بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح (تیرہویں اور آخری قسط)

الفاظِ طلاق سے متعلقہ اُصولوں کی تفہیم وتشریح                                       (تیرہویں اور آخری قسط)

خلاصہ مباحث ِگزشتہ     آج کی اس الوداعی مجلس سے مقصود گزشتہ مباحث کاسرسری اور عمومی نوعیت کا جائز ہ ہے، تاکہ اس ضمن میں تمام تحریر کا نچوڑ اور لب لباب بھی سامنے آجائے اور یہ بھی واضح ہوجائے کہ تعبیر وتشریح کے اصولوں کی عملی افادیت کیا ہے اور یہ کہ کس موقع پر کون سا اصول متعلقہ ہے اور اُسے کس انداز سے بروئے کا ر لانا چاہیے۔ لفظ کا انفرادی جائزہ ۱:۔۔۔۔۔    (الف)طلاق کا تعلق لفظ کے ساتھ ہے اوریہ بالکل بدیہی ہے کہ لفظ کے جائزے کے لیے لفظ کا ہونا ضروری ہے۔اس لیے پہلا اصول تو یہی ہے کہ شوہر نے کوئی لفظ استعمال کیا ہو۔     (ب)    مگرمطلق لفظ کا استعمال کافی نہیں، بلکہ ایسا لفظ ہونا چاہیے جو طلاق کا مفہوم رکھتا ہو، کیونکہ اگر کوئی لفظ طلاق کا مفہوم نہ رکھتا ہو تو قصد وارادہ سے بھی اس میں طلاق کا معنی پیدا نہیں کیا جاسکتا۔     (ج)    لفظ اگر طلاق کا مفہوم رکھتا ہو تو پھر سب سے پہلے اس کی نوعیت متعین کرنا ضروری ہے کہ صریح ہے یاکنایہ ہے یاصریح سے ملحق ہے؟ کیونکہ طلاق کے تمام الفاظ ان ہی تین انواع میں منحصر ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ کوئی لفظ ان میں سے کسی قسم میں داخل نہ ہو۔ نوعیت کی تعیین اور حکم      ان تینوں میں سے کسی نوع کو متعین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر لفظ ایسا ہے کہ اس کا عام استعمال طلاق کے مقصد سے ہوتا ہے تو وہ صریح ہے۔ صریح کاحکم یہ ہے کہ اس کے استعمال سے شوہر نے خود ہی کھلے اور صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ میں نے طلاق دے دی ہے،اب اس کی نیت کا سراغ لگانے اور منشا دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ،اس نے خود ہی اپنا منشا بیان اور اپنی نیت کا اظہار کردیا ہے اور متکلم سے بڑھ کر کوئی اس کی نیت کا ترجمان اورا قوال کا شارح نہیں ہوسکتا۔     صریح کی پہچان متکلم کے عرف سے ہوتی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ کوئی لفظ اصلاً کنایہ ہو، مگر شوہر کے عرف میں صریح ہو۔صریح ہونے کا مدار کتابوں پر یا یا لفظ کے معنی پر کہ وہ صاف ہے یا پوشیدہ، اس میں شدت ہے یا خفت یا کسی اورقوم یا برادری کے عرف پر نہیں بلکہ شوہر کے عرف پر ہے۔اگر کوئی لفظ اس معیار پر صریح ہے تو :     ۱:۔۔۔۔۔شوہر کی نیت طلاق کی ہوگی۔        ۲:۔۔۔۔۔یاکچھ نیت نہ ہوگی ۔     ۳ :۔۔۔۔۔یا طلاق کے علاوہ کچھ اور نیت ہوگی۔     پہلی دوصورتوں میں طلاق واقع ہے، لیکن تیسری صورت میں معاملہ قضا اور دیانت میں چلا جاتا ہے۔ صاحب بحر کے نزدیک تودیانۃً صریح بھی نیت کا محتاج ہوتا ہے، جب کہ علامہ شامیv نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ جن جزئیات میں صریح سے دیانۃً عدم وقوع کا ذکر ہے وہاں کوئی شرط مفقود ہوتی ہے، مثلاً شوہرنے لفظ کا قصد نہیں کیا ہوتا ہے یا وہ لفظ کا مطلب نہیں جانتا یا سبقت لسانی سے لفظ اس سے صادر ہوجاتا ہے یا وہ بیوی کی طرف طلاق کی اضافت نہیں کرتا یا لفظ کے اندر کوئی معقول تاویل کرتا ہے، وغیرہ۔ جن صورتوں میں کسی شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے صریح سے ازروئے دیانت طلاق واقع نہ ہو ،ان صورتوں میں اگر کوئی ظاہری قرینہ بھی ایسا موجود ہو جو عدم طلاق پر دلالت کرتا ہو تو قضاء ًبھی شوہر کے قول کااعتبار ہوگا۔     ۲:۔۔۔۔اگر لفظ صریح نہ ہوتوپھر ملحق بالصریح ہوسکتا ہے، یعنی اصل میں تو کنایہ ہے،مگراس کا بکثرت استعمال طلاق کے لیے ہوتا ہے۔صریح کی طرح ملحق بالصریح میں بھی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر چونکہ ملحق بالصریح صرف نیت کی ضرورت نہ ہونے میں صریح کا حکم رکھتا ہے،بقیہ احکام میں اپنے اصل پر ہے، اس لیے بقیہ احکام میں کنایہ کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر اس کی تعبیر وتشریح کرنی چاہیے۔     ملحق بالصریح اگرچہ مثل صریح ہے، مگر اس سے طلاق کا وقوع اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ کوئی ایسا لفظی یا معنوی قرینہ موجود نہ ہو جو طلاق کے عدم وقوع پر دلالت کرتا ہو،مثلا :’’تم آزاد ہو جو چاہو پہنو،جو چاہو پہنو ‘‘عدم وقوع طلاق کا قرینہ ہے، اس لیے طلاق واقع نہیں اور جب ملحق بالصریح میں یہ شرط ہے تو کنایات میں بطریق اولیٰ یہ شرط عائد ہوگی، بلکہ اگر لوگوں کے عرف اور محاورے کو دیکھا جائے تو لفظ طلاق کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا لفظ ہوگا جو بلاقرینۂ حالیہ یا مقالیہ طلاق کے لیے استعمال ہوتا ہو۔ اگر قرینے کی موجودگی کو بطور شرط لازم ٹھہرانے میں مبالغہ محسوس ہوتومنفی قرینے کی عدم موجودگی کو شرط ٹھہرانا کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ منفی قرینے سے مراد یہ ہے کہ کوئی لفظی یا معنوی امر ایسا موجود نہ ہو جو طلاق کی نفی کرتا ہو۔     ۳:۔۔۔۔گفتگو اس امرکے متعلق ہے کہ سب سے پہلے لفظ کی نوعیت متعین کرنا ضروری ہے۔اگر لفظ صریح یا ملحق بالصریح نہ ہو تو پھر ممکن ہے کہ کنایہ ہو۔     اگرکنایہ ہے تو پھر نیت یا دلالت میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ اگرشوہر اقرار کرتا ہے کہ میں نے طلاق کی نیت سے کنایہ کا استعمال کیا ہے تولفظ کا حکم اورنتیجہ بتادینے پر اکتفاکرنا چاہیے ۔لیکن اگر شوہر طلاق کی نیت کا انکار کرتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ دلالت ِحال سے اس کی نیت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ مقام وضاحت چاہتا ہے،اس لیے تھوڑی تفصیل نامناسب معلوم نہیں ہوتی۔     کنایہ اصل وضع میں طلاق کے لیے نہیں ہوتا ہے اور اس کے حکم اور مفہوم میں طلاق کے حکم اور مفہوم سے زیادہ عموم ہوتا ہے، اس میں طلاق اورغیر طلاق کا یکساں احتمال اورمساوی امکان ہوتا ہے اور طلاق کے احتمال کو ترجیح دینے کے لیے نیت یا دلالت کی ضرورت پڑتی ہے۔ طلاق اور غیر طلاق کے احتمال کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ:         ۱:…اس سے بیوی کو خطاب درست ہو۔       ۲:…وہ طلاق کی خبر بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔         ۳:…اورطلاق کو اس کے لیے سبب اور خود اُسے طلاق کا مسبب قرار دینا درست ہو۔     بیوی کو باپ کہنا درست ہے نہ ہی اُسے طلاق کا نتیجہ قرار دینا معقول ہے اور نہ ہی یہ توجیہ ممکن ہے کہ چونکہ شوہر طلاق دے چکا ہے، اس لیے بیوی باپ بن چکی ہے۔اس لیے باپ کا لفظ کنایہ نہیں۔     کنایہ کا حکم یہ ہے کہ تمام کنایہ الفاظ میں قدرِ مشترک کے طور پر طلاق کا معنی پایا جاتا ہے، اس لیے نیت ہو تو کنایہ کے ہر قسم سے طلاق ہوسکتی ہے، مگر کنایہ میں طلاق کا معنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جواب بننے کی صلاحیت ہو اور جواب کی صلاحیت سے مراد یہ ہے کہ شوہر نے مطالبۂ طلاق پر طلاق دے دی ہے اور اس کی پہچان کا ضابطہ یہ ہے کہ اس سے طلاق کا نتیجہ یعنی حریت اور بینونت وغیرہ خود بخود ثابت ہوجاتی ہو اور اس نتیجے کو وجود میں لانے کے لیے کسی بااختیار شخص کے واسطے کی ضرورت نہ ہو، جب کہ غیر طلاق سے مراد یہ ہے کہ اس میں ’’سب وشتم ‘‘کا یا ’’رد‘‘ کا یعنی مطالبہ کو مسترد کرنے کا امکان ہو۔     کنایہ میں اگر شوہر طلاق کی نیت کا انکار کرتا ہے تو اس کا موقف کوئی ایساخلافِ حقیقت بھی نہیں، کیونکہ لفظ میں طلاق کے علاوہ معنی کی بھی گنجائش ہے، مگر عدالت دیکھے گی کہ دلالت حال سے بھی اس کے موقف کی تائید ہوتی ہے یا نہیں؟ شوہر کی نیت کو جانچنے کا پیمانہ یہ ہوگا کہ اگر اس نے معتدل اور پرسکون ماحول میں کنایہ کا استعمال کیا ہے تو اس کا بیان قابل قبول ہے، کیونکہ کسی خارجی قرینے کی عدم موجودگی کی وجہ سے مدلل طور پرشوہر کی نیت کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ البتہ غصہ کی حالت جذبات اور عقل میں جنگ کی حالت ہوتی ہے اور یہ دونوں جب مقابل ہوتے ہیں تو جذبہ غالب اور عقل مغلوب ہوجاتی ہے ،بڑے بڑے عقلاء بھی دونوں کے تصادم کے وقت جذبے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جذبات کی بے اعتدالی کے وقت شریعت نے کوئی اہم فیصلہ کرنے کی ممانعت کی ہے۔ بہرحال طبیعت کی اس بے اعتدالی کے وقت شوہر سے کوئی بھی اقدام بعید نہیں ہوتا۔ زوجین کے درمیان جب ایسا ماحول قائم ہوتا ہے تو کبھی شوہر ضد پکڑ کر اپنی بات پر جم جاتا ہے اور فریق ثانی کا کوئی مطالبہ خواہ کتنا ہی معقول اور ضروری کیوں نہ ہو،شوہراس سے انکار کردیتا ہے اور کبھی غیر شائستہ الفاظ کہہ کرزوجہ کی عزتِ نفس اور جذبات کو مجروح کرتا ہے اور کبھی طلاق کا استعمال کرکے اپنے وقتی جذبے کی تسکین کردیتا ہے۔     شریعت ان تینوں احوال کو مدنظر رکھ کر کنایہ کا تجزیہ کرتی ہے۔ اگر کنایہ میں سب وشتم کا احتمال ہے اور شوہر نے غیظ وغضب کے وقت اسے استعمال کیا ہے توشریعت فرض کرے گی کہ شوہر نازیبا کلمات  استعمال کرکے بیوی کی توہین وتذلیل کررہا ہے اور بدزبانی وبد کلامی پر اتر آیا ہے۔ اگر اس کے الفاظ میں مطالبہ کی نامنظوری اور عدم قبول وتسلیم کا معنی ہو تو پھر یوں قرار دے دیا جاتا ہے کہ شوہر نے طلاق کا مطالبہ مسترد کرکے بیوی کو جھڑک دیا ہے۔ اگر لفظ میں طلاق ہی طلاق کا معنی ہے تو پھر شوہر کا انکار بے معنی ہے، کیونکہ لفظ طلاق کاہے اور ماحول پورا کا پورا اس کی تائید کرتا ہے۔     حالت ِمذاکرہ میں اگر شوہر نے صرف جواب کی صلاحیت رکھنے والا لفظ استعمال کیا ہے تو شوہر سے نیت پوچھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ طلا ق مانگنے پر طلاق دینا کوئی غیر معقول نہیں ہے۔ کنایات کی اس تشریح سے جو امر دواور دوچار کی طرح واضح ہے، وہ یہ ہے کہ شریعت محض الفاظ کو نہیں دیکھتی بلکہ اس ماحول کو سامنے رکھ کر شوہر کے الفاظ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اورجہاں لفظ اور ماحول کی موافقت ہووہاں شوہرکے کہے کا اعتبار کرلیتی ہے اور جہاں دونوں میں تضاد سامنے آتا ہو وہاں لفظ کو معیارومدار قرار دے کر اس پر فیصلہ کردیتی ہے۔ ایسا بالکل معقول اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔      جیساکہ ذکر ہوا کہ کنایہ سے طلاق کاوقوع نیت یا دلالت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر تمام اسبابِ طلاق کا استیعاب کیا جائے تواحناف کے نزدیک طلاق کا وقوع صریح سے یا ملحق بالصریح سے یا کنایہ سے ہوتا ہے اور کنایہ میں نیت یا دلالت شرط ہوتی ہے۔ گویا چار میں سے ایک چیز کا وجود ضروری ہے، لیکن یہ چار درحقیقت تین چیزیں ہیں، کیونکہ ملحق بالصریح بھی صریح ہی ہے اور اگر ان تینوں کو مزید سمیٹا جائے تو صرف صریح یا نیت سے طلاق ہوتی ہے ،کیونکہ دلالت کی شرط بھی نیت کا کھوج لگانے کے لیے ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا کہ صرف نیت سے طلاق ہوتی ہے، کیونکہ صریح میں عرف نیت کے قائم مقام ہوجاتا ہے اور صریح کا تکلم کرنے والا عرفاً نیت کرنے والا کہلاتا ہے۔لہٰذا بطور حاصل کہا جا سکتاہے کہ :     طلاق نیت سے ہوتی ہے خواہ:۱:…نیت عرف سے ثابت ہو۔۲:…شوہر کے اظہار سے ثابت ہو۔۳:…یا دلالت سے ثابت سے ہو۔     اس تعبیر کے مطابق نیت اصل ہے اور عرف اور دلالت‘نیت کے ثبوت کے ذرائع ہیں۔واللہ اعلم     ۴:۔۔۔۔۔    (الف)    نوعیت کی تعیین کے وقت یہ امربھی زیر غور لانا چاہیے کہ شوہر نے کس زمانہ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ اگر الفاظ مستقبل کے ہیں تو وہ ڈراوا اور دھمکی ہیں اور اگر حال کا صیغہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ استقبال کے معنی میں نہ ہواور اگر مضارع ہے تو اس کا غالب استعمال زمانہ حال میں ہونا چاہیے۔     (ب)     بعض اوقات صیغہ زمانہ حال کا ہوتا ہے، مگر شوہر اُسے کسی شرط کے ساتھ مشروط کردیتا ہے یا زمانہ آئندہ تک اس کانفاذ موقوف کردیتا ہے ۔اگر ایسا ہے تو شرط کے وقوع اور متعلقہ وقت کی آمد پرہی طلاق واقع ہوگی۔ معلق اور مضاف طلاق کے بارے میں زیادہ تفصیل کی حاجت نہیں معلوم ہوتی، مگراضافت کا مسئلہ ضرور تنبیہ اوروضاحت چاہتا ہے۔     طلاق کے وقوع کے لیے نیت یا اضافت میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے اور اضافت صریح یا معنوی ہوسکتی ہے۔اگر اضافت صریح ہو تو نیت کی بھی ضرورت نہیں اور دیانۃً وقضاء ًدونوں طرح طلاق واقع ہے۔ جو تعبیر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے معروف ہو وہ صریح اضافت کے حکم میں ہے اور اس سے بلانیت طلاق ہوجاتی ہے۔’’الطلاق یلزمنی والحرام یلزمنی‘‘ وغیرہ اسی نوع کی مثالیں ہیں۔شوہر کا کلام سوال کے جواب میں ہو اور سوال میں اضافت ہو تو جواب میں بھی اضافت متحقق ہوجاتی ہے۔ کتب فقہ میں جن جزئیات میں عدم وقوعِ طلاق مذکور ہے ان میں صریح اضافت کے فقدان کے ساتھ نیت اور عرف بھی مفقود ہوتے ہیں۔ طلاق کا ثمرہ ونتیجہ     ۵:۔۔۔۔۔نوعیت کی تعیین کے بعد اگلا حل طلب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس لفظ سے کون سی طلاق واقع ہے؟ کیونکہ ضروری نہیں کہ صریح سے رجعی اور کنایہ سے بائن واقع ہو، بلکہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ صریح سے عام طور پر رجعی اور کنایہ سے اکثر وبیشتر بائن اور ملحق بالصریح سے بعض فقہاء کے خیال کے مطابق رجعی واقع ہونی چاہیے۔کچھ کے نزدیک مدار عرف پرہے اور بعض کی تحقیق یہ ہے کہ لفظ کے عرفی استعمال کو تو نیت کے قائم مقام قراردیا جاسکتا ہے، مگررجعی یا بائن کا فیصلہ لفظ کے مقتضی کے مطابق ہونا چاہیے،چنانچہ اگر لفظ فوری طورپرقید نکاح کے زوال کا تقاضا کرتا ہے تو وہ بائن ہے، بصورتِ دیگر رجعی ہے۔     ۶:۔۔۔۔۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ صریح سے بائن بھی واقع ہوجاتی ہے اور بائن کا مدار علی اختلاف الاقوال عرف یا معنی کی شدت وخفت پر ہے، مگر بعض صورتیں ایسی ہیں کہ لفظ کے معنی یا عرفی استعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض اور وجوہات کی بنا پر صریح سے بائن ہی واقع ہوتی ہے۔ساتویں فائدہ کے تحت ایسی نوصورتیں مذکور ہوئی تھیں اور ان پر اس دسویں صورت کا اضافہ بھی ممکن ہے کہ اگر صریح سے پہلے یا بعد میں بائن طلاق بھی ہوتو صریح، رجعی ہی کیوں نہ ہو اس سے بائن ہی واقع ہوگی، کیونکہ بائن طلاق رجعی کو بھی بائن بنادیتی ہے۔ سیاق وسباق پر نظر     ۷:۔۔۔۔۔لفظ کی نوعیت اور اس کا ثمرہ ونتیجہ کسی لفظ کاانفرادی حیثیت سے جائزہ لے کر متعین کیا جاسکتا ہے، مگر الفاظِ طلاق میں سے کسی لفظ کے حکم کابیان اس کے ماقبل اور مابعد سے صرف نظر کرتے ہوئے ممکن نہیں ، کیونکہ الفاظ ایک دوسرے کے معنی ومفہوم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی نوعیت میں تبدیلی یا حکم کی تنسیخ کاباعث بنتے ہیں،بایں وجہ شوہرکی پوری گفتگو کو زیر غور لانا ضروری ہے۔ مثلاً: اگر شوہر نے صریح کے بعد کنایہ استعمال کیا ہے جیسے: تمہیں طلاق ہے اور اب تم آزاد ہو،اور کنایہ سے اس کی نیت مستقل طلاق دینے کی ہے تو دوطلاقیں واقع ہیں، لیکن اگر اس نے اپنے منشأ کے اظہار کے لیے بطور تفسیر کنایہ استعمال کیا ہے تو ایک ہی طلاق واقع ہے اور اگر کنایہ کے استعمال سے اس کی کچھ نیت نہ ہوتو ایک رائے یہ ہے کہ دوطلاقیں واقع ہیں، مگر ہمارے عرف کے پیش نظرزیادہ راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی طلاق واقع ہے، البتہ کنایہ الفاظ سے بسا اوقات صریح کی نوعیت ضرور بدل جاتی ہے، جیسے:تجھے طلاق دے کر آزاد کرتا ہوں ،کہنے سے شوہر نے رجعی طلاق میں شدت پیدا کردی ہے جس سے وہ بائن بن گئی ہے، مگر طلاق ایک ہی واقع ہے۔      ۸:۔۔۔۔۔تاکید کی وجہ سے بھی بسااوقات طلاق کا لفظ بے اثر رہ جاتا ہے۔ اگر شوہرلفظ طلاق کا تکرار کرتا ہے اور تکرار سے مستقل طلاق کا اقرار کرتا ہے تو اس کی نیت کے مطابق طلاقیں واقع ہیں۔ اگر وہ اپنی نیت تاکید کی بیان کرتا ہے اور عرف سے اس کی تائید ہوتی ہے تو اس کے قول کا اعتبار کیا جائے گا اوراگر عرف سے اس کی تائید نہ ہوتی ہو تو ازروئے دیانت تو اس کا قول معتبر ہے، مگر قاضی اس کی تصدیق نہیں کرے گا اور اگر تاکید کی تائید یا تردید میں کوئی قرینہ نہ ہو تو تکرارکے مطابق طلاقیں واقع ہوں گی، کیونکہ تاکیداصل نہیں ہے۔     ۹: ۔۔۔۔۔تاکید کی طرح کنایا ت میں لفظی قرینہ کی تقدیم وتاخیر سے بھی لفظ کے مفہوم پر اثر پڑتا ہے، مثلاً: کنایات میں قرینہ کا کنایہ سے مقدم ہونا ضروری ہے اور قرینہ سے اگر مذاکرۂ طلاق ثابت ہوجائے، مگر لفظ مذاکرہ طلاق میں بھی نیت کا محتاج ہو تو محض قرینے کی موجودگی کی وجہ سے اس سے طلاق واقع قرار نہیں دی جائے گی۔ تفصیل کے لیے بارہواں فائدہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔     ۱۰:۔۔۔۔۔ الفاظِ طلاق کو دوسرے الفاظ سے جدا کرنے ، ان کے صریح یا کنایہ اور بائن یا رجعی  کی تعیین کرنے کے بعد اگلامرحلہ طلاق کے عدد کا ہوتا ہے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں۔اس موقع پر لحوق اور عدم لحوق کے اصول کی ضرورت پڑتی ہے۔آٹھویں فائدے کے تحت طلاق کی سولہ صورتوں کا بیان کیا گیاتھا اورمذکورہ مقام پراس کا نقشہ بھی درج کردیا گیا تھا جو بوقت ِضرورت سہولت کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس اختتامی بحث میں اس پوری بحث کا اعادہ طوالت کا باعث ہے، تاہم جن دواصولوں پر لحوق اور عدم لحوق کی بحث مبنی ہے، وہ یہ ہے کہ کنایہ بائن کا کنایہ بائن سے لحوق نہیں ہوتاہے، چاہے پہلا کنایہ صریح ہو یا نہ ہو اور باقی تمام صورتوں میں لحوق ہوتا ہے اور دوسرا اصول یہ ہے کہ بائن اور رجعی جب جمع ہوتی ہیں تو دونوں بائن ہوتی ہیں، یعنی بائن رجعی کو بھی بائن بنادیتی ہے،تقدیم وتاخیر کی کوئی اہمیت نہیں خواہ کوئی سی طلاق بھی مقدم ہو۔     الحاصل! سب سے پہلے الفاظِ طلاق الگ کیے جائیں،پھر ان کے صریح یا کنایہ ہونے کا تعین کیا جائے،پھر ان کے حکم کو دریافت کیا جائے،اور آخر میں طلاق کے عدد کا تعین کیا جائے۔ وصلی اللّٰہ وسلم علٰی سیدنا ومولانا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین