اگر میری یا میری زوجہ کی زمین کسی کے ناجائز قبضے میں ہو اور واپسی کے لیے کوشش میں جھگڑے وغیرہ کا بھی امکان ہو اور ہم اس کو اس نیت سے واپس نہ لیں کہ ابھی تو اس فانی زندگی میں یہ قبضہ کیے رکھیں اور کل قیامت کے روز اللہ کے سامنے وہ خود جواب دہ ہوں گے، تو اس کے لیے کیا ہم خود بھی گناہ گار تو نہیں ہوں گے کہ ہم نے اپنا حق ان سے لینے کی کوشش کیوں نہ کی؟ اس بارے میں راہنمائی کی ضرورت ہے۔
جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کردیتا ہے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں جنّت کی ضمانت لی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ یا آپ کی بیوی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے بچنے کےلئے اپنی زمین چھوڑ دیتے ہیں تو یہ بڑی فضیلت والا عمل ہے، حق کو چھوڑنے کی وجہ سے آپ / آپ کی بیوی گناہ گار نہیں ہوں گے، بلکہ اجر و ثواب کے مستحق قرار پائیں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
"عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترك المراء و إن كان محقًّا، و ببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحا وببيت في أعلى الجنة لمن حسن خلقه»".
(سنن ابی داؤد، كتاب الأدب، باب في حسن الخلق، 4/ 253 ، ط: المكتبة العصرية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101063
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن