بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

امن و امان کا مسئلہ اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اس کا حل

امن و امان کا مسئلہ اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اس کا حل

    آج کا جدید اور ترقی یافتہ دور جو سیاسی، سماجی، معاشی، سائنسی اور علمی میدان میں حد ِکمال کو چھو رہا ہے، اس دور میں بھی دنیا اسی طرح امن و امان کے مسئلے سے دوچار ہے جس طرح آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا سماج امن اور سلامتی کے مسئلے سے دوچار تھا۔ آج بھی انسانی خون بہت ارزاں ہے،انسانوں کی عزتیں تارتار ہیں، مال و جائداد محفوظ نہیں، مذہبی اور فکری حوالے سے تحفظ نہیں۔ آج بھی رنگ و نسل، ذات پات، وطنیت کا بھوت شیشے میں بند نہیں ہوا، اونچ نیچ کا فرق ختم نہیں ہوا۔ دنیا میں نیشنلزم، فاشزم، سوشلزم جیسے نظریات آئے، لیکن کسی نے انسان کے ان بنیادی مسائل کا حل پیش نہیں کیا۔ لیگ آف نیشنز اور اقوامِ متحدہ کے نام سے ادارے بنے، پھر بھی امن و امان کا مسئلہ جوں کاتوں رہا۔ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا راج آج بھی قائم ہے۔     اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخروہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں امن و امان ناپید ہے اور بد امنی کا بھوت دندنا رہا ہے؟ اور پھر یہ کہ نبی کریم a کی سیرتِ طیبہ نے اس کا حل کیا بتایا ہے؟ اس آرٹیکل میں اس مسئلہ کے اصل اسباب اور اس کا حل سیرتِ طیبہ کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضورِ اکرم a جو دین لائے‘ اس کا نام اسلام ہے، جس کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ a کا لایا ہوا دین امن اور سلامتی کا دین ہے، جس کے ہر امر اورنہی کے پیچھے امن اور سلامتی کا راز مضمر ہے۔ اسی طرح جب ہم آپ a کی سیرتِ طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں آپ a کی تعلیمات اور پاکیزہ کردار سے امن اور سلامتی جھلکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ a نے فرمایا : ۱:…’’ المسلم من سلم المسلمون من لسانہٖ ویدہٖ۔ ‘‘ ’’(صحیح معنیٰ میں) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (۱) ۲:…’’ المسلم من سلم الناس من لسانہٖ ویدہٖ والمؤمن من أمنہ الناس علٰی دمائھم وأموالھم۔‘‘(۲) ’’ کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے پوری ا نسانیت محفوظ رہے اور کامل مومن وہ ہے جس سے انسانیت کی جانیں اور مال محفوظ رہیں۔‘‘     جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ آپ a کے لائے ہوئے پیغام ’’اسلام ‘‘ اور آپ a کی حیاتِ طیبہ کا اصل مقصد انسانی سماج کوبلا امتیاز امن اور سلامتی فراہم کرنا ہے۔  بد امنی کے اسباب      سماج سے کسی مکروہ چیز کے خاتمے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے اسباب و محرکات کو ختم کیا جائے۔اس حوالے سے جب بد امنی کے اسباب پر غور و فکر کیا جاتاہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں بد امنی یا فساداور بگاڑ کا اصل سبب کچھ برائیاں ہیں اور ان برائیوں میں سے اہم برائیاں یہ ہیں :کسی کی جان، مال یا عزت میں ناحق ہاتھ ڈالنا یا کسی کے مذہب میں مداخلت کرنا یا ہوسِ ملک گیری کی نیت سے کسی کی سرزمین پر چڑھائی کرنا،جنہیں آج کی زبان میں (Violation of Human Rights) کہتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں نبی اکرم a کی سیرتِ طیبہ سے ہمیں کیا تعلیمات ملتی ہیں ؟  ۱:… انسانی جان کی حرمت      حضورِ اکرم a کی تعلیمات کے مطابق بلا امتیاز ہر انسان کی جان قابلِ احترام ہے، کسی ایک انسان کو ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور کسی ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے، جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے : ’’ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ أَحْیَاھَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا۔‘‘(۳) ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا (ناحق)قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔‘‘     ایک اور آیت کریمہ میں کسی مؤمن کی جان لینے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی، غضب، لعنت اور دوزخ میں داخل ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے، جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَائُہٗ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَأَعَدَّ لَہٗ عَذَابًاعَظِیْمًا۔‘‘(۴)  ’’ جو شخص کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔     ایک روایت میں آپ a نے فرمایا : ’’ من قتل معاھدًا فی غیر کنھہ حرم اللّٰہ علیہ الجنۃ ۔‘‘(۵)  ’’جس نے کسی غیر مسلم پُر امن شہری کو ناحق قتل کیا، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے ‘‘۔     نبی کریم a نے انسانی جان کے تحفظ لیے نہ صرف اخلاقی تعلیم دی ہے، بلکہ اس کے لیے قانونِ قصاص و دیت بھی دیا، تا کہ انسانی جان محفوظ رہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم a کی پاکیزہ سیرت کے مطابق ہر انسان کی جان قابل احترام ہے، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، چھوٹا ہو یا بڑا،امیر ہو یا غریب۔ جب تک کوئی شخص کسی اور کی جان میں ہاتھ نہیں ڈالتا یا زمین میں فساد نہیں پھیلاتا، اس وقت تک نہ ریاست کو کوئی حق پہنچتا ہے اور نہ کسی فرد کو کہ اس کی جان کی طرف ہاتھ بڑھائے،لیکن اگر ناحق کسی کی جان پر ہاتھ ڈالا گیا تو پھر زمین میں فتنے اور فساد کا دروازہ کھل جائے گا۔ ۲:… انسان کے مال کی حرمت     بد امنی اور فتنے و فساد کی دوسری وجہ کسی کے مال میں ناجائز طور پر ہاتھ ڈالنا ہے، پھر وہ مال کسی فرد کا ہو یا کسی قوم کا۔ اس سلسلے میں نبی کریم aکی تعلیمات یہ ہیں کہ جائز اور قانونی طریقے کے علاوہ کسی بھی طریقے سے دوسروں کا مال نہ کھاؤ۔آپ a کی لائی ہوئی الہامی کتاب قرآن مجید میں ارشاد ہے : ’’یَاأَیُّھَاالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَاتَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إلَّا أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃًعَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ۔‘‘ (۶) ’’ اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر نہ کھاؤ، سوائے اس کے کہ لین دین ہو تمہارے درمیان ایک دوسرے کی رضامندی کے ساتھ۔ ‘‘     آپ a نے ارشاد فرمایا : ۱:…’’لایحل لامرء من مال أخیہ إلا ماطابت بہ نفسہ۔‘‘(۷)  ’’اپنے بھائی کا مال اس کی رضامندی کے بغیر کسی کے لیے کھانا حلال نہیں۔ ‘‘ ۲:…’’کل المسلم علی المسلم حرام دمہٗ ومالہٗ وعرضہٗ۔‘‘(۸)  ’’ایک مسلمان کی جان،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔‘‘ ۳:…’’فإن دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم ھٰذٰ فی شہرکم ھٰذٰ فی بلدکم ھٰذٰ۔‘‘(۹)  ’’ تمہاری جانیں،تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لیے اس طرح قابلِ احترام ہیں جس طرح آج کا دن (۹ ذی الحجہ) اور جس طرح یہ مہینہ(ذی الحجہ) اور جس طرح یہ شہر( مکہ مکرمہ)۔‘‘     آپ a کی پاکیزہ سیرت اور تعلیمات کے مطابق رشوت، غبن، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی بیشی، دھوکہ اور فریب، حرام اور ناجائز چیزوں کا کاروبار،ناجائز قبضہ، لوٹ کھسوٹ، جوا، سود اور چوری وغیرہ روزی حاصل کرنے کے ناجائز ذریعے ہیں۔اگر ان ذرائع سے روزی حاصل کی گئی تو سماج میں فتنہ اور فساد برپا ہو جائے گا اور ملک سے امن اور سکون چلا جائے گا۔ اس لیے امن اور سلامتی کے پیغمبر a نے ان سب ذرائع سے روزی حاصل کرنے کو حرام اور ناجائز قرار دیا، یہاں تک کہ آپa نے فرمایا : ’’أیما عبد نبت لحمہ من سحت فالنار أولٰی بہٖ۔‘‘(۱۰)۔۔۔۔’’ جس بندے کا گوشت حرام مال سے پیدا ہوا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘ ۳:…انسانی عزت کا احترام       تیسری اہم بات جس کی وجہ سے دنیا میں فتنے اور فساد برپا ہوتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کسی کی عزت میں ناحق ہاتھ ڈالا جائے۔آپ a کی تعلیمات کے مطابق ہر شخص قابِل احترام ہے،چاہے وہ حاکم ہو یا محکوم،مرد ہو یا عورت، مسلم ہو یا غیر مسلم، استاد ہو یا شاگرد، امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا ماتحت، تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ، ہر ایک مناسب عزت و وقار (Due Respect) کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو قابل تکریم بنا کر پیدا کیا ہے، جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ وَ حَمَلْنَاھُمْ فِیْ الْبَرِّوَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً۔‘‘ (۱۱)  ’’بیشک ہم نے آدم mکی اولاد کو بڑی عزت بخشی ہے، ہم نے انہیں خشکی اور سمندر (دونوں )میں سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ اور نفیس چیزیں عطا کیں، اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر بڑی فضیلت دی ہے۔ ‘‘     اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ ہر انسان قابل احترام ہے چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، جنس، وطن،زبان،اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ آپ a نے اپنی پاکیزہ تعلیمات کے ذریعے ہر اس رویے کو حرام قرار دیا جس سے کسی بھی انسان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہو۔سورۂ حجرات،آیت نمبر: ۱۱ اور ۱۲ میں کسی کے مذاق اڑانے، کسی کو طعنہ دینے،برے القاب سے پکارنے، خواہ مخواہ بدگمانی رکھنے، کسی کے عیب تلاش کرنے اور غیبت کرنے کو سخت حرام اور ناجائز عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسی سورۃ کی آیت نمبر: ۱۳ میں ذات، پات، رنگ اور نسل کی بنیاد پر اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے سے بھی روکا گیا ہے اور تمام انسانوں کو حضرت آدم اور حوا علیہما السلام کی اولاد قرار دے کر عالمی بھائی چارے اور مساوات کا درس دیا گیا ہے۔حجۃالوداع کے خطبے میں آپ a نے ارشاد فرمایا تھا : ’’لافضل لعربی علٰی عجمی ولا لعجمی علٰی عربی ولا لأحمر علٰی أسود ولا لأسود علٰی أحمر إلا بالتقوٰی۔‘‘(۱۲) ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل ہے۔ فضیلت اور برتری کا مدار تقویٰ اور پرہیزگاری پر ہے ‘‘     آپ a کی تعلیمات اور پاکیزہ سیرت میں برہمن، کھتری، وئش اور شودر جیسی مت بھیت والی روایات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، جن میں کچھ لوگوں کو صرف ذات پات کی وجہ سے دوسرے لوگوں پر اہمیت دی جاتی ہو اور نہ ہی رنگ اور نسل کی بنیاد پر کسی کی کوئی اہمیت ہے۔ آپ a نے فتح ِ مکہ کے موقع پر سینکڑوں عرب خوبصورت نوجوانوں کو چھوڑ کر ایک حبشی کالے حضرت بلال qکو بیت اللہ کی چھت پر کھڑا کرکے اذان دلائی، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ رحمۃ للعالمین کی نظر میں ذات، پات، رنگ اور نسل کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہاں! اگر اس کے پاس کسی چیز کی اہمیت ہے تو ایمان،عقیدے، اخلاق و کردار اور پاکیزہ سیرت کی ہے۔(۱۳)     ایک صحابی q کسی یہودی کو صرف اس بات پر تھپڑ مارتا ہے کہ اس نے کہا کہ حضرت موسیٰ m حضرت محمد a سے افضل ہیں تو آپ a نے اپنے صحابی qکوسخت تنبیہ فرمائی اور باوجود افضل الانبیاء ہونے کے فرمایا کہ: مجھے کسی نبی پر فوقیت نہ دو۔(۱۴)     انسانی سماج کی بد قسمتی یہ ہے کہ آج کے اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی قدیم جاہلیت کی رسمیں جاری ہیں۔ آج کے اس جدید اور ترقی یافتہ انسان کے لیے آپ a کی پاکیزہ سیرت اور تعلیمات میں وہی ہدایت اور ہبری موجود ہے جو چودہ سو سال پہلے والوں انسانوں کے لیے تھی۔ ۴:…مذہب کا احترام یا مذہبی آزادی     چوتھا اہم سبب جس کی وجہ سے دنیا میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی جائے۔ انسانی تاریخ میں حضورِ اکرم a وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے تنگ نظری اور تعصب زدہ دور میں مذہبی وفکری آزادی کا علم بلند کیا اور اس سلسلے میں جبر واکراہ کو فتنہ وفساد قرار دیا اور اپنی تعلیمات میں مذہبی و فکری جبر سے سختی کے ساتھ روکا،چنانچہ آپ a کی الہامی کتاب قرآن مجید میں ارشاد ہے : ’’لَاإِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔‘‘(۱۵) ’’دینی معاملات میں جبر درست نہیں، ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہو چکی ہے‘‘ایک اور آیت میں ارشاد ہے : ’’لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ۔‘‘(۱۶) ’’آپ کے لیے آپ کا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔‘‘ایک اور آیت میں ارشاد ہے:’’فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ۔‘‘(۱۷) ’’جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے‘‘۔ آپ a نے اس حوالے سے نہ صرف جبر و اکراہ کو ممنوع قرار دیا، بلکہ ہر ایسے رویے سے روکا جس کی وجہ سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین کشیدگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ a کے ہاں کسی بھی مذہبی پیشوا یا مذہبی شخصیت کو برا بھلا کہنا حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ اس سے دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان لڑائی،جھگڑے،فتنے اور فساد کا اندیشہ ہے، جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’وَلَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ۔‘‘(۱۸) ’’یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں برا بھلا مت کہنا، ورنہ وہ دشمنی اور نادانی کی وجہ سے اللہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے۔ ‘‘ ۵:…ہوسِ ملک گیری     دنیا میں فتنے اور فساد کی ایک اہم وجہ ’’ہوسِ ملک گیری ‘‘ بھی ہے، جس کے تحت ایک حکمران یا ایک قوم دوسروں کے وطن پر غاصبانہ قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ دنیا گزشتہ صدی میں دو عالمگیر لڑائیاں اس ہوس کے نتیجے میں دیکھ چکی ہے اور کروڑہا انسانوں کی لاشیں اٹھا چکی ہے۔ جہاں تک اسلامی تعلیمات یا پیغمبراسلامa کی سیرتِ طیبہ کا تعلق ہے توکسی کے ملک یا اس کے کسی حصے پر ناجائز قبضہ تو دور کی بات ہے، اسلام توبالشت کے برابر بھی کسی کی زمین پر ناجائز قبضے کی اجازت نہیں دیتا، چنانچہ اسلام کے پیغمبر aنے فرمایا : ’’من أخذ شبرًا من الأرض ظلمًا طوقہ یوم القیٰمۃ من سبع أرضین لا یقبل منہ صرف ولا عدل۔‘‘(۱۹) ’’جس نے ایک بالشت کے برابر کسی کی زمین پر ناجائز طور پر قبضہ کیا تو قیامت کے دن تہ تک وہ زمین اس کی گردن پر لا د دی جائے گی اور نہ اس کی نفل عبادت خدا کے ہاں قبول ہوگی اور نہ فرض عبادت۔‘‘     اسلام نے ہوسِ ملک گیری کی نیت سے کسی کے ملک پر قبضہ کرنے کو قطعی طور پر حرام ٹھہرایا اور اپنے ماننے والوں کو ایسے ارادے سے بھی روک دیا، چنانچہ اسلام نے جہاد کے سلسلے میں وضاحت کردی کہ وہ محض ’’ اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ یعنی خدا کی بات کو بلند کرنے کے لیے ہو۔کسی کے ملک پر قبضہ کرنے یا ان کے وسائل پر تسلط حاصل کرنے یا کسی اور نیت سے نہ ہو،ورنہ وہ جہاد فی سبیل اللہ(اللہ کے راستے میں جہاد) نہیں ہوگا، بلکہ فساد فی الارض (زمین پر فساد پھیلانے )کے لیے ہوگا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری q سے روایت ہے کہ:رسول اللہa سے پوچھا گیا کہ ایک شخص مالِ غنیمت (جس میں مال و اسباب کے علاوہ خطۂ ارض بھی آجاتا ہے) کے لیے لڑتا ہے،کوئی ناموری اور شہرت کے لیے لڑتا ہے، کوئی اپنی بہادری کے جوہر دکھانے اور دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے لڑتا ہے، اور کوئی قومی تعصب و حمیت کے لیے لڑتا ہے، ان میں کون سااللہ کی راہ میں لڑتا ہے؟آپa نے فرمایا : ’’من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللّٰہ۔‘‘(۲۰) ’’جو شخص اس لیے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، وہی اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہے۔ ‘‘     اور خدا کے کلمہ کو بلند کرنے کا مطلب ہے کہ خدا کے رحیمانہ دین کو لوگوں تک پہنچانا، دنیا سے ظلم کو مٹانا، عدل، انصاف اور سماجی مساوات کا نظام قائم کرنا، لوگوں کو مذہبی اور فکری حوالے سے آزادی دلانا، عوام الناس کی گردنوں کو ظالم، بے رحم، سفاک اور استحصالی قوتوں کے پنجے سے آزادی دلانا۔ اور یہ سب کچھ خدا کی رضا کے لیے ہو،چنانچہ آپ a نے ایک اور روایت میں وضاحت فرمادی کہ جو کام خدا کی رضا کے لیے نہ کیا گیا ہو، چاہے بظاہر وہ کتنا ہی عظیم ہو، لیکن وہ خدا کے ہاں قبولیت کی سند حاصل نہیں کرپائے گا،چنانچہ آپ aنے فرمایا : ’’إن اللّٰہ لا یقبل من العمل إلا ما کان لہ خالصًا و ابتغی بہ وجہ اللّٰہ۔‘‘ (۲۱) ’’خدا صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصتاً اسی کے لیے اور اس کی رضا کے حصول کے لیے ہو۔‘‘     دنیا میں امن اور سلامتی کو قائم رکھنے کے لیے اور فتنہ اور فساد سے بچنے کے لیے آپ a نے جو اپنی تعلیمات اور پاکیزہ سیرت ہمارے لیے چھوڑی ہے، انسانی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ آج ہمارے سماج میں جو بدامنی، بے چینی، فتنہ اور فساد برپا نظر آتا ہے دراصل نبی کریم a کی سیرتِ طیبہ سے دوری کا نتیجہ ہے۔آپ a نے اس حوالے سے ایک اصولی ہدایت دی تھی: ’’أحب للناس ماتحب لنفسک تکن مسلمًا۔‘‘(۲۲) ’’لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو تو کامل مسلمان بنوگے۔‘‘     ہر شخص اپنی جان،مال،اور عزت کا تحفظ چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اُسے مذہبی وفکری آزادی ہو اور ہر شخص اپنے وطن کی آزادی وخودمختاری چاہتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے لیے بھی وہی سوچ رکھے اور ان کے ساتھ اسی رویے سے پیش آئے جس کی دوسروں سے توقع رکھتا ہے۔     ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے لوگ، حکمرانوں سے لے کر عوام تک اور عوام سے لے کر خواص تک ہر ایک خاتم الانبیاء a کی پاکیزہ سیرت کو اپنے لیے نمونۂ عمل سمجھے اور اس پر عمل کرے۔ اسی طریقے سے ہی دنیا سے فتنہ اور فساد ختم کیا جا سکتا ہے اور امن اور سلامتی کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے۔      حوالہ جات ۱:…  صحیح بخاری، دار السلام للنشر والتوزیع ،رقم الحدیث :۱۰۔        ۲:… سنن نسائی، رقم الحدیث :۴۹۹۸۔ ۳:… المائدہ:۳۲۔        ۴:… النساء :۹۳۔        ۵:… سنن ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۷۶۰۔ ۶:… النسائ: ۲۹۔        ۷:… مسندِ احمدبن حنبل۔        ۸:… صحیح مسلم، رقم الحدیث:۲۵۶۴۔ ۹:… صحیح بخاری، ص:۱۶، حدیث:۶۷۔        ۱۰:… الترغیب والترھیب،دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، ج: ۴،ص: ۲۲۔ ۱۱:… الاسرائ:۷۰            ۱۲:… تفھیم القرآن،ج:۵، ص:۹۸ بحوالہ سنن بیھقی خطبہ حجۃ الوداع۔ ۱۳:… الرحیق المختوم،المکتبۃ السلفیۃ، ص:۵۵۲۔    ۱۴:… صحیح بخاری،حدیث: ۶۹۱۷،ص:۱۱۹۱۔ ۱۵:… البقرۃ:۶۵۲۔    ۱۶:… الکافرون: ۶    ۱۷:… الکہف :۲۹۔    ۱۸:… الانعام:۱۰۸۔ ۱۹:… الزواجرعن اقتراف الکبائر،ج:۱،ص:۲۶۱    ۲۰:… صحیح البخاری، ص:۴۶۶، حدیث:۲۸۱۰،۷۴۵۸۔ ۲۱:… شوکانی، نیل الا وطار،ج:۷،ص:۲۲۷        ۲۲:… جامع الترمذی،الریاض دار السلام،۱۹۹۹ئ، طبع اول، ص:۵۲۸،حدیث ۲۳۰۵۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین