بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اقرار زنا اور بچے کے نسب کا ثبوت اور قتل کی ذمہ داری


سوال

ایک عورت جو شادی شدہ تھی، اپنے شوہر کے باہر جانے کے بعد کسی غیر اجنبی مرد کے ساتھ تعلقات قائم کیے، تعلق قائم ہوجانے کے بعد اس اجنبی نے اس عورت کو بڑا موبائل دیا۔ شوہر کے آنے کے بعد شوہر کو سارا معاملہ معلوم ہوا اور موبائل چیک کرنے کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی بیوی زنا کار ہے اور یہ میسج اب بھی موبائل میں موجود ہے جو کہ وائس میسیج کی صورت میں کیا گیا تھا۔ جس میں اس کا زانی ہونے میں کوئی شک نہیں رہا اور موبائل بطور ثبوت کے اب بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اس عورت نے زنا کا اقرار خود اپنے شوہر کے سامنے کیا ہے۔ اور شوہر سے اپنی اس غلطی پر معافی بھی مانگ لی، اور عورت نے اقرار اپنے والد کے سامنے بھی کیا ہے۔ بعد ازاں وہ عورت طلاق لے کر باپ کے ساتھ چلی گئی اور اس کو لے کر جاتے ہوئے باپ نے اپنے داماد کو اس بات کی تسلی کروائی کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے گا تووہ شریعت کے مطابق ہی ہوگا، لیکن چند دنوں بعد لڑکی کے باپ نے اپنے کیے ہوئے وعدے انکا ر کیا اور منکر ہوگیا اور اپنے داماد سے کہا کہ میں اپنی بیٹی کا دوبارہ نکاح (فروخت) کررہا ہوں۔ 

سوال نمبر ا کیا شریعت کے مطابق اس عورت کو سنگ سار کیا جا سکتا ہے؟ اور اسی مسئلے کی وجہ سے اختلافات شروع ہوئے اور بات کورٹ تک جا پہنچی اور یہ کیس ابھی بھی کورٹ میں چل رہا ہے اور عورت کے والد نے چند لوگوں کے ہمراہ اپنے داماد کو مارا۔ دوسری بات یہ ہےکہ اس وقت عورت حاملہ بھی تھی ۔

سوال نمبر 2۔ اب بچہ کس کا ہوگا ؟جب کہ والد بچے کی نفی نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کا دعوی کر رہا ہے۔ 

سسرال والوں نے 36 روز کے بچے کو مار کر دفن کردیا اور یہ سارا معاملہ شوہر کو نہیں بتایا گیا 

سوال نمبر 3۔ اب اس بچے کے قتل کا ذمہ دار کون ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ ہر زنا کا اقرار زنا کی حد  کو واجب نہیں کرتا بلکہ وہ اقرار زنا کی حد کو ثابت کرتا ہے جو اقرار زنا کے حق میں صریح ہو اور  چار مرتبہ مختلف مجالس میں اقرار کرے اور کوئی دوسرے قرائن اس زنا کی تکذیب کرنے والے نہ ہوں، لہذا:

1)صورتِ مسئولہ میں چونکہ مذکورہ عورت  کا اقرار شرعی ضابطہ اور قاعدے کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس عورت پر زنا کی حد جاری نہیں ہوسکتی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

(ويثبت) أيضا (بإقراره)  صريحا صاحيا، ولم يكذبه الآخر، ولا ظهر كذبه بجبه أو رتقها (أربعا في مجالسه) أي المقر (الأربعة كلما أقر رده) بحيث لا يراه (وسأله كما مر) حتى عن المزني بها لجواز بيانه بأمة ابنه نهر (فإن بينه) كما يحق (حد) 

(کتاب الحدود، ص:9، ج:4، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

وركنه: إقامة الإمام أو نائبه في الإقامة

ويثبت الزنا بإقراره كذا في البحر الرائق. ولا يعتبر إقراره عند غير القاضي ممن لا ولاية له في إقامة الحدود

(كتاب الحدود، ص/142، ج/2، ط/رشیدیہ)

2) شوہر مذکورہ بچے کی نفی نہیں کر  رہا بلکہ اس کا دعوی کر رہا ہے تو مذکورہ بچے کا نسب اسی سے ہی ثابت ہوگا۔ 

صحیح بخاری میں ہے:

الولد للفراش وللعاهر الحجر

(كتاب الفرائض، ص/999، ج/2، ط/قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان

(الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب، ص/536، ج/1، ط/رشدیہ) 

3) صورت مسئولہ میں جن لوگوں نے بچے کو قتل کیا ہے وہی اس کے قتل کے ذمہ دار ہیں، یعنی وہ گناہ گار ہوں گے اوراگر یہ قتل قتلِ عمدہوعدالت کی ذمہ داری ہے کہ قاتلوں کوقتل کی شرتوعی سزا دے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

عن سعيد بن المسيب: أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قتل نفرا خمسة أو سبعة برجل واحد قتلوه قتل غيلة، وقال عمر: ‌لو ‌تمالأ عليه أهل ‌صنعاء لقتلتهم جميعا 

(أهل ‌صنعاء) : أي لو تساعدوا واجتمعوا وتعاونوا بالمباشرة

(كتاب القصاص، ص/2277، ج/6، ط/دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

وموجب ذلك المأثم والقود إلا أن يعفو الأولياء، أو يصالحوا، ولا كفارة فيه عندنا كذا في الهداية

ولا يقتل الرجل بابنه والجد من قبل الرجال والنساء، وإن علا في هذا بمنزلة الأب، وكذا الوالدة والجدة من قبل الأب والأم قربت، أو بعدت كذا في الكافي ثم على الآباء والأجداد الدية بقتل الابن عمدا في أموالهم في ثلاث سنين

(کتاب الجنایات، ص:2،4، ج:6، ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303100304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں