تم انصاف کرو ، انصاف تقویٰ کے قریب ہے ۔‘‘ 
جو لوگ نبی کریم ا کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور جاہلانہ رو یے سے پیش آتے تھے، اﷲ تعالیٰ نے آپ ا کو ان کے ساتھ نرمی کرنے ، درگزر کرنے ، رَواداری اور برداشت سے پیش آنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : 
’’  خُذِ الْعَفْوَوَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ ‘‘۔ (۸)
ترجمہ:’’ عفو و درگزر سے کام لو ، اچھائی کا کہتے رہو اور جاہلوں سے روگردانی کرتے رہو۔ ‘‘
ُٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ ُٓٓٓٓ ٓٓٓآپ ا نے برداشت اور رَواداری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
’’ لا تکونوا اِمَّعَۃً تقولون: إن أحسن الناسُ أحسنَّا  وإن ظلموا  ظلمنا ولٰکن وطنوا أنفسکم ، إن أحسن الناسُ أن تحسنوا وإن أساء وا  فلا تظلموا ‘‘۔(۹)
’’ انتقام اور بدلہ لینے والا ذہن مت رکھو کہ یوں کہو کہ : اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھائی کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھائی کریں گے، لیکن اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پرظلم کریں گے، بلکہ یہ ذہن بنائو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ اچھائی کریں تو تم ان کے ساتھ اچھائی کرو، لیکن اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم مت کرو ( بلکہ عدل و انصاف سے کام لو )۔
آپ ا اور آپ کے اصحاب کرامؓ پر اہل مکہ کے مظالم اور ستم رسانیاں سب کو معلوم ہیں، لیکن فتح مکہ کے موقع پر ان پرقابو پانے کے بعد آپ ا نے جس بردباری اور رواداری کا ثبوت دیا، انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ،چنانچہ آپ ا نے بیت اﷲ کے سامنے کھڑے ہوکر عام معافی کا اعلان کرتے ہو ئے فرمایا :
’’  لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَائُ‘‘۔ (۱۰)
ترجمہ:’’ تم پر کچھ الزام نہیں، جاؤ! تم سب آزاد ہو۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ صوفیأ کا تحمل اور رواداری کو اپنانا یا اس کی تعلیم دینا سراسر قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔
۵:… خدمتِ خلق
اس  وقت دنیا میں Give and take ’’لو اور دو‘‘ کا اصول عوام الناس کی فطرت کا لازمی حصہ بن چکا ہے ۔ کوئی شخص کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے بدلے میں کیا ملے گا؟ جب تک یہ امید نہ ہو، اس وقت تک کوئی قدم نیکی کی طرف نہیں اُٹھتا اور نہ کسی اور کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے ۔
خود غرضی اور نفس پرستی کے اس جذبے کے برعکس صوفیأ کرام عوام الناس میں یہ روح پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکرانسانیت کو فائدہ پہنچایا جائے۔ صوفیأ کے ہاں خلقِ خدا کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نیکی کا عمل نہیں۔
 چنانچہ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں:
دل بدست آور کہ حج اکبر است
’’لوگوں کو فائدہ پہنچا کر ان کادل خوش کرو کہ یہ حجِ اکبر ہے‘ ‘۔
طریقت بجز خدمتِ خلق نیست
بتسبیح و سجادہ و دلق نیست(۱۱)
’’طریقت خدمتِ خلق کے علاوہ اور کسی چیز کا نام نہیں۔تسبیح، جائے نماز اورگُدڑی کا نام نہیں‘‘۔
سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں:
’’قیامت کے بازار میں کوئی اسباب اس قدر قیمتی نہ ہوگا جس قدر دلوں کو راحت پہنچانا‘‘۔ (۱۲)
اور ان حضراتِ صوفیأکے ہاں خلق آزاری سے بڑھ کر کوئی جرم کا عمل نہیں ،چنانچہ حافظ شیرازیؒ فرماتے ہیں:
مباش در پئے آزار وہرچہ خواہی کن
کہ در طریقت ِ ما بیش ازیں گناہے نیست (۱۳)
’’خدا کی مخلوق کی اذیت کے در پئے مت ہو، باقی جو چاہو کرو ،کیو نکہ ہم صوفیأ کے طریقے میں خلق آزاری سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔ ‘‘
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خلقِ خدا کو خدا کا کنبہ سمجھتے ہیں ، اس لیے خلقِ خدا کی خدمت کو خدا کی خدمت اور خلقِ خدا کی اذیت کو خدا کو اذیت پہنچانے کے برابر سمجھتے ہیں۔ مولانا حالیؒ کہتے ہیں :
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا(۱۴)
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوفیأ حضرات انسانیت سے کتنی محبت کرتے ہیں اور ان کی راحت رسانی کی کتنی فکر کرتے ہیں، اور ان کے ہاں خلق آزاری کتنا بڑا جرم ہے!۔
 اب ہم قرآن وسنت کی روشنی میں خدمت ِخلق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مؤمنین کی خصوصی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ‘‘۔(۱۵)
ترجمہ:’’ وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ خود حاجت مند ہوتے ہیں‘‘۔
دوسری جگہ پر ارشاد باری ہے :
’’وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ أَسِیْرًا ، إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَانُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَائً وَّلَا شُکُوْرًا‘‘۔(۱۶)
ترجمہ:’’وہ خداکی محبت کی خاطرمسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلا تے ہیں (اور کہتے ہیں ) ہم تو تم کو بس اﷲ کی رضا کی خاطرکھانا کھلاتے ہیں، اورنہ تم سے اس کا عوض چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ۔‘‘
مطلب یہ کہ مؤمنین کسی کے ساتھ بھلائی کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ اُنہیں بدلے میں کیا ملے گا ، وہ تو صرف خدا کی رضا کی خاطر خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔
آپ ا نے خلق خدا کی خدمت پر ابھارنے کے لیے مختلف طریقوں سے ترغیب دی ہے ، ایک موقع پر فرمایا:
’’ الساعی علٰی الأرملۃ  والمساکین کالساعی فی سبیل اللّٰہ، أحسبہ  قال: کالقائم لا یفتر وکالصائم لایفطر‘‘۔ (۱۷)
’’بیوائوں اورمسکینوں کی مدد کرنے والا( خدا کے ہاں) ایسا ہے جیسے مجاھدفی سبیل اﷲ، (راوی کہتے ہیں :میرا گمان ہے کہ)آپ ا نے فرمایا: وہ ساری رات جاگ کر عبادت کرنے والے اور ہمیشہ روزے رکھنے والے کی طرح ہے۔‘‘
ایک اور موقع پرآپ ا نے فرمایا :
’’  ترٰی المؤمنین فی تراحمھم وتواد ہم وتعاطفھم کمثل الجسد، إذا اشتکٰی عضو تدعٰی لہٗ سائرُ الجسد بالسھر والحُمّٰی ‘‘۔(۱۸)
’’ایک دوسرے کے ساتھ رحم ، محبت اورنرمی کرنے کے لحاظ سے تم دیکھو گے کہ مؤمن ایک جسم کی طرح ہیں ،جسم کا جب کوئی ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں فرمایا:
’’ والذی  نفسی بیدہٖ لایؤمن عبد حتٰی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ ‘‘۔(۱۹)
’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے ،کوئی بندہ اس وقت تک کامل مؤمن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ ‘‘
ظاہر ہے کہ ہر کوئی اپنے ساتھ اچھائی اور نیکی چاہتاہے اور اپنے ساتھ کبھی بھی برائی یا بدسلوکی پسند نہیں کرتا، اسی طرح ایک مؤمن بھی سب کی بھلائی چاہتا ہے اور کسی کی برائی نہیں چاہتا ۔
مذکورہ بحث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’’تصوف‘‘ اور صوفیأ حضرات کی تعلیم در اصل قرآن و سنت کا نچوڑ اور اس کی عملی صورت ہے۔
خلاصہ/نتائج
مذکورہ بالا بحث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:
۱:…’’تصوف‘‘ عشق اور محبتِ خداوندی کا درس دیتا ہے۔
۲:…’’تصوف‘‘ اطاعتِ رسول (ا)پر ابھارتا ہے اور ’’تصوف‘‘ کی نظر میں اطاعتِ رسول(ا) کے بغیر خدا کی رضا کا حصول ناممکن ہے۔
۳:…’’تصوف‘‘ اپنے آپ کو فضائلِ اخلاق سے مزین کرنے اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنے کا درس دیتا ہے۔
۴:…’’تصوف‘‘خلقِ خدا کی محبت اور اس کی خدمت کی تلقین کرتا ہے اور مخلوق کی کمی کوتاہیوں سے درگزر کرنے اور ان سے حسنِ خلق رکھنے کا سبق دیتا ہے اور صوفیأ کی نظر میں خلق آزاری سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔
۵:…’’تصوف‘‘ دوست اور دشمن، اپنے اور پرائے کے فرق کے بغیر سب کے ساتھ رَواداری اور برداشت کا درس دیتا ہے۔
۶:… ’’اسلامی تصوف‘‘ در اصل قرآن وسنت کا نچوڑ اور اسلامی تعلیمات کی روح اور اس کی عملی صورت کا نام ہے۔
مصادر ومراجع 
۱…عطار شیخ فرید الدینؒ :تذکر ۃالاولیاء، مشتاق بک کارنر، لاہور، ص: ۲۶۔
۲…علامہ اقبال بحوالہ ’’تاریخ تصوف‘‘ ،ص: ۳۲۔
۳…شاہ جو رسالو: سر یمن کلیان، داستان :۸ ، ص: ۹۸۔
۴…آل عمران: ۱۲۴۔            ۵…الکافرون: ۶۔
۶…الانعام: ۱۰۸۔            ۷…المائدہ: ۸۔
۸… الاعراف: ۱۹۹۔            ۹…مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۳۵۔
۱۰…ندوی سید سلیمانؒ :’’ سیرت النبی ا ‘‘ کراچی، دارالاشاعت ،۱۹۸۵ء،ص: ۳۰۰۔
۱۱…بحوالہ تاریخِ تصوف، ص:۱۴۴۔        ۱۲…ایضاً، ص: ۱۴۵۔
۱۳…ایضاً ،ص: ۳۳۔            ۱۴…ایضاً،ص: ۳۲۔
۱۵…الحشر:۹۔            ۱۶…الدھر: ۸،۹۔
۱۷…مشکوٰۃ المصابیح،ص: ۴۲۲۔        ۱۸…ایضاً ،ص: ۴۲۲۔
۱۹…صحیح البخاری، ص:۵، حدیث: ۱۳۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین