بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کرنے والا ذوالحجہ کے دس دنوں میں بیوی کے پاس جاسکتا ہے


سوال

ایامِ  حج میں حاجی حضرات پر بال،  ناخن وغیرہ کاٹنے اور ہم بستری کی ممانعت ہوتی ہے اور اسی مشابہت سے عام حضرات جن کی قربانی کی نیت ہو ان پر بال، ناخن وغیرہ کاٹنے کی ممانعت تو ہے ہی،  کیا ہم بستری کی بھی ممانعت ہے یا ہم بستری کر سکتا ہے؟

جواب

قربانی کرنے والے کے لیے ذو الحجہ  کا چاند نظر آنے سے لے کر  قربانی ہونے تک بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنامستحب ہے،  لیکن بیوی سے ہم بستری جائزہے۔ عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی حکمت کے حوالے سے جامعہ سے جاری شدہ تفصیلی فتاویٰ پڑھنے کے لیے جواب کے آخر میں لنک ملاحظہ کیجیے۔

سنن النسائي (7/ 211):
"عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081):
" قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر".
 فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک دیکھیے:

بال نہ کاٹنے کے لیے یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ

قربانی کرنے والے کا بال اور ناخن نہ کاٹنا اور اس حکم کی حکمت


فتوی نمبر : 144012200223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں