SRAایپ میں پیسہ انویسٹ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
SRA(Sales Ranking Assistant) ایک ویب سائٹ اور موبائل اپلیکیشن ہے، جس میں خود کو رجسٹر کروانے والے کے اکاؤنٹ میں فوراً ہی 7 سے 10 ڈالر آجاتے ہیں،لیکن اکاونٹ ہولڈر اس وقت اس رقم کو نکال نہیں سکتا، بلکہ اسے اپنے اکاؤنٹ میں کچھ رقم مثلاً 100 ڈالر ڈلوانے ہوتے ہیں اس کے بعد اس اکاؤنٹ ہولڈر کو روزانہ کی بنیاد پر ایک مقررہ تعداد میں(مثلاً 10) آرڈر موصول ہوتے ہیں جن پر فقط کلک کرنے سے فی آرڈر اس کے اکاؤنٹ میں ایک معمولی رقم (مثلاً0.2ڈالر) جمع ہوجاتی ہے، اس طرح 100 ڈالر انویسٹ کرنے کے بعد اکاؤنٹ ہولڈر یومیہ اس ویب سائٹ پر2 ڈالر کما سکتا ہے، روزانہ ملنے والے آرڈرز کی تعداد اور ہر آرڈر پر حاصل ہونے والے نفع کی مقدار اکاؤنٹ ہولڈر کی طرف سے جمع کی گئی رقم کے مطابق ہوتی ہے، یعنی اگر اس نے 100 ڈالر انویسٹ کیے تو وہ روزانہ آرڈرز پر کلک کر کے 2 ڈالر کما سکتا ہے اور اگر 200 ڈالر انویسٹ کیے تو روزانہ 4 ڈالر کما سکتا ہے،مجموعی نفع کی رقم اس کے اکاؤنٹ میں جمع رہتی ہے اور اکاونٹ ہولڈر اسے نکال بھی سکتا ہے جس پر ویب سایٹ کچھ سروس چارجز لیتی ہے۔اگر اکاؤنٹ ہولڈر کی دعوت پر کسی نئے شخص نے نیا اکاؤنٹ کھول کر اس پر کچھ رقم انویسٹ کی تو اس سے پہلے اکاؤنٹ ہولڈر کو invitation reward کے نام سے بونس کی رقم ملتی ہے۔
SRA کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے یا اس سے رقم نکلوانے کے لیے ضروری ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈرUSDTنامی اسٹیبل کوائن کو استعمال کرے جو کرپٹو کرنسی کی ایک قسم ہے۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ SRA ویب سائٹ پر انویسٹمنٹ کر کے نفع حاصل کرنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:
لہذا مذکورہ ویب سائٹ پر انویسٹمنٹ کر کے پیسے کمانا جائز نہیں ہے، تاہم آپ نے چوں کہ اس میں 200 ڈالر کی رقم جمع کروادی ہے اس لیے آپ کو اپنی اصل رقم کے بقدر رقم نکلوانے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔
نیز شریعت میں محنت کر کے کمانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قرار دیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی نے کبھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کما کے کھائے۔ اور اللہ کے پیغمبر داود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کام کر کے کھاتے تھے۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حضرت کونسی کمائی زیادہ پاک اور اچھی ہے؟ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا اور ہر تجارت جو پاکبازی کے ساتھ ہو۔
صحیح بخاری میں ہے:
"2072 - حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا عيسى، عن ثور، عن خالد بن معدان، عن المقدام رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما أكل أحد طعاما قط، خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود عليه السلام كان يأكل من عمل يده.»"
(كتاب البيوع، باب كسب الرجل وعمله بيده، 3/ 57، ط: السلطانية)
مسنداحمد میں ہے:
"17265 - حدثنا يزيد، حدثنا المسعودي، عن وائل أبي بكر، عن عباية بن رفاعة بن رافع بن خديج، عن جده رافع بن خديج، قال: قيل: يا رسول الله، أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور."
(مسند الشاميين، حديث رافع بن خديج، 28/ 502، ط: الرسالة)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"قوله تعالى: "وإن تبتم فلكم رؤس أموالكم" الآية. روى أبو داود عن سليمان بن عمرو عن أبيه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع:" ألا إن كل ربا من ربا الجاهلية. موضوع فلكم رؤس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون" وذكر الحديث. فردهم تعالى مع التوبة إلى رؤوس أموالهم وقال لهم:" لا تظلمون" في أخذ الربا" ولا تظلمون" في أن يتمسك بشيء من رؤوس أموالكم فتذهب أموالكم".
(سورة البقرة، 3/ 365، ط: دار الكتب المصرية)
احكام القرآن للجصاص میں ہے:
"وروى حماد بن سلمة عن قتادة عن حلاس أن رجلا قال لرجل إن أكلت كذا وكذا بيضة فلك كذا وكذا فارتفعا إلى علي فقال هذا قمار ولم يجزه ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار قال ابن عباس إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال والزوجة".
(سورة البقرة، باب تحريم الميسر، 2/ 11، ط: دار إحياء التراث العربي)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
"(لا) تصح إجارة الدابة (ليجنبها) أي ليجعلها جنيبة بين يديه (ولا يركبها ولا) تصح إجارتها أيضا (ل) أجل أن (يربطها على باب داره ليراها الناس) فيقولوا له فرس (أو) لأجل أن (يزين بيته) أو حانوته (بالثوب) لما قدمنا أن هذه منفعة غير مقصودة من العين، وإن فسدت فلا أجر؛ وكذا لو استأجر بيتا ليصلي فيه أو طيبا ليشمه أو كتابا ولو شعرا ليقرأه أو مصحفا شرح وهبانية".
(حاشية ابن عابدين، كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة، 6/ 34، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101967
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن