بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گندم پیسنے کی چکی لگانے کے کاروبار کا حکم


سوال

 میں ایک گندم پیسنے والی چکی لگانا چاہتا ہوں، اس میں میری شرعی راہ نمائی فرمائیں، اور مشورہ دیں!  میں سنا ہے کہ یہ کاروبار جائز نہیں، کیا یہ درست ہے؟

جواب

گندم پیسنے والی چکی لگا کر لوگوں کو ان کی گندم پیس کر دینا اور اس کی اجرت وصول کرنا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ شرط یہ ہے کہ اس اجارہ کے معاملہ میں   عرف میں رائج غیر شرعی صورتوں سے بچا جائے، یعنی شریعتِ مطہرہ نے اجارہ کے جو اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں ان کی مکمل رعایت کی جائے اور جن  امور سے اجارہ فاسد ہوجاتا ہے ان سے مکمل اجتناب کیا جائے، چنانچہ اس کام کا صاف ستھرا اور بے غبار طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کی گندم پیس کر دینے سے پہلے ان سے معاہدہ طے کر لیں کہ میں فی ’من‘ (مثلا) گندم اتنے روپے کی پیس کر دوں گا۔

لیکن اگر یہ معاہدہ کیا کہ میں آپ کی گندم پیس کر دوں گا اور جتنی مقدار گندم کی میں پیس کر دوں گا اس میں سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ میں بطورِ اجرت لوں گا( جیسا کہ یہ صورت بہت سی جگہوں میں رائج بھی ہے) تو  اس طرح کا معاہدہ کرنے سے یہ اجارہ فاسد ہوجائے گا، کیوں کہ پیسے جانے والی گندم میں سے دسواں یا بیسواں حصہ بطورِ اجرت طے کرنا یہ ’’قفیز طحان‘‘ کے حکم میں داخل ہے، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، یعنی ’’ اجرت من جنس العمل‘‘ ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہے؛ اس لیے  کہ جو چیز فی الحال موجود نہیں، بلکہ اجیر (مزدور) کے عمل  سے حاصل ہوگی، اس کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔  دوسری وجہ ایسے معاملہ کے فاسد ہونے کی یہ بھی ہے کہ اس میں اجرت متعین نہیں بلکہ مجہول ہے۔

اس کی متبادل جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی  اجرت  فی ’من‘ یا فی ’بوری‘ کے حساب سے  طے کرلیں، مثلاً ایک من گندم پیسنے  پر ایک سیر یا دو سیر گندم  بطور اجرت طے کرلی جائے، لیکن یہ شرط نہ لگائی جائے کہ پیسی جانے والی گندم  سے ہی مذکورہ اجرت دی جائے گی، اگرچہ بعد میں اسی غلہ سے مزدوری دے دی جائے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاریمیں ہے:

’’وَكَذَا قَالُوا: لَا يجوز إِذا اسْتَأْجر حماراً يحمل طَعَاماً بقفيز مِنْهُ، لِأَنَّهُ جعل الْأجر بعض مَا يخرج من عمله، فَيصير فِي معنى قفيز الطَّحَّان وَقد نهى عَنهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَأخرجه الدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ من حَدِيث أبي سعيد الْخُدْرِيّ، قَالَ: نهى عَن عسب الْفَحْل وَعَن قفيز الطَّحَّان، وَتَفْسِير: قفيز الطَّحَّان: أَن يسْتَأْجر ثوراً ليطحن لَهُ حِنْطَة بقفيز من دقيقه، وَكَذَا إِذا اسْتَأْجر أَن يعصر لَهُ سمسماً بِمن من دهنه أَو اسْتَأْجر امْرَأَة لغزل هَذَا الْقطن أَو هَذَا الصُّوف برطل من الْغَزل، وَكَذَا اجتناء الْقطن بِالنِّصْفِ، ودياس الدخن بِالنِّصْفِ، وحصاد الْحِنْطَة بِالنِّصْفِ، وَنَحْو ذَلِك، وكل ذَلِك لَا يجوز‘‘.

(کتاب الزراعۃ، باب المزارعۃ بالشطر و نحوہ، ج:۱۲ ؍ ۱۶۶ ،ط: دار احیاء التراث )

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفيزاً منه فيجوز.

(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي.‘‘

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:۶ ؍ ۵۶ ،۵۷ ،۵۸ ، ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

’’صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط‘‘.

(کتاب الاجارۃ، الباب الخامس عشر فی بیان ما یجوز من الاجارۃ و ما لا یجوز،ج:۴ ؍۴۴۴،ط:رشیدیۃ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں