ایامِ حج میں حاجی حضرات پر بال، ناخن وغیرہ کاٹنے اور ہم بستری کی ممانعت ہوتی ہے اور اسی مشابہت سے عام حضرات جن کی قربانی کی نیت ہو ان پر بال، ناخن وغیرہ کاٹنے کی ممانعت تو ہے ہی، کیا ہم بستری کی بھی ممانعت ہے یا ہم بستری کر سکتا ہے؟
قربانی کرنے والے کے لیے ذو الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی ہونے تک بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنامستحب ہے، لیکن بیوی سے ہم بستری جائزہے۔ عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی حکمت کے حوالے سے جامعہ سے جاری شدہ تفصیلی فتاویٰ پڑھنے کے لیے جواب کے آخر میں لنک ملاحظہ کیجیے۔
سنن النسائي (7/ 211):
"عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081):
" قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر". فقط واللہ اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک دیکھیے:
بال نہ کاٹنے کے لیے یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ
قربانی کرنے والے کا بال اور ناخن نہ کاٹنا اور اس حکم کی حکمت
فتوی نمبر : 144012200223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن