ہماری ایک جائیداد ہے جس کو بیچنے کے لیے ہم 3 سال سے کوشش کر رہے ہیں، لیکن کوئی اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے، ہمیں کاروبار کے لیے فی الفور پیسے چاہییں، اور ہمارے پاس نقدی پیسوں کی کمی ہے، ہمارے مقروض ہمارا قرض بھی نہیں لوٹا رہے۔ اب کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم اسلامی بینک سے قرض لے لیں؟ ہم جانتے ہیں کہ قرض لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے ہماری پوری فیملی اس پر راضی نہیں تھی، لیکن اب ہمیں پیسوں کی شدید ضرورت ہے تو کیا اگر ہم اسلامی بینک سے قرضہ لیں تو درست ہے؟ حرام تو نہیں ہے؟ ہم اللہ کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
ہماری تحقیق کے مطابق مروجہ اسلامی بینکوں میں سے کوئی بھی مکمل طور پر اسلامی نہیں ہے، کچھ نہ کچھ سقم ہر بینک کے معاملات میں باقی رہ جاتا ہے؛ اس لیے کسی بینک سے بھی قرضہ لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے گو وہ کسی دوسرے نام سے کیا جاتا ہو، اس لیے کسی بینک سے قرضہ لینا جائز نہیں ہے، لہذا اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور سے غیر سودی قرضہ حاصل کر لیں۔ اور جب تک غیر سودی قرض نہ ملے، متبادل حلال ذریعہ پر اکتفا کیجیے، دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ استغفار اور "اَللّٰهُمَّ اکْفِنِيْ بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنَا بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ" کی کثرت رکھیں، سورۃ الشوریٰ (۲۵ واں پارہ) کے دُوسرے رُکوع کی آخری آیت: {اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ} اَسی مرتبہ فجر کے بعد پڑھا کریں۔
نیز "قرض" لینا مطلقاً ناجائز نہیں ہے، بلکہ سودی قرض لینا یا بغیر سود کے لیا ہوا قرض ہو، لیکن لوٹانے کی نیت نہ ہو؛ یہ صورتیں ناجائز ہیں۔ فقط واللہ اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:
فتوی نمبر : 144107200441
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن